گفتگو بندنہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

0
209

(ہند وپاک تعلقات کے  پس منظر میں اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام) (ہند وپاک تعلقات کے  پس منظر میں اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام)

پروفیسر محمداسداللہ وانی

پروفیسر محمداسداللہ وانی

9419194261

 

 

 

 

 

 

۱۹۴۷ء میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان نام کا ایک اورملک معرضِ وجود میں آیا۔ اب ہم ان دونوں ملکوں کو اختصارکے ساتھ ہندوپاک کہتے ہیں ۔ملک کی یہ تقسیم فقط زمین اور جائداد کی تقسیم نہ تھی بلکہ یہ تہذیب، ثقافت، اخوت، یگانگت، زبان، ادب، عقائد،رواج، نظریات، پیار ،محبت اور دلوں کی تقسیم تھی۔ہم اسے انسان دوستی،محبت اور امن کی تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں۔بالاجمال یہ متحدہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی اورثقافتی سرمایے اورخونی رشتوں کی تقسیم تھی جس کی تہہ میں سیاست ،اقتدار کی رسہ کشی ، منافرت، ناعاقبت اندیشی اور مذہبی جنون کی کارفرمائی رہی ہے۔میں یہاں ہند وستان اور پاکستان کے مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی سرمایے کے تعلق سے فیض احمد فیض کے شعر ی مجموعہ ’زنداںنامہ‘ کے بارے میں ’رودادِ قفس‘ کے عنوان سے میجراسحاق کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرکے اس حقیقت کا اظہار کرناچاہوں گا کہ :
’’ملکوں کی سیاسی واقتصادی حدیں وقت کے مطابق بدلتی رہتی ہیںلیکن ایک خطۂ زمین کے کلچر،زبان ، ادب،آرٹ،موسیقی،فنِ تعمیراور دوسری ثقافتی
قدروں کا قِوَام سیکڑوں ہزاروںسالوں کی ریاضت کے بعد تیار ہوتا ہے اوراس کی بنیادی ترکیب میںتبدیلی آسان نہیں ہوتی۔پاکستان اور ہندوستان
میں سیاسی دھینگا مشتی کیسی بھی صورت اختیار کرجائے دِلّی،لکھنؤ،حیدرآباداور لاہور کی گنگا جمنی تہذیبیں اپنی جگہ قائم رہیں گی اور میر اور غالب میں سب کی
سانجھ رہے گی۔ ہندوستانی اور پاکستانی تہذیبوں کے درختوں کی جڑیں موہنجودھارو،گیا،ہرش پور،گندھارا، ٹیکسلا،متھرا، بنارس،اجنٹا، اجمیر، قطب مینار،
تاج محل،جامع مسجد،شالامارہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔شاخوں میں کہیں سمرقند وبخارااورکہیں عرب وعجم سے آئے ہوئے پیوند اپنی بہار دکھا رہے ہیں اور کہیں
پراچین ڈ الیںجوں کی توں قائم ہیں۔دوسرے کی ضد میںجڑوں کو نقصان پہنچانا یا شاخوں کی نوچ کھسوٹ کرنااپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے‘
فیض صاحب اُن انسانیت نواز روایات سے تعلق رکھتے ہیں جوہزاروں سالوں سے دونوں ملکوں کا خاصہ رہی ہیں ۔وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں ،جسے امیر
خسرو،بھگت کبیر،خواجہ معین الدین چستی،بابانانک،بابا فرید،ابوالفضل ،فیضی،بُلھے شاہ،وارث شاہ،شاہ عبداللطیف بھٹائی،رحمان بابااوردوسرے بہت
سے بزرگوں نے فیض بخشا ہے ‘‘
میجراسحاق کے یہ خیالات اگرچہ فیض احمد فیض کی شاعری کے بارے میں ہیں لیکن ان کااطلاق ہند وپاک کے ہر اُس کی شاعراور ادیب پر ہوتا ہے جو شعروادب کی تخلیق میں منہمک یافنون ِلطیفہ کے کسی شعبہ سے وابستہ ہے یا آئندہ رہے گا ۔اس بات کی توضیح یوںکی جاسکتی ہے کہ ایک شاعر،ادیب اور فن کار چوں کہ ہمارے اسی سماج کا فرد ہوتا ہے اس لیے وہ حال کو ماضی سے پیوست کرکے جو کچھ اخذ کرتا ہے اسے اپنے وجدان میںڈھال کر حال کی وساطت سے مستقبل سے مربوط کرتا ہے یا آنے والوں کی آگہی کے لیے مواد اور اسباب فراہم کرتا ہے ۔ہندوپاک کے ادبأاورشعرأاس کلیے سے کسی طورپربھی مبّرا نہیں ہیں ۔چنانچہ جب ہم ہندوپاک کے اردوادب میںانسان دوستی ،محبت اورامن کے پیغام کی بات کرتے ہیں تو یہ پیغام کسی نہ کسی طو رپر ہربڑے ادیب اور شاعرکی تخلیقات میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔
جہاں تک زیرِ بحث موضوع کے پہلے جُز کا تعلق ہے یہ ہندوپاک کے اردوادب سے متعلق ہے جو بظاہرنظم اورنثر کی تمام اصناف کااحاطہ کرتا ہے جب کہ اس موضوع کا دوسرا جز، ہند وپاک کی نظم ونثر کی اِن تمام اصناف میں، انسان دوستی،محبت اور امن کی نشان دہی کا متقاضی ہے۔اس اعتبار سے’ ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی،محبت اور امن کا پیغام ‘کافی وسیع اور کثیرالابعادموضوع ہے ۔
جہاں تک انسان دوستی اور محبت کا تعلق ہے ان میں سے محبت کواوّلیت حاصل ہے۔یہ ایک ایسا لطیف اور پاکیزہ جذبہ ہے جس سے اللہ نے صرف انسان کو سرفرازکیاہے ۔یہ باعثِ تخلیق ِکون ومکان ، آدم اور اولادِ آدم ہے،میر درد نے کیا خوب کہا ہے ؎ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
محبت بے لوث ہوتی ہے اور مثبت قوت کو جنم دیتی ہے ۔یہ انسان کو تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ حقیقی محبت جنون نہیں باعث سکون ہوتی ہے جوایک انسان کودوسرے سے جوڑ نے کی قوت عطا کرتی ہے۔ علامہ اقبال نے محبت کے قرینوں میں ادب کوپہلا قرینہ قرار دیا ہے   خموش ،اے دل بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
محبت کی انتہا عشق ہے جبھی تومیر تقی میر یوں کہتے ہیں  دور بیٹھا غبارِ میراُس سے عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
گویا محبت اورعشق ایک جذبہ ہے جس سے زندگی نمو پاتی ہے۔محبت زندگی ہے جو نہ صرف محبت ہی کو جنم دیتی ہے بلکہ انسان کے اندروہ قوت بھی پیدا کرتی ہے جس سے د لوں کا زنگ دور ہوتا ہے ۔جب محبت بالیدہ ہوجاتی ہے تو اس کی نگاہوں میںساری دنیا محبوب بن جاتی ہے ، غالب نے نہ جانے کیوں اسے دماغ کا خلل کہا ہے ؎
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل کہتے ہیںجس کو عشق خلل ہے دماغ کا
لیکن پھراعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎ سو بار بندِعشق سے آزاد ہم ہوئے پرکیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
انسانیت اور انسان نوازی کے سوتے محبت ہی کے سر چشمہ سے پھوٹتے ہیں ۔ سائنس دانوں کاخیال ہے کہ محبت ہرذی روح میں موجود ہے لیکن طبی ماہرین اسے دماغ کے ایک مخصوص حصے میں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔ طب یونانی محبت کو دیوانگی کہتا ہے جبکہ نفسیاتی ماہرین اسے فقط عورت اور مرد کے مابین موجود فطری کشش قرار دیتے ہیں۔ سماجی مہاہرین اسے صنف مخالف سے محبت کے سوا تمام محبتیں معاشرے اور ماحول کے تقاضوں ،ضرورتوں اور ان کے اثرات کے تابع گردانتے ہیں۔ علاوہ ازیں محبت کی جو مختلف حالتیںہیںاُن میں اللہ، رسولﷺ، رشتہ دار ،احباب واقارب، ملک اورشہر وغیر ہیں۔
ہم دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب کا مطالعہ کیوں نہ کریںاُن کا بیش تر ادب، محبت ،عشق ،انسان دوستی ، عالمی امن، بھائی چارہ، میل جول ،انسانی مسائل اورمعاملات سے ہے۔اسکے علاوہ بھی جو ادب وجود میں آتا ہے وہ انسان کے تہہ درتہہ سیاسی ،معاشی ،معاشرتی ، اقتصادی،مذہبی مسائل اور اس کے اپنے و جود کے اظہار سے متعلق ہے لیکن اس حقیقت سے سرِموانحراف نہیںہے کہ شعروادب کا غالب حصّہ بالخصو ص برصغیر ہندو پاک کا اردو ادب انسان دوستی ،محبت اور امن کاعکاس وترجمان ہے بلا شبہ سیاسی نا معقولیت کی وجہ سے مسلسل روڑے اٹکائے جاتے ہیں لیکن ایک ادیب اور شاعر کاکام تومحبت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ محبت جس کی انتہا عشق ہے اور عشق جس کی انتہا انسان دوستی اور امن ہے مگرادیب کواس کی پرواہ نہیں ہے کہ اہل سیاست کیا کرتے ہیں اورکیا کہتے ہیںاس کا کام تو محبت کا پیغام دینا ہے جو بقول جگر مراد آبادی جہاں تک پہنچے: ؎ ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
بہر کیف میں یہ بات ابتدأمیں ہی کہہ چکا ہوں کہ ہندوپاک کے ادبأ اور شعرأ کی تخلیقات میں انسان دوستی، محبت اورامن کا پیغام بدرجۂ اتم موجود ہے اور میں نے اس تعلق سے’مشتے نمونہ از خِروارے ‘ کے مصداق برصغیر کے صرف تین شاعروں، ساحرلدھیانوی،احمد فراز اور علی سردارجعفری کی منظومات کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرنے پرا کتفا کیا ہے ۔ ہندوستان اورپاکستان کے ادبأ اور شعرأ کی تخلیقات میں انسان دوستی، محبت اورامن کے پیغام کی عکاسی ساحرلدھیانوی کی نظم ’اے شریف انسانو!میںبڑے فنکارانہ انداز میں کی گئی ہے۔
ساحر لدھیانوی کااصلی نام عبدالحیٔ تھا ۔وہ ۸؍مارچ ۱۹۲۱ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ۲۵؍اکتوبر۱۹۸۰ ء کو۵۹ سال کی عمر میںممبئی میں وفات پائی۔وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔انہوں نے فلموں کے لیے کافی گیت لکھے۔اُن کا شعری مجموعہ ’تلخیاں‘ جذباتی،رومانی اورانقلابی شاعری کا امتزاج لیے ہوئے ہے۔اس کی اشاعت سے ساحر کوکافی مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ ’پرچھائیاں‘’گاتاجائے بنجارہ‘،’تنہائیاں‘،’آئوکوئی خواب بُنیں ‘اُن کے قابل ذکر شعری مجموعے ہیں۔ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں کئی فلم فیئر انعامات دیے گئے جب کہ۱۹۷۱ ء میں انہیں پدم شری کے قومی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ تاج محل، نور جہان کے مزار پر،قحطِ بنگال،جاگیر اوراے شریف انسانو!ا ُن کی بہترین منظومات ہیں۔
بہر کیف’’ اے شریف انسانو!‘‘ ساحر لدھیانوی کی ایک اہم نظم ہے جو انہوں نے اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کی ۱۹۶۵ ء کی جنگ کے پس منظر میں کہی ہے اورپھر ۱۰ ؍جنوری ۱۹۶۶ ء کوجب دونوں ملکوں کے درمیان معاہدۂ تاشقند وجود میں آیاتواس کی سال گرہ کے موقع پریہ نظم نشر بھی کی گئی تھی لیکن ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی ،محبت اور امن کے پیغام کے تعلق سے بلا شبہ یہ ایک اہم نظم ہے جس کی اہمیت ، افادیت اور تازگی ابدی اور لازوال ہے۔یہاںاس نظم کے کچھ بندپیش کیے جاتے ہیں:
اے شریف انسانو!
خو ن اپنا ہو یا پرایا ہو نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں ہو امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پہ گریں کہ سرحد پر روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سب کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
(۲)
بر تری کے ثبوت کی خاطر خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاںمٹانے کو گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تومیداں ہیں صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
حاصل ِ زندگی خرد بھی ہے حاصل ِ زندگی جنوں ہی نہیں

آئو اس تیرہ بخت دنیا میں فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے ایسی جنگوں کااہتمام کریں

جنگ ،وحشت سے بربریّت سے امن، تہذیب و ارتقا کے لیے
جنگ،مرگ آفریں سیاست سے امن،انسان کی بقا کے لیے

جنگ، افلاس اور غلامی سے امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ ، بھٹکی ہوئی قیادت سے امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمایے کے تسلط سے امن،جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف امن، پُر امن زندگی کے لیے
اس نظم کے آخری چار بند برصغیر ہندوپاک کے سیا ست دانوں ،پالسیی سازوں، دانشوروں ، اربابِ بست وکشاد اوربالخصوص عالمی سطح پر اقوامِ عالم کے صاحب الرّائے مدبرین اورمفکرین کے لیے نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ دعوتِ فکر و عمل بھی دیتے ہیں کہ جنگ کے میدان سرحدو ں پر کشت وخون بپا کرنے کے علاوہ اور بھی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس تیرہ بخت دنیا میں فکر کی روشنی عام کریںاورایسی جنگوں کااہتمام کریں جن سے امن کو تقویت ملے ۔صاحب ِاقتدار اور اختیار کو چاہیے کہ وہ وحشت ،بربریت اورمرگ آفریں سیاست کے خلاف معرکہ آرائی کریں کیوں کہ تہذیب کے ارتقااورانسان کی بقا کے لیے امن کی سخت احتیاج ہے جب کہ جنگ ان کے لیے سم قاتل ہے ۔ اے شریف انسانو!اگر جنگ لڑنالازمی ہے تویہ افلاس ،غلامی،بھٹکی ہوئی قیادت،سرمایے کے تسلط اور جنگوں کے فلسفے کے خلاف لڑی جائے تاکہ بہتر نظام،بے بس عوام ،جمہور کی خوشی اور پُر امن زندگی کی خاطرامن کا حصول آسانی سے ممکن ہو۔ساحر کی یہ نظم جنگ کے خلاف احتجاجی دستور اورامن کے حق میںاحتیاجی منشور کی حیثیت رکھتی ہے ۔
ساحر لدھیانوی کی ایک او رطویل نظم ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘اِس اُمیدکا احساس دلاتی ہے کہ وہ صبح کبھی تو آئے گی جب انسا ن کی چاہت کوکچلا نہیں جائے گا اور نہ ہی اس کی غیرت بیچی جائے گی ۔ اس صبح ،دولت کی اجارہ داری کے بت مسمار ہوں گے ،ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی اورجیلوں کے بناسرکار چلائی جائے گی ۔ محبت ،انسان دوستی ، امن اور خوش حالی کے خوش آیند اورپُر امیدجذبات سے مملویہ نظم ان امید افزامصرعوںپر ختم ہوتی ہے ؎ دنیاامن اور خوش حالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی وہ صبح ہمیں سے آئے گی
ہند وپاک کے اردو ادب میں انسان دوستی ،محبت اورامن کے پیغام کی حامل احمد فراز کی نظم ’دوستی کاہاتھ‘ بھی ہے۔ احمد فراز کاپاکستان کے جدیداردو شعرأ میں ایک معروف ، مقبول اوراہم نام ہے ۔ اُن کاپورا نام سید احمد شاہ علی اورقلمی نام احمدفراز ہے ۔ وہ۱۲؍جنوری۱۹۳۱ء کوکوہاٹ ،خیبرپاکستان میں پیدا ہوئے اور ۲۵؍اگست۲۰۰۸ء کو۷۷سال کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔کالج میں اردو کے پروفیسر تھے اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ وہ اپنی رومانی اوراحتجاجی شاعری کے بے حدمقبول تھے ۔تنہا تنہا ، درد آشوب ، شب خون،نایافت،بے آواز گلی کوچوں میں، سب آوازیں میری ہیں ، جاناں جاناں اور اے جنوں پیشہ وغیرہ اُن کے شعری مجموعے ہیں ۔ان کے علاوہ انہوں نے ہندوستان کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے بارے میںانگریزی میں Assassination of Rajive Gandhi:An Inside Job کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ انہیں کئی اعزازات اور انعامات سے نوازاگیا ہے جن میں سے حکومتِ پاکستان کے’ ہلالِ امتیاز‘،ہلالِ پاکستان ،اور’ ستارۂ امتیاز‘ خصوصی طور پرقابلِ ذکرہیں ۔
احمد فراز نے’دوستی کاہاتھ ‘ کے عنوان سے ایک فکرانگیز نظم کہی ہے جسے انہوں نے ہندوستانی دانشوروں کے نام مُعَنوَن کیا ہے جس کے ردِعمل یا جواب میں سردار جعفری نے بھی ’احمد فراز کے نام ۔ دوستی کا ہاتھ‘ ہی کے عنوان سے ایک محبت آمیز نظم کہی ہے ۔ہند پاک کے تعلق سے احمد فراز کی اس نظم کے ہر بند سے انسان دوستی،محبت اور امن کے پیغام کی کرنیںپھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔
گزر گئے کئی موسم کئی رُتیں بدلیں اداس تم بھی یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہیں کو نہیں رنجِ چاک دامانی کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں

تمہارے بام کی شمعیں بھی تاب ناک نہیں مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلود ہ مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں

نہ تم کو اپنے خد وخال ہی نظر آئیں نہ میں دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے

نہ سرو میں وہ غرورِکشیدہ قامتی ہے نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب نہ شاخِ امن لیے کوئی فاختہ آئی

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشقِ ستم جاری رہے ہمیں بھی ناز کہ جوروجفا کے عادی ہیں
تمہیں بھی زعم مہابھارت لڑی تم نے ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں

ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تویہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار عدو کے خوں میںنہانے کے بعد آتی ہے

تواب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب تمہارے پائوں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے
نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے

ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں

چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں
چراغ جن سے ضیا امن وآشتی کی ملے چراغ جن سے دِیے بے شمار روشن ہوں
تمہارے دیس میںآیا ہوںدوستو اب کے نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لیے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال توپھر چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
احمد فراز اپنی اس شہکار نظم میںہندوستان اور پاکستان کے خدوخال بیان کرتے ہوئے اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ نصف صدی بیت جانے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے عوا م کی حالت ایک جیسی ہے ۔ اس دوران نہ تو کہیںمحبتوں کے گلاب کھلے ہیں اورنہ ہی کوئی فاختہ امن کی شاخ لے کے آئی ہے ۔نصف صدی تک اندھیروں میں رہنے کے بعد اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ کی متلاشی ہے ۔وہ چراغ جومحبت کی روشنی پھیلائیں ،دلوں کے دیارروشن کریںاورامن وآشتی کی ایسی ضیا ملے جس سے بے شماردیے روشن ہوں۔اگر اس طرح کا ماحول تیارکرنے میں کہیں ’اَنا‘(Ego )کاسوال پیدا ہوجائے تو’ چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے ۔‘چنانچہ احمد فراز کی اس دستبرداری اورخیرسگالی نیت سے متاثر ہوکرعلی سردار جعفری نے بھی احمدفراز کی نظم کا جواب ’دوستی کاہاتھ ‘کے عنوان سے ہی نظم لکھ کردیا ۔
علی سردار جعفری ایک مشہور ومعروف شاعر ،ناقد اورفلمی دنیا سے وابستہ اردو ادب کی بہت ہی اہم اورقدآور شخصیت تھے۔ وہ ۲۹ ؍نومبر ۱۹۱۳ ء کو اُتر پردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرام پور میں پیدا ہوئے اوریکم اگست ۲۰۰۰ء میںممبئی میںانتقال کرگئے۔ و ہ ترقی پسند تحریک اور کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا سے وابستہ تھے ۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عوا میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے اقبال شناسی،امن کاستارہ،ایشیاجاگ اُٹھا،ایک خواب اور،پتھر کی دیوار،ترقی پسند ادب،خون کی لکیر،ترانۂ جمہور، نئی دنیا کو سلام ،پیراہنِ سخن،پیراہنِ شرر اور پیغمبرانِ سخن جیسی تصنیفات اور تالیفات سے اردوادب کا دامن مالا مال کیا۔انہیں ادب کی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازت اور انعامات سے نوازا گیا ۔ ۱۹۶۷ء اُنہیںپدم شری کے اعزاز کے علاوہ ۱۹۹۷ء میں ادب کا سب سے بڑاگیان پیٹھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
سردارجعفری ہند پاک کے مابین دوستی اور بہتر تعلقات کے زبردست حامی تھے۔جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہوا کہ ا حمدفراز نے جب ’دوستی کاہاتھ‘کے عنوان سے نظم کہی اور اسے ہندوستانی دانشوروں کے نام مُعنَوَن کیاتو جعفری مرحوم نے بھی اس کے جواب میں مثبت انداز میںایک عمدہ نظم کہی جوکلیات علی سردارجعفری جلددوم کی فہرست میں صفحہ ۵۳۰ پر’احمدفراز کے نام ‘ سے موجود ہے ۔بعض کتابوں میں اس کا عنوان بھی ’دوستی کا ہاتھ‘ ہی ملتا ہے جبکہ بعض رسائل میںاس تعلق سے یہ تحریر بھی ملتی ہے ’چلومیں ہاتھ بڑھاتاہوں دوستی کے لیے۔فراز کے جواب میں‘۔بہرکیف جعفری نے اس نظم میں ایک ہمہ گیر ،پیچیدہ اورانا کے حامل مسئلہ کوانتہائی جامع پرمعنی اور مختصرالفاظ میں دوستی ، محبت اورامن کے قیام کی خاطر جس انداز میںدوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے وہ قابل ِتحسین اور آفرین کامستحق ہے۔

تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جودوستی کے لیے میرے لیے ہے وہ اک یارِ غم گسار کا ہاتھ
وہ ہاتھ شاخِ گلشنِ تمنا ہے مہک رہا ہے مرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ

خدا کرے کہ سلامت رہیںیہ ہاتھ اپنے عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے
زمیں سے نقش مٹانے کوظلم و نفرت کا فلک سے چاند ستارے اُتارنے کے لیے

زمینِ پاک ہمارے جگرکا ٹکڑا ہے ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنؤ کی طرح
تمہارے لہجے میںمیری نوا کا لہجہ ہے تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح

کریں یہ عہد کہ اوزارِ جنگ جتنے ہیں انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانا ہے
کریں یہ عہدکہ اربابِ جنگ ہیں جتنے انہیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے

جئیں تمام حسینانِ خیبر و لاہور جئیں تمام جوانانِ جنت کشمیر
ہو لب پہ نغمۂ مہرو وفا کی تابانی کتابِ دل پہ فقط حرفِ عشق ہو تحریر

تم آئو گلشنِ لاہور سے چمن بردوش ہم آئیں صبحِ بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہوائوں کی تازگی لے کر پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
علی سردارجعفری کی یہ نظم احمد فراز کی نظم کی طرح جذبۂ خیر سگالی سے اس قدر معمور ہے کہ جعفری نے پاکستان کو نہ صرف اپنے جگر کا ٹکڑا کہا بلکہ وہ دہلی اور لکھنو کی طرح عزیزہے۔اتنا ہی نہیں جعفری کو احمدفراز کے لہجے میںاپنی نوا کا لہجہ اوراس کا دل اپنی آرزو کی مانندحسیں محسوس ہوا ۔ جعفری کی نظم دعائیہ اورتوصیفی ہے ۔وہ فرازیادوسرے لفظوں میںپاکستان کوگلشن لاہورسے چمن بردوش آنے کی دعوت دیتے ہوئے خودصبحِ بنارس کی روشنی اور ہمالیہ کی ہوائوں کی تازگی لے کرجانے کاعندیہ دیتے ہیںاور۔۔۔اورجب یہ ممکن ہوگا تو پھر ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ دشمن کون ہے؟گویا جب ایسا وقوع پذیرہوگا توپھر ہم سب ایک ہی ہیں ۔
محولہ بالا نظم کے علاوہ سردار جعفری کی ایک اور نظم’ گفتگو ‘ (ہند پاک دوستی کے نام ) کافی اہمیت کی حامل ہے جو ہندو پاک دوستی کے تعلق سے محبت اورقیامِ امن کی خواہش کی آئینہ دار اور ترجمان ہے

گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ِملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے

ہوں جو الفاظ کے ہاتھوںمیں ہیںسنگِ دشنام
طنزچھلکائے تو چھلکایا کرے زہر کے جام
تیکھی نظریں ہوں ترش ابروئے خم دار رہیں
بن پڑے جیسے بھی دل سینوں میں بیدار رہیں
بے بسی حرف کوزنجیر بہ پا کرنہ سکے
کوئی قاتل ہومگر قتلِ نوا کر نہ سکے

صبح تک ڈھل کے کوئی حرفِ وفا آئے گا
عشق آئے گا بصد لغزشِ پا آئے گا
نظریں جھک جائیں گی دل دھڑکیں گے لب کانپیں گے
خامشی بوسۂ لب بن کے مہک جائے گی
صرف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آئے گی

اور پھر حرف و نوا کی نہ ضرورت ہوگی
چشم وابرو کے اشاروں میں محبت ہوگی
نفرت اٹھ جائے گی مہمان مروّت ہوگی

ہاتھ میںہاتھ لیے سارا جہاں ساتھ لیے
تحفۂ درد لیے پیار کی سوغات لیے
ریگزاروں سے عداوت کے گزرجائیں گے
خوں کے دریائوں سے ہم پار اُترجائیں گے

گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
جہاں تک علی سردار جعفری اس نظم کا تعلق ہے ا س کاآغاز جن الفاظ سے کیا گیا ہے وہ نہ صرف قابلِ مطالعہ ہیں بلکہ وہ غور و فکراورعمل وتقلید کے متقاضی بھی ہیں ۔اس نظم کاحسن یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ اس کی ابتدأ ہوتی ہے ان ہی پراس کا اختتام بھی ہوتا ہے ۔ان الفاظ کے اعادے سے شاعر کا مدعااور مقصد اس بات پر زوردینا ہے کہ ہمیںیعنی ہندوپاک کو گفتگو کا باب نہ فقط کھلا رکھنا چاہیے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہیے کیوں کہ کسی بھی مسئلہ یا تنازع کا تصفیہ باہمی صلح مشورہ، بات چیت یاگفتگوم سے ہی انجام پاتا ہے ۔ویسے بھی صلح میںہمیشہ خیر کا عنصر موجود ہوتا ہے جسے تائید ِ ایزدی حاصل ہے۔
علی سردارجعفری کی ایک اور طویل نظم ’صبح فردا‘ہے جو’سرحد‘ اورصبحِ فردا کا انتظار‘ کے طور پربھی زبان زد خاص وعام ہے۔یہ نظم جعفری نے ۱۹۶۵ء کی ہند پاک جنگ کے فوراً بعد کہی تھی جوخواہشوں اورخوابوں کے جذبات کی حامل دوسری نظموں کے ساتھ۱۹۶۶ ء میں ’پیراہنِ شرر‘ کے نام سے شائع ہوئیں ۔یہ نظم بھی محبت ،انسان دوستی اور امن کے احساسات اورجذبات بنی گئی ہے جس کاآغاز اس بندسے ہوتا ہے ؎ اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہو کے دو ٹکڑے
اسی سرحدپہ کل زخمی ہوئی تھی صبحِ آزادی
یہ سرحد خوں کی اشکوں کی ،آہوں کی ،شراروں کی
جہاں بوئی تھی نفرت اور تلواریں اگائیں تھیں
میں اس سرحد پہ کب سے منتظرہوں صبحِ فرداکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سرحد دلبروں کی ،عاشقوں کی،بے قراروں کی
یہ سرحددوستوں کی،بھائیوں کی ، غم گساروں کی،
سحر کو آئے خورشیدِدرخشاں پاسباں بن کر
نگہبانی ہوشب کوآسماں کے چاند تاروں کی
زمیں پامال ہوجائے ہرے کھیتوں کی یورش سے
سپاہی حملہ آور ہوں درختوں کی قطاروں سے
خدا محفوظ رکھے اس کو غیروں کی نگاہوں سے
پڑے نہ نظراس پہ خوں کے تاجر تاجداروں کی
محبت حکمراں ہوحسن قاتل ،دل مسیحا ہو
چمن پہ آگ برسے شعلہ پیکر گل عزاروں کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سرحد کج کلاہوں کی،یہ سرحد کج ادائوں کی
یہ سرحد گلشنِ لاہورو دلی کی ہوائوں کی
یہ سرحد امن وآزادی کے دل افروزخوابوں کی
یہ سرحدڈوبتے تاروں کی ابھرتے آفتابوں کی
یہ سرحدخون میں لتھڑے پیار کے زخمی گلابو ں کی
میں اس سرحد پہ کب سے منتظر ہوں صبحِ فردا کا
اس تعلق سے ’کون دشمن ہے‘ علی سردار جعفری کی ایک اور طویل نظم ہے جو انہوں نے ۱۲؍ستمبر ۱۹۶۵ء میں کہی تھی ۔بہر کیف یہاںاس بات کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ سردارجعفری کی ان نظموں سمیت کچھ دوسری نظموںاورغزلوں پر مبنی محترمہ سیماانل سہگل کی شریں آواز میں’سرحد ‘کے نام سے ۱۹۹۸ء میںایک کیسٹ تیار کی گئی تھی جس کی دس کاپیاںمرحوم اٹل بہاری واجپائی ۱۱؍فروری ۱۹۹۹ء کو پاکستان کے دورے کے دوران اپنے ڈیلی گیشن کے ساتھ وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کوتحفہ کے طور پردینے کے لیے لے گئے تھے۔یہ بات بھی دل چسپی کی حامل ہے کہ حکومت پاکستان نے علی سردار جعفری کوبھی واجپائی کے وفد کے ہمرا ہ مدعو کیاتھا لیکن جعفری مرحوم اپنی علالت کی وجہ سے وفدمیں شامل نہ ہوسکے تھے ۔
قصّۂ کوتاہ ہند وپاک میں تخلیق ہونے والے اردو ادب میں انسان دوستی ،محبت اور امن کے پیغام کی اہمیت اورافادیت مسلّم لیکن اس آفاقی پیغام پر عمل پیرا ہونااور ان اقدار کے منطقی انجام کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے ،شاید جگر نے اسی لیے کہا ہے ؎ یہ عشق نہیں آساںاتناہی سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
کیونکہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اس عہد میںاب عشق کامعاملہ بھی یک طرفہ نہیںرہا ہے عرش صہبائی نے کیا خوب کہا ہے ؎
دل تو کیا چیز ہے ہم روح میں اُترے ہوتے تونے چاہا ہی نہیں چاہنے والو ں کی طرح
قارئینِ کرام !یہ تو رہا اردداد ب میں ہندو پاک کے مابین انسان دوستی ،محبت اور امن کے پیغام کا ایک اجمالی خاکہ، لیکن جب مجموعی طور پر برّ ِصغیر ہندوپاک کے حالات اور حقائق کو مدِّنظر رکھ کر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت ا بھر کر سامنے آتی ہے کہ اگرہندوپاک کے ارباب بست وکشادتمام منافرت،عداوت ،جہاں گیری،جہاں بانی،مذہبی جنون اورہندو مسلم کے لبادوں کو اُتارکرانسانیت کی سطح پرکھڑا ہوکر جیو اور جینے دو کے اصولوںکو اپناکر ایک دوسرے کو دل کی گہرائیوں سے چاہنے والوں کی طرح چاہنے کاعمل شروع کریںگے تو وہ دن دور نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان منافرت کی دیوار یںمسمارہو جائیں گی اور دونوں سرحدوں کے آرپارآپسی بھائی چارے، پائیدار امن وامان ،انسان دوستی اور اعلیٰ اقدار کی سربلندی کاایک ایساعمل شروع ہوجائے گا جس کی بدولت ہم اُس منز ل سے ہم کنار ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جہاں سے ہمارے مورثِ اعلیٰ حضرت آدم اورحضرت حوا نے زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا،جو اس کائنات کے سینے پر بسنے والے ہم سب انسانوں کے ماں باپ رہے ہیں۔چنانچہ قابلِ غور اور تصفیہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے وہ باشعور اور منصوبہ ساز افراد جن کے ہاتھ میںملک کی باگ ڈور ہے ، اور جواس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیںکہ جب ہما ر ی بقا اور فنا کاسارا راز فقط ایک بٹن کے دبنے اور نہ دبنے پر موقوف ہے تو کیوں نہ ہم سب آپس میں مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں کہ آیا ہمیں ان تمام نزاعات کوپسِ پشت ڈال کرایک دوسرے کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ترقی کی راہوں پر گام زن ہونا ہوگا یاکسی دن ایٹمی دھماکے کا لقمہ بن کر نیست و نابودہوکر کسی زندہ رہنے والے کی زبان سے تسکین بڈانوی کے اس شعر کاحامل مرقّع بنناہوگا ؎
یہ نہ سوچو کہ ذرہ سا پیرہن جل جائے گا آگ دامن کو لگی تو سب بدن جل جائے گا
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلہ کن گفتگو کا سلسلہ بند نہ ہو۔۔۔ بات سے بات اور ملاقات کرنے کا عمل اس انداز سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبال کی طرح کل کسی اورشاعر کو یہ شعر دہرانے یا گنگنانے کا یارا نہ رہے ؎
دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا