یواین آئی
سری نگرکشمیری صحافیوں اور مقامی اخبارات کے مالکان نے منگلوار کو یہاں سرکردہ صحافی سید شجاعت بخاری کے قتل اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے باغی ممبر اسمبلی چودھری لال سنگھ کی طرف سے کشمیری صحافیوں کو دی گئی دھمکی کے خلاف خاموش احتجاجی مارچ نکالا۔ مختلف مقامی، قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ درجنوں صحافی اور متعدد مقامی اخبارات کے مالکان منگلوار کو دوپہر کے وقت یہاں پریس کالونی میں جمع ہوئے اور لالچوک کے تاریخی گھنٹہ گھر تک خاموش احتجاجی مارچ نکالا۔ احتجاجی مارچ کے شرکاءنے منہ پر کالی پٹیاں باندھی تھیںاور ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرس اٹھا رکھے تھے۔ پلے کارڈس اور بینرس پر یہ تحریر درج تھیں : ’عادی مجرم اور بی جے پی ایم ایل اے چودھری لال سنگھ کے متنازع ریمارکس کی تحقیقات کی جائے، ہتھیاروں پر پابندی عائد کی جائے الفاظ پر نہیں ، شجاعت بخاری صحافت کے سپاہی، جرنلزم جرم نہیں ہے ، لال سنگھ کو گرفتار کیا جائے، صحافیوں کو قتل کرنا بند کیا جائے‘۔ سینئر صحافی اور انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین نے احتجاجی مارچ کے حاشئے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ شجاعت بخاری کا قتل اگرچہ صحافت کے لئے ایک دھچکا ہے لیکن ہم اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا ’شجاعت بخاری کے قتل سے ہمارے کام کو دھچکا لگا ہے۔ ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ ہم ایک آواز میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس قسم کی سیاست، اس طرح کی ہلاکتوں ، لال سنگھ کی دھمکیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اس کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ ہم نے آج بنیاد ڈالی ہے اور ہم اس کو آگے لے جائیں گے‘۔ انورادھا نے چودھری لال سنگھ کی دھمکی پر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی یہاں کے حالات کو مزید خراب کرنا چاہتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا ’لال سنگھ کی دھمکی سے لگتا ہے کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ یہاں کے ماحول کو مزید خراب کیا جائے۔ یہاں کشیدگی میں اضافہ ہو، یہاں تشدد کا ماحول بنا رہے۔ یہاں دھمکانے کا ماحول بنا رہے‘۔ صحافی اور کالم نویس گوہر گیلانی نے کہا کہ شجاعت بخاری کے قتل سے آزاد سوچ کا قتل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ’شجاعت صاحب کے قتل سے آزاد سوچ کا قتل ہوا ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے قتل سے یہاں کے صحافی سچ لکھنا بند نہیں کریں گے۔ ہم پولیس سے استدعا کرتے ہیں کہ تحقیقات کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ ان قاتلوں کا پتہ لگایا جائے جنہوں نے شجاعت صاحب کی جان لی اور ان کے قلم کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ہم کام کرنا بند نہیں کریں گے۔ دنیا میں ایسا کوئی ہتھیار نہیں بنا ہے جو کسی کی آزاد سوچ کو ختم کرسکے‘۔ گوہر گیلانی نے لال سنگھ کی دھمکی پر کہا کہ وہ متنازع بیانات دینے کے عادی ہیں۔ انہوں نے کہا ’لال سنگھ ایک عادی مجرم ہے۔ وہ ہمیشہ سے متنازع بیانات دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے ایک بار جموں میں مسلمانوں کو 1947 کے قتل عام کی یاد دلائی تھی۔ انہوں نے کشمیری صحافیوں کا نام لیا ہے۔ انہوں نے کشمیری صحافیوں کو کھلی دھمکی ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے‘۔ واضح رہے کہ بی جے پی کے باغی لیڈر چودھری لال سنگھ نے 22 جون کو جموں میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک متنازع بیان دیتے ہوئے کشمیری صحافیوں سے کہا کہ وہ سید شجاعت بخاری کے قتل سے سبق سیکھ لیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ کشمیری صحافیوں نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملے کو لیکر ہندوستانی عوام میں ڈوگروں کو لیکر غلط تاثر پیدا کیا۔ قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہنے والے شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام نامعلوم بندوق برداروں نے اپنے دو ذاتی محافظین کے ہمراہ پریس کالونی سری نگر میں اپنے دفتر کے باہر نذدیک سے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کردیا۔ لال سنگھ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا ’کشمیر کے صحافیوں نے ایک غلط ماحول پیدا کردیا تھا۔ اب تو میں کشمیر کے صحافیوں سے کہوں گا کہ وہ اپنی صحافت کی لائن کھینچ لیں۔ فیصلہ کریں کہ آپ کو کیسے رہنا ہے۔ ایسے رہنا ہے جیسے وہ بشارت (شجاعت بخاری) کے ساتھ ہوا ہے۔ اس طرح کے حالات بنتے رہیں۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو سنبھالیں۔ وہ ایک لائن کھینچیں۔ تاکہ یہ بھائی چارہ ختم نہ ہو اور ترقی ہوتی رہے‘۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں تھا جب لال سنگھ نے کشمیری صحافیوں کے لئے سخت کلمات کا استعمال کیا۔ 13 اپریل 2018 کو جب لال سنگھ نے اپنی جماعت بی جے پی کے دباو¿ میں آکر بحیثیت ریاستی وزیر استعفیٰ دیا تو انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا ’کشمیر کے نام نہاد میڈیا نے آلتو فالتو بکواس کی۔ چار سو کلو میٹر کے فرق کے باوجود ان کو سب خبر ہوتی تھی۔ جموں میں رہنے والے میڈیا کو کوئی خبر نہیں‘۔ یہ پوچھے جانے پر کیا انہوں نے دباو¿ میں آکر اپنا استعفیٰ دیا تو ان کا کہنا تھا ’دباو¿ تو دیش پر بنا ہی تھا۔ ہمارے بڑے بڑے (صحافیوں)، بھائیوں اور دیوتاو¿ں نے پورے ملک کے اندر ایک عجیب تاثر پیدا کیا تھا‘۔