گجرات کے مہاجر قبائلی مزدور کم از کم اجرت سے بھی محروم ہیں

0
110

 

 

 

امول پوار
احمد آباد، گجرات

’’میں اور میرا خاندان گزشتہ 15 سال سے گنے کی کٹائی کا کام کر رہے ہیں لیکن ہماری آمدنی اتنی کم ہے کہ ہم مقدم (ٹھیکیدار) سے لیا گیا قرض بھی واپس نہیں کر پاتے، اس لیے ہم اسی میں پھنسے رہتے ہیں۔ ہم یہاںسالہا سال کام کرتے ہیںکیونکہ ہمیں اسے ایڈوانس پر ڈیڑھ گنا زیادہ سود دینا پڑتا ہے۔اگر یہ قرض ادا نہ کیا گیا تو اگلے سال ہمیں اسی کے پاس جانا پڑے گا۔جہاں وہ میری تنخواہ میں سے اپنے سود کے روپے کاٹ لیتا ہے۔ جس کے بعد میرے پاس اتنی کم رقم رہ جاتی ہے کہ مجھے خاندان کی کفالت کے لیے دوبارہ اس سے قرض لینا پڑتا ہے، اس طرح میں اور میرا خاندان گزشتہ 5 سال سے قرض کے اس بھنور میں پھنسے ہوے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ ایک 45 سالہ قبائلی مزدور الوسیا بھائی گاولی کے ہیں جو جنوبی گجرات میں بڑے پیمانے پرکاشت کئے گئے گنے کے کھیتوں میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ وہ گجرات کے ڈانگ ضلع سے روزی کمانے کے لیے ولساڈ میں گنے کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن انہیں اور ان جیسے لاکھوں مزدوروں کو ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم اجرت دی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان مزدوروں کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ قرض لے کر اپنے خاندان کی ضروریات کوپوری کرنے کے لیے یہ ایک بار پھر قرض لینے پر مجبور ہیں۔
درحقیقت مہاراشٹر کی سرحد سے متصل گجرات کے جنوبی علاقے میں گنے کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ خطہ بڑی مقدار میں چینی پیدا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ گجرات کے ڈانگ، ولساڈ، تاپی، سورت، نرمدا اور مہاراشٹر کے ساکری، دھولیا، نندوبار، اکلکووا وغیرہ جیسے اضلاع گنے کی کھیتی اور شوگر مل کے زیر اثر علاقوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں، لاکھوں قبائلی مزدوروں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ گجرات کے ڈانگ، تاپی اور سورت اور مہاراشٹر کے ڈھولیا اور نندوبار قبائلی اکثریتی اضلاع سے گنے کی کٹائی کے لیے لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں مدھیہ پردیش کے دھڑگاؤں، شیرپور، چالیسگاؤں اور بلوانی اضلاع سے بھی مزدوروں کو ان علاقوں میں گنے کی کٹائی اور ولساڈ، نوساری، سورت، نرمدا اور بھروچ کی شوگر ملوں میں کام کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے۔. جہاں ان مزدوروں سے نہ صرف 14 گھنٹے سے زیادہ کام کروایا جاتا ہے بلکہ انہیں کم از کم اجرت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ یہی نہیں اکثر سہولیات فراہم کرنے کے نام پر انہیں ملنے والی اجرت سے بھی کچھ رقم کاٹ لی جاتی ہے۔سال 2015 سے، گجرات حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت اور دیگر مسائل پر کم از کم اجرت ایکٹ کے تحت مزدوروں کی اجرت طے کی گئی تھی۔ اس وقت ریاست کے وزیر محنت اور روزگار نے اسمبلی میں کہا تھا کہ تقریباً تین لاکھ مزدور گنے کی کٹائی اور لوڈنگ کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ گنے کی کٹائی کرنے والے جن کی کم از کم اجرت کی شرح 01/04/2023 سے ریاستی حکومت نوٹیفکیشن نمبر KHR/2023/ مورخہ 27/03/2023 کے ذریعے طے کرکے بذریعہ نمبر 27/LVD/10/2013/137375 (P.F) M(P.F) مزدوروں کو 476 روپے فی ٹن دینے کا اشتہار شائع کیا گیا تھا۔ لیکن سال 2023-24 کے دوران 476 روپے کی کم از کم اجرت میں سے 101 روپے فی مزدور کی کمی کی جا رہی ہے۔ جس کی ایک مثال تاپی ضلع میں کام کرنے والی دادریہ شوگر فیکٹری ہے۔ جہاں کم از کم اجرت 476 روپے کے حساب سے بل بنایا جاتا ہے لیکن اس میں سے دیگر سہولیات کے لیے 21 روپے اور مقدم (مزدور فراہم کرنے والے ٹھیکیدار) کا فی ٹن کمیشن 80 روپے کاٹا جاتا ہے۔ اس طرح مزدوروں کو فی ٹن 375 روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔ اس سال ایک اندازے کے مطابق جنوبی گجرات کی تمام شوگر ملوں میں تقریباً 90 لاکھ ٹن گنے کی کرشنگ کی جائے گی۔ اس طرح اگر تمام شوگر ملوں میں 375 روپے فی ورکر کی اجرت دی جائے تو 91 کروڑ روپے سے بھی کم ملیں گے جو کہ ایک طرح سے ان غریب قبائلی مزدوروں کا استحصال ہے۔
اس حوالے سے مہاراشٹر کے دھلے ضلع سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ قبائلی مزدور چنتامن دشرتھ پنوار کہتے ہیں، ’’گنا کاٹنے والے ہم مزدوروں کی زندگی مالکان اور ٹھیکیداروں کے قرضوں کی ادائیگی میں گزر جائے گی، کیونکہ ہماری اجرت بہت کم ہے۔ تاہم حکومت نے اجرت بڑھا دی ہے لیکن مل مالکان ہمیں بڑھی ہوئی اجرت نہیں دے رہے۔ ‘‘وہ کہتے ہیں، ’’شاید کوئی بھی ملک میں کہیں بھی قرض پر اتنا سود لیتا ہوگا۔ ہمارا مقدم ہمیں دیے گئے قرض کا ڈیڑھ گنا صرف 6 ماہ میں وصول کر لیتا ہے۔ ہم اس قرض کی ادائیگی میں کئی سال گزار دیتے ہیں۔ گھر کی عورتیں بھی ہمارے ساتھ 12 سے 14 گھنٹے کام کرتی ہیں لیکن پھر بھی ہم اس دلدل سے باہر نہیں نکل پاتے اور بالآخر ہمیں پھر قرض لینا پڑتا ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ان جگہوں پر جہاں مزدور رہتے ہیں وہاں خواتین کے لیے بیت الخلا جیسی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہے۔ مناسب خوراک کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر خواتین مزدور غذائی قلت کا شکار اور بیمار رہتی ہیں۔ لیکن انہیں اس حالت میں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو اجرت کاٹ دی جائے گی۔‘‘تاہم گزشتہ ماہ 11 مارچ کو مزدور ادھیکار منچ کے نمائندوں نے دادریہ شوگر فیکٹری کے ایم ڈی اور اسٹیٹ مینیجر سے ملاقات کی اور انہیں کم از کم اجرت سے کم ادائیگی کے معاملے سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں فیکٹری مینیجر اجیت پاٹل کا کہنا ہے کہ ’’ہم من مانی طور پر مزدوروں کی اجرت میں اضافہ یا کمی نہیں کرتے ہیں، لیکن جس طرح سے گجرات اسٹیٹ کوآپریٹو شوگر انڈسٹری ایسوسی ایشن نے لیٹر جاری کرکے مزدوروں کو تنخواہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، ہم بھی اس سے متفق ہیں۔‘‘

اس سلسلے میں مزدور ادھیکار منچ، ڈانگ کے سکریٹری جیش بھائی گامیت کہتے ہیں، ’’میں خود منچ کی جانب سے گاندھی نگر گیا اور لیبر آفیسر، گاندھی نگر سے ملا اور درخواست دیکرانہیں تمام حالات سے واقف کرایا۔میں نے ان سے درخواست کی کہ مزدوروں کی اجرت لیبر آفیسر کی موجودگی میں ادا کی جا ئے، لیکن محکمہ نے اس معاملے پر کوئی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ ،کوآپریٹو اور لیبر ڈپارٹمنٹ کی بے حسی کی وجہ سے مل مالکان گنے کی کٹائی کرنے والے غریب قبائلی مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں۔‘‘ وہ سوال کرتے ہیں، ’’کیا حکومت کے بنائے گئے قوانین پر اس طرح عمل درآمد کیا جائے گا کہ وہ گنے کی کٹائی کررہے مزدوروں کو انصاف بھی نہ دلا سکے؟ کیا نظام زمین پر کم از کم اجرت کو بھی درست طریقے سے نافذ نہیں کرا سکتا ہے؟درحقیقت ہمارے ملک میں لاکھوں مزدور مختلف چھوٹے بڑے کاروباروں میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہے۔ جو تقریباً ہر قسم کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان مزدوروں میں سے نصف خواتین ہیں، جو بیت الخلا اور ماہواری کے بنیادی حقوق سے بھی محروم مسلسل کام کرتی ہیں۔ اس دوران انہیں کم سے کم اجرت بھی نہیں ملتی ہے۔ گویا ان کے مقدر میں استحصال ہی لکھا گیا ہے۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے لیبر قوانین بنائے گئے ہیں جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ان مزدوروں کا استحصال نہ ہو۔ جس میں کم از کم اجرت مقرر کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ صنعتی اور دیگر پیداواری پیشوں میں کام کرنے والے مزدور کسی بھی قسم کے معاشی استحصال سے محفوظ رہیں۔ لیکن اس کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ مزدور نہ صرف کم از کم اجرت سے محروم ہیں بلکہ استحصال کا بھی شکار ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجر اور قبائلی مزدور ہیں۔ جو کام کی تلاش میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان مہاجر غریب اور قبائلی مزدوروں کی زندگی جو گنے کی پیداوار اور اسے چینی بنانے کے لیے ملوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں، کم از کم اجرت بھی نہ ملنے اور قرضوں کے بوجھ سے تلخ ہو چکی ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا