ظہیر عباس/حیدر بانڈے
منڈی//تحصیل منڈی سے پانچ کلو میٹر دور سلونیاں گاو¿ں کے محلہ لوہاراں کے پرائمری اسکول کو 2014 کے قیامت خیز سیلاب بیحد نقصان پہنچا تھا لیکن اسکول کے بچّے اب تلک اسکول کی اسی عمارت میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جو کبھی بھی کوئی بھی حادثہ درپیش ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے – 2014 میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے جہاں جموں و کشمیر میں ہل چل مچا دی وہیں پر سلونیاں کا پرائمری اسکول بھی ان بارشوں کی وجہ سے متاثر ہوا تھا لیکن اس واقعہ کو قریباً پانچ سال ہونے کوہیں اور اب تلک محکمہ تعلیم کی نیند نہیں کھل پائی – آج بھی اس اسکول میں 51 بچّے زیرِ تعلیم ہیں مگر اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے وہاں پہنچتے ہیں – اس سلسلہ میں جب یہاں کے ایک مقامی باشندہ حاجی محمد بشیر سے بات کی گئی تو انھوں بتایا کہ 2014 میں جب طوفانی بارشیں ہوئیں تو اس وقت اس اسکول کو بہت نقصان ہوا اور ہمارے بچّوں کی تعلیم پر گہرا ثر پڑا – ہم نے اس متعلق محکمہ کی جانب رجوع کیا اور ان کے علم میں یہ بات لائی مگر آج تک محکمہ نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی اور یہاں کے طلاب کامستقبل داﺅ پر لگا کر محکمہ میں براجمان کرسیوں پر بیٹھے لوگ اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہیں ہمیں ایک انگلی سے اتار کر دوسری پر چڑھایا جا رہا ہے اور کسی آفیسر نے یہاں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی – اسی گاو¿ں کے مقیم قمردین نے بھی لازوال سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب اسکول بری طرح سے تباہ ھوگیا اور بچے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے تو اس وقت زونل ایجوکیشن آفیسر ساتھرہ نے اسکول کو میرے گھر منتقل کیا اور وہاں پر دو سال تک اسکول رہا لیکن ایک روز وہاں پر بچّوں کے لئے مڈ ڈے میل تیار کرتے ہوئے گیس لیک ھوگئی اور میرا پورا مکان دیکھتے ھی دیکھتے راکھ میں تبدیل ہو گیا جس کی FIRبھی درج ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک محکمہ کا کوئی بھی شخص یہاں خبر لینے نہیں آیا – اس کے بعد بچّوں کو اسی ٹوٹے اسکول میں جانا پڑا – انھوں نے محکمہ تعلیم پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس محکمہ کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ اس غریب عوام کی خبر لیں جن کے بچّے موت کے منھ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں – عبدل رحمن نامی شخص نے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ہمارے بچّے اسکول کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو ہم کو یہ امید نہیں ہوتی کہ وہ واپس اپنے گھر آئیں گے کیوں کہ اسکول کی حالت اتنی خستہ ہے کہ کبھی بھی عمارت ان بچوں پر گر سکتی ہے – وہاں کے دیگر مقامی لوگوں نے محکمہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا محکمہ کو اس اسکول اور یہاں کے بچوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی جیے یا مرے یا کہ اس محکمہ کے پاس اسکولوں کی مرمت کے لئے کوئی فنڈ نہیں ہےں! انھوں نے کہا کہ ہم ضلع ترقیاتی کمشنرپونچھ سے التماس کرتے ہیں کہ وہ خود آکر اس اسکول کی حالت دیکھیں کیونکہ عوام اس محکمہ کو بار بار مطلع کر کے تنگ آچکی ہے لیکن محکمہ کے کان پر جو تک نہیں رینگتی – انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہمارے بچّوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار محکمہ تعلیم ہوگا – اس سلسلہ میں جب نمائندہ نے اسکول کے ایک استادسے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ 2014 کی طوفانی بارشوں سے قبل یہ اسکول نہایت اچھی حالت میں تھا مگر بد قسمتی سے ان بارشوں نے اسکول کو بےحد نقصان پہنچایا – انھوں نے کہا کہ اس عمارت میں بچوں کو تعلیم دینا نہایت مشکل ہے کیونکہ عمارت بوسیدہ ہے جس میں زیرِ تعلیم بچوں کے والدین دن میں دو چار بار آکر یہ معلوم کرتے ہیں کہ ان کے بچّے ٹھیک ہیں یا نہیں – انھوں نے محکمہ سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے بارے میں غور و خوض کر کے اسے جلد از جلد حل کیا جائے –