گوگل ( Google) دور جدید کا رئیس الاستاد ہے

0
0

محمد امین اللہ

جب سے انسانوں نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے۔ انسان اللّٰہ کی ودیعت کئے گئے علوم کے ذریعہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور پر آسائش بنانے کے لئے دنیا کے اندر اللّٰہ کے فراہم کردہ اسباب کو دریافت کرتا رہا ہے اور نئی نئی چیزوں کو ایجاد کرتا رہا ہے ۔ اس میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہے والدین اگر نسل نو کی آمد کا ذریعہ ہیں تو اساتذہ نسل نو کی علمی ، اخلاقی ، روحانی اور دیگر تمام ضروریات زندگی کے علوم کو منتقل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ فی زمانہ کوء بھی استاد تمام علوم پر مہارت نہیں رکھتا۔ چند ہی ایسے نابغہ روزگار ماہرین علوم گزرے ہیں جنہوں نے اک سے زائد علوم پر دسترس حاصل کی اور ان کے شاگردوں نے اور بعد
کے آنے والی نسلوں نے استفادہ حاصل کیا۔ جن اساتذہ کی علمی کاوشیں کتابی شکل میں آئیں وہ آج بھی دنیا کے مختلف لائبریریوں میں اک قیمتی دولت کی طرح محفوظ ہیں۔ ان اساتذہ میں زمانہ قدیم کے ماہرین علوم بھی ہیں اور اسلام آنے کے بعد مسلمان ماہرین علوم کی تصنیفات اور علمی کارنامے بھی لائبریریوں کی زینت ہیں۔
علوم کی درجا بندی کچھ اس طرح کی ہے اک علم تو علم الوحی ہے جو منجانب اللہ نبیوں اور رسولوں کو بتوستط جبرائیل علیہ السلام عطا کیا گیا ہر دور کے نبی اور رسول کو ان کے زمانے کی قوم کو ہدایات کے لئے توحید ورسالت ، فکر آخرت اور اخلاقیات کی تعلیم سے نوازا گیا اور جن رسولوں کو آسمانی کتابوں کی صورت جس میں تورات ، زبور ، انجیل و قرآن کے ذریعے ہدایات سے سرفراز کیا گیا اس میں ختم رسل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہر اعتبار سے جامعیت و اکملیت عطا ہوئی اور اللّٰہ کی آخری کتاب قرآن مقدس تمام علوم کا سرچشمہ ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تا قیامت تک انسانی فلاح و بہبود کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم
کی ہے۔دوسرا علم علم البدن ہے جو انسانی اور حیوانی زندگی سے عبارت ہے۔ تیسرا علم علم الاشیاء ہے جو اب تک قدرتی یا مصنوعی طور پر معرض وجود میں آنے والی تمام اشیاء کے بارے میں تعلیم اور معلومات فراہم کرتا ہے۔شداد ، نمرود اور فراعنہ مصر کے زمانے کے ترقی یافتہ علوم چونکہ کتابی شکلوں میں موجود نہیں ہیں لہذا اہرام مصر کی تعمیراتی انجینئرنگ اور حنوط شدہ لاشوں پر کیمیائی اجزاء کے فارمولے آج کے انسانوں کے دسترس میں نہیں ہیں۔ اسی طرح نینوا کے عجائبات کی تعمیرات کی ٹکنالوجی بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اب تک جو اٹکلیں لگاء جاتی ہیں سب کے سب تشنہ
لبی کا شکار ہیں۔ گو کہ پتھروں پر کنندہ شکلی نقوش کو ماہرین آثار قدیمہ پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 4500 سالہ موہن جوداڑو کی تحریرات بھی اب تک پڑھی نہیں جا سکیں۔ الف لیلیٰ کی ہزار داستانوں میں طلسماتی گتھیاں سلجھانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ امریکہ میں تو اس پر اک تحقیقاتی ادارا بھی قائم ہے۔اسلام آنے سے قبل ہزاروں سالوں تک پوری دنیا یونانی فلسفیانہ علوم کی گرویدہ تھی۔ جہاں بڑے بڑے فلسفی اور نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں۔ جس میں سقراط ارسطو قابل ذکر ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یونانیوں کے علوم کا نہ صرف مطالعہ شروع کیا بلکہ اس فلسفیانہ علوم کو تجرباتی علومِ میں ڈھال کر ایجادات و تحقیقات کے نئے دروازے کھول دیئے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ نے تو فرمایا۔ علم حاصل کرنا ہر مرد و زن پر لازم ہے۔ آپ نے فرمایا علم سیکھنے کے لئے اگر تم کو چین کا سفر کرنا پڑے تو کرو۔
سلام کے ابتدائی دور میں ہی تحقیق و تالیف کا کام سرعت سے شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کے علاوہ مسلمان سلاطین نے بھی تسخیر کائنات و ایجادات کے میں اپنا لوہا منوایا۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی تدوین قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سائنس کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے ہی یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اندلس کی گلیاں زیتون کے چراغوں سے روشن ہوا کرتی تھے اس وقت لندن اور پیرس کی گلیوں میں کیچڑ ہوا کرتے تھے۔جب بلخ اور بخارا کی رسد گاہوں میں ستاروں کی چال ناپی جا چکی تھیں اس وقت پوپ گیلیلیو کو پھانسی کی سزا دے چکا تھا۔آج تمام علمی کارنامے کتابی صورت میں لندن اور دنیا کے مختلف لائبریریوں میں موجود ہے۔ ہلاکوخان نے بغداد کو پامال کیا تو اس نے بغداد کی لائبریری کو جلا کر لاکھوں کتابیں دریا دجلہ میں بہا دیا جس سے دریائے دجلہ کا پانی سیاہ ہو گیا اگر وہ علمی کارناموں کی کتابیں موجود ہوتی تو مسلمان بہت پہلے چاند پر اتر چکے ہوتے۔اب میں گوگل Google بحیثیت رئیس الاستار کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کروں گا۔
گوگل دور جدید کا ابلاغی سمندر ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ علمی ، معلومات کا ایسا ذخیرہ ہے جو بھی اس سے جو کچھ بھی جاننا یاسیکھنا چاہتا ہے اس کو پل بھر میں اسکو مطلوبہ معلومات فراہم کر دیتا ہے۔ یہ اک اہسا رہنما استاد ہے جو مثبت اور منفی ، دینی اسلامی ، سائنس کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔ سائل نے جیسے ہی سوال کیا فورآ اسے اس کے مطلوبہ معلومات اور سوالات کا حل پیش کر دیتا ہے۔
یہ بیکوقت زمین ، سمندر اور فضا ہر جگہ رہنمائی دینے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ یہ سائنس ، فلسفہ ، نفسیات ، جنسیات ، عسکریت ، تخریبی سرگرمیوں ، حتیٰ کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کا کام بھی کرتاہے۔ شرق میں بیٹھا ہوا شخص غرب میں اپنے جائے سکونت سے اور اپنے پیاروں سے با خبر ریتا ہے۔گوگل کے معلوماتی سائٹ پر دور قدیم کی مذہبی ،تاریخی، سائنسی ، فلسفہ اور معاشرتی ، و جغرافیائی ، سیاحتی ،سیاسی کتابوں کا کا ذخیرہ موجود ہے جو انگلیوں کے اک اشارے سے حاصل کیئے جا سکتے ہیں۔ تمام آسمانی کتابیں ان کا ترجمہ و تفاسیر تشنگان علم کے لیئے موجود ہے۔ قرآن مقدس کے دنیا کے بیشتر زبانوں میں مختلف مفسرین کے تراجم و تفاسیر موجود ہے بلکہ مشہور زمانہ قرائ کی تلاوتیں ان کی پر کیف آوازوں میں بھی سنے جا سکتے ہیں۔ صحاح ستہ کی تمام احادیث ، کتاب الرجال، فقہ سب کچھ
موجود ہیں۔جغرافیا ، طبیعیات ، کیمیا ، حیاتیات ،تاریخ ، فلسفہ ٹیکنالوجی جدید سائنسی تحقیقات و علوم۔ علم فلکیات ، علم ارضیات ،نفسیات، علم البحر ، ادویات کے تمام شعبوں مثلاً اور ویدک ، ہومیو پیتھک ، ایلوپیتھک ، علم نجوم ، علم السحر ، علم جنسیات ، یعنی اب تک دور قدیم و جدید کے تمام علوم کی رہنمائی موجود ہے۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ دنیا کے کروڑوں انسانوں ہر وقت اپنے مطلوبہ معلومات
اور رہنمائی کے لئے 24 گھنٹے گوگل کے ویب سائٹ پر موجود ہوتے ہیں اور ہر ایک کو یہ مستفیض کرتا رہتا ہے۔ تفریح کے لئے ڈرامے ، فلمیں ، کھیل سب کچھ موجود ہے۔ یہ کسی کو مایوس نہیں کرتا دیندار ہو یا دنیا دار ، جرائم پیشہ افراد ہوں یا فیصلہ کرنے والے جج حضرات سب ہی اس رئیس الاستاد کی شاگردی میں ہمہ وقت سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مفتیان دین کے فتوے ، ڈاکٹروں کے آن لائن مفت مشورے ، تمام علوم کو حاصل کرنے کے آن لائن مفت کلاسیں اور ڈگریوں کے
حصول بھی آسان ہے۔ اس سب کے باوجود یہ شیطانی معلومات اور علم بذریعہ آڈیو وڈیو کا اک دلدل ہے اور کروڑوں نوجوان لڑکیلڑکیاں اس کے اثیر ہو کر اپنی زندگیوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کاروبار اس کے ذریعے ہو رہا ہے۔دنیا کے تمام ملکوں کا نظام اس سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈارک ویب پر بیٹھے ہوئے ملکوں کے سرکاری اور پرائیوٹ ہیکرز اس نظام میں داخل ہوکر تباہی پھیلانے کی وارداتیں کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ گوگل اک سرچ انجن ہے اس کے کرشماتی حیثیت کو دیکھ کر میدان حشر کا منظر جو قرآن کریم میں بیان کیا ہے گھوم جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔; جب قبریں کھولی جائیں گی تو تم دیکھ لوگے کہ آگے کیا بھیجے تھے پیچھے سے کیا لے کر آئے ہو۔ سورہ الانفطار۔آدم سے لے کر آخری انسان تک ہر آدمی اپنا اعمال نامہ دیکھ رہا ہوگا اور باری تعالیٰ ہر شخص سے فرداً فرداً مخاطب ہوگا۔ یہایجادات ایمان بالاخرت کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ یہ بات کہی جاتی ہے اور درست بھی ہیکہ زمانہ قرآن کا بہترین مفسر ہے۔ مگراس استاد بے مثل کا موجد بھی انسان ہے مطلب اس آلے کو دنیا کے ممالک اور اس ٹکنالوجی کے ماہر افراد جب چاہتے ہیں اس کاناطقہ بند کر دیتے ہیں۔ ہس انسانوں کا بنایا ہوا آلہ اس انسان کا غلام اور قیدی ہے۔
حسن عسکری نے درست کہا ہے کہ دور حاضرمیں برائی کو جس سرعت کے ساتھ پھیلانا آسان ہے اسی طرح نیکی کا ابلاغ بھی آسان ہے۔تہذیب پھر سے آء ہے پتھر کے دور کی۔یہ اور بات ہے کہ نئے پیرہن میں ہے۔جنگل میں بے لباس تھی کل کی جان جاں۔آج بے لباس بھری انجمن میں ہے۔پتوں کا پیرہن تھا آنکھوں میں شرم تھی۔آج خوش لباسی میں بکتا بدن بھی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا