ہندوستان میں مسلمان حکمران مذہبی آزادی و اقلیتوں کا تحفظ

0
0

 

 

ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے

آج کے دور میں ظہیرالدین محمد بابر ، نصیرالدین محمدہمایوں،جلال الدین محمد اکبر، محی الدین محمد اورنگ زیب، نورالدین محمد جہانگیر،شہاب الدین شاہ جہان تا بہادر شاہ ظفر تک آج کل الگ الگ یہ الزامات لگائے جاتے ہیں ! کہ اورنگ زیب بہت ہی ظالم بادشاہ تھا جس نے اپنے والد شاہجہاں کو قید کرکے اور دو بھائیوں کو قتل کرکے گدھی پر بیٹھا تھا! تو جناب والا اشوک سمراٹ نے تو اپنے ۹۹ بھاہیوں کو قتل کرکے راج پاٹھ پر قابض ہوا تھا، اجات شترئو اپنے پتابے منال جی کو قتل کرکے گدھی نشین ہوا تھا، رانا اودھے سنگھ پردھم عرف رائے بہادر۱۴۶۴ء میں رانا کھمبہ کو قتل کرکے میوات کا راجہ بنا تھا، راناسانگا پرتم پتا کو قتل کرکے ۱۴۶۸ء میں میواڑ کی گدھی پر راجمان ہوئے،بھینیر نے ۱۵۳۶ء میں اپنے باپ بکرمہ دتیہ کو قتل کرکے چتوڑپر قابض ہوئے تھے!مہارانا پرتاب نے بھی اپنے پتا پتا کی موت کے بعد بھائی کو دیش نکالا دیکر گدھی پر بیٹھے تھے، پریتھوی ران چوہان نے اپنے چچا کا سر کاٹ کر قلعہ کی پھاٹک پر لٹکایا تھا اور خود راجباٹھ سنبھالا تھا!۔
نمبر دو الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ’’مغل شہنشاہ بدیشی اکرمن کاری تھے! تو جناب براہمن راجپوت بھی تو بدیشی اکرمن کاری تھے؛ آریہ شک کشان تو بودھ تھے، مہارانا پرتاب بھی تو بدیشی ایران کے سکین ٹرائب سے تھے جو India Todayمیں ساری تفصیل چھپی ہوئی سامنے آئی تھی؟ نمبر تین الزام یہ ہے کہ مغل بادشاہ بڑے ہی عیاش تھے! جنہوں نے بہت زیادہ شادیاں کر رکھی تھیں! جن میں اکبر بادشاہ کی ۹ بیویاں تھیں اور اورنگ زیب عالمگیر کی ۴ بیویاں تھیں؟ تو جناب مہارانا پرتاب سنگھ کی ۱۱ رانیاں تھیں،شوا جی مہاراج کی ۷ بیویاں تھیں،پرتھوی راج چوہان کی ۱۴ بیویاں تھیں، اودھے سنگھ کی ۲۰ بیویاں تھیں،امر سنگھ کی ۲۶ بیویاں تھیں جب کہ اجیت سنگھ کی ۵۰۰ بیویاں تھیں اور راجہ جے سنگھ کی ۱۴۰۰ بیویاں تھیں؟
نمبر چار یہ بتایا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ بابر نے ہندو مسلمان کا تفرقہ کیا! جناب مثال کے طور پر رانا سانگا اور بابر کی لڑھائی ہندو مسلمان کی لڑائی نہین تھی! تو جناب تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رانا سانگا کی طرف سے ۱۰ ہزار فوج لیکر چڑھائی کی گئی تھی ، جس کے سپہ سالارحسن خان میواتی تھے! اور رانا سانگا اور نے بابر کو ہندوستان فتح کرنے کیلئے بلایا تھا،محمود لودھی بابر کے خلاف لڑھ رہے تھے۔رانا پرتاب اور جلال الدین محمد اکبر کا سینا پتی مان سنگھ تھا ، لڑائی میں شوا جی کا سینا پتی حکیم خان تھا۔یہ لڑائی بھی ہندو مسلمان کی لڑائی نہیں تھی۔تو جناب اورنگ زیب عالم گیر اور شوا جی کی لڑائی بھی ہندو مسلمان کے درمیان نہ تھی بلکہ اورنگزیب کا سینا پتی جے سنگھ تھا!اور شوا جی کی فوج میں ۳۳ فی صد فوج مسلمان تھی۔مہارانا پرتاب سمپورن بھارت کیلئے نہیں لڑرہے تھے بلکہ شوا جی مہاراج ۳۳ بائی ۴۰ یعنی ۱۸۶۶۰ کلو میٹر بھومی کیلئے لٹرہے تھے۔ ادھر اورنگ زیب عالمگیر بھی ۵۰ لاکھ کلومیٹر سمپورن بھارت کیلئے لڑرہے تھے، اسی لئے وہ عالمگیر بھی کہلائے تھے! جو ماتر بھومی پر آج ایک عرب ۴۰کروڑ بھارتیوں کی وراثت ہے، اسی طرح اکبر بادشاہ ایک بڑے سمپورن بھارت کے لئے لڑے تھے اور اکبر دی گریٹ کہلائے! اسی لئے اورنگ زیب اور اشوک سمراٹ اتہاس کی تاریخ میں درج ہیں جنہوں نے آکھنڈ بھارت بنایا تھا!
آج یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں نے تاج محل بنانے کیلئے ہندوستان کو کنگال کر دیا تھا! یہ بھی ایک الزام ہے ۔جب کی تاج محل کے اکوٹینٹ لالہ اترداس کے بہی کھاتے کے مطابق تاج محل کی تعمیر پرچار کروڑ،اٹھارا لاکھ،اٹھتالیس ہزار،چارسو چھبیس روپے سات آنے اور چھ پائی (۴۲۶،۴۸،۱۸،۴ روپے سات آنہ اور چھ پائی)کا خرچہ آیا تھا۔جو آج دنیا کا ساتوں عجوبہ ہے اور سالانہ ایک لاکھ کروڑ کی سالانہ دیش کو آمدنی دے رہا ہے۔جب کہ شوا جی مہاراج نے سات کروڑ روپے اپنے راج تلک پر صرف کئے تھے؟ جس آج دیش کو ایک پیسہ بھی آمدنی نہیں ہیـ؟
تو جناب مغل شہنشاہوں نے اپنا اتہاس صرف کاغذ پر نہیں لکھا بلکہ ہندوستان کی سر زمین پر ایسی تعمیرات بنا کر ہندوستان کو سجایا ہے جن کو رہتی دنیا یاد رکھے گی اور ہمارا وطن عزیز کروڑوں و عربوں روپے کا زر مبادلہ بھی بھارت کو آرہا ہے! ان مین تاج محل ہو،لال قلعہ ہو ، آگرہ قلعہ ہو، فتح پور سیکری ہو،دہلی کی جامعہ مسجد ہو،ہمایوں کا مقبرہ ہو ، اعتماد الدولہ ہو، موتی مسجد ہو، فتح پوری مسجد ہو،آگرہ مسجد ہو، چاندنی چوک ہو، نہر بہشت ہو، بیوی کا مقبرہ ، اکبر کا مقبرہ اور سینکڑوں ایسے سمارک پتھروں پر لکھے ہیں ، جن کو صدیوں سے بیرون ممالک سے سیاح لوگ کروڑوں کی تعداد میں زیارت کرنے آتے ہیں اور ہمارے بھارت کے ٹورازم کو بہت ہی فروغ ملا ہے۔
آج یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باہر سے مسلمان حکمران آئے اور یہاں کی مسلم آبادی میں اظافہ کیا، ہندوں پر بلاتکار کیا ! مذہب تبدیل کروایا اور ہندوں کو زبردستی مسلمان بنا دیا! تو اس بات پر بھی زرہ غور کرتے ہیں کہ انگریزوں نے ۱۸۷۲ء میں ہندوستان میں پہلی مردم شماری کروائی تھی،یہ جاننے کیلئے کہ ہندوستان میں کس مذہب کے کتنے لوگ رہتے ہیں؟ان کا یہ ماننا تھا کہ ۶۶۶ سال باہر سے آکر مسلمان راجاوں نے بھارت پر راج کیا ہے تو پتہ لگے کہ مسلم حکمرانوں نے کتنی تعداد مسلمانوں کی بڑائی ہے۔تو 1872 کے Censusسے پتہ یہ چلا کہ مسلمانوں کی آبادی صرف ۲۴ فی صد تھی اور ہندوں کی آبادی ۷۲ فی صد تھی۔اگر مسلمان حکمران ہندوں کا مذہب تبدیل کرتے تو اس مردم شماری کے آنکڑے کچھ مختلف ہی ہوتے! اگر مذہب کی بنیاد پر اگر کوئی زور زبردستی ہوئی ہوتی تو پونے سات سو سال کی مسلم حکومتوں نے مسلمانوں کی تعداد ۷۲ فی صد اور ہندوں اقلیت میں ہوجاتے! اصلیت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ہندوستان ایک واحد ملک ہے کہ جہاں باہر سے مسلمان حکمران آئے یہان فتح کے جھنڈے لہرائے لمی لمبی حکومتیں کیں مگر ہندوں مسلمان تناسب جتنا تھا اتنا ہی رہا اور ہندوستان کو مسلم دیش نہیں بنایا! دوسری طرف دیکھئے بنگلہ دیش سے ملیشیائ،انڈونیشیائ،دکن فلپائن تک سب مسلمانوں کی تعداداکثریتی ہے اور مسلم حکومتیں بھی ہیں،مغرب میں افغانستان،پاکستان سے لیکرترکی،ماریٹینیا تک تمام مسلم ممالک ہیں۔شمال میں سنٹرل ایشیاء کرگستان سے لیکر ہیزگوبینیاء تک سب مسلم ممالک ہیں جہاں جہاں مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے آج بھی مسلم اکثریتی آبادی ہے،جن میں قریب ۵۷ مماملک آج کی تاریخ میں مسلم ممالک ہیں کسی نے کسی پر زور زبردستی نہیں کی!
پیچھے رہ جاتا ہے بھارت جہاں آج ۸۰ فی صد ہندوں اور صرف ۱۴ فی صد مسلمان آباد ہیں۔۱۴ فی صد مسلمانوں کیلئے انہوں نے پوری یہ راج نیتی بنائی ہے کہ ان کا کچھ کرنا یا دینا بنتا ہے درشٹی کرن!۱۹۴۷ء میں آزادی کے وقت محمد علی جناح نے تو صرف ۳۰ فی صد ریزرویشن مسلمانوں کیلئے نیشنل اسمبلی میں مانگتے تھے ! جب الگ دیش پاکستان بنایا گیا تو یہChoiceدی گئی تھی کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں جائیں،تو کچھ مسلمانوں نے اپنی مرضی اور چاہت سے پاکستان ہجرت کی! تو جن لوگوں نے پاکستان جانا تھا وہ چلے گئے ، باقی جو مسلمانوں کی تعداد یہاں بچی ان کا یہ ماننا تھا کہ ہمارے بزرگوں کے مزارات یہاں ہیں وہ یہاں ہی پشتوں سے رہتے تھے،ہم بھی یہاں ہی رہیںگے۔ کیونکہ ہم بزرگوں کے مزارات پر فاتح پڑھتے رہیں گے۔ایک بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلمانوں کی تعداد آج بھی اتنی ہی ہے مسلمان حکمرانوں کے وقت میں تھی۔آج بھی ۱۴ فی صد مسلمان بھارت میں رہ رہے ہیں۔بھارت ایک واحد دیش ہے جہاں مسلمانوں نے صدیوں تک حکمرانی کی مگر بھارت مسلم دیش نہ بن سکا اور نہ ہی مسلمانوں کی تعداد ہی بڑھی !اور نہ ہی تعداد ہی بڑھی۔یہاں وہی ۸۰ اور ۱۴ فی صد کا تناسب برابر رہا۔
مگر آج کی راج نیتی میں یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو کچھ دینا ہی نہیں بنتا!!یہ تشٹی کرن بنتا ہے؟یہ چھوٹی سی اقلیت ہے اس کی دیکھ بال کرنا ہمارا کرتوے بنتا ہے۔مگر اس کے برعکس یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان پاکستان چلے جائیں!آپ یہ کیوں کہتے کہ بھائی سلمان خان،شارخ خان،آمر خان ،سیف علی خان کو پاکستان جانا چاہیے؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ انڈونیشیاء یا سعودی عرب جائو؟ جناب آپ تو یہ گردانتے ہو کہ سب کے سب مسلمان پاکستانی ہیں!! کیونکہ صرف اور صرف یہی آپ کی راج نیتی کی بنیاد ہے!۔
٭ ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے جغرافی پروفیسر اور ریٹائرڈ کالج پرینسیپل ہیں ، راجوری جموں کشمیر میں رہائش پزیر ہیں۔
ll : 9419171179 .

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا