کہانی کامیابی کی- پان پٹی کی دکان لگانے والے عبدالعزیز کے بیٹے عفان عبد العزیز مومن نے IIT کانپور میں داخلہ لیکر نمایاں کامیابی حاصل کر کے اپنا اور اپنے والدین کے خواب کو پورا کیا۔

0
0

اپنے بھائی کی پڑھائی کے لیے بہنوں نے اپنے زیوارت بیچے۔ بارہویں تک اردومیڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے”مومن عفان عبد العزیز“ نے آئی آئی ٹی کانپور سے ایرواسپیس انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اب ا ونڈ ٹربائن کی ملٹی نیشنل کمپنی ویسٹاس ونڈ ٹیکنالوجی میں بطور کنڑرول انجنیئر کے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
(مومن فیاض احمد غلام مصطفی،ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر،صمدیہ ہائی اسکول و جونیئر کالج بھیونڈی)

یہ کہانی بھیونڈی کے زیتون پورہ کے سلم ایریا میں رہنے والے پان کی دکان لگاکر اپنا گزر بسر کرنے والے عبدالعزیز کے بیٹے مومن عفان عبدالعزیز کی ہے۔مومن عفان نے اپنی پرائمری تعلیم عبدالشکور پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد ایس۔ایس۔سی شہر بھیونڈی کے معروف ادارے صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج سے کی۔ یہاں معیاری نمبرا ت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایچ۔ایس۔سی بھیونڈی کے ایک اور نامور ادارے ریئس ہائی اسکول اینڈ جو نیر کالج سے کی وہاں بھی اس نے فرسٹ کلاس سے ایچ ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد ائیروناٹیکل انجنیئرنگ کے لیے ناگپور کا سفر طے کیا اور یہاں کے پریادرشنی کالج آف انجنیئرنگ میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔اس سفر میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدہمت اور حوصلہ بڑھ گیااور گیٹ (GATE) کے امتحان کی تیاری کی۔ GATE کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کی بنا پر انہیں ڈیفینس انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس ٹیکنالوجی پونے کے کالج میں داخلہ ملا۔ مگر عفان کا خوابIIT جانے کا تھا اس لیے، یہاں پر صرف چھ ماہ رہا۔ آ ئی آ ہی ٹی کے داخلے کے تعلق سے انہوں نے بتایا کہ میں اپنی کو کوشش آئی آئی ٹی کے لیے جاری رکھی۔ دسمبر ۲۰۲۱ دوبارہ IIT کا فارم بھرا اور الحمدلللہ گیٹ (GATE) اسکور کی بنیاد پر IIT کانپور کے MSR کورس کی شارٹ لسٹ تیار کی گئی جس میں میرابھی نام شامل تھا۔ایک تحریری امتحان اور اس کے بعدانٹریو ہونا تھا۔یہ مرحلہ بھی مکمل ہوا۔
تحریری امتحان میں 24طلبہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا جس میں سے صرف ایک ہی اسٹوڈنٹ کا ایڈمشن ہونا تھا۔ تحریری امتحان کے رزلٹ پر انٹریو کے لیے صرف پانچ لوگوں کو بلایا گیا۔ ایک سیٹ(Seat) کے لیے پانچ امیدواراپنی قسمت آزمائی کر رہے تھے۔اللہ تعالی کا فضل کرم مجھ پر ہوا والدین،اور اساتذہ کی دعائیں کام آئیں اور میں سر فہرست رہا۔ میری محنت اور قسمت نے میرا ساتھ دیا جس کالج میں داخلے کا خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوا مجھے آئی آئی ٹی کانپور کے ائیرو اسپیس ڈپارٹمنٹ میں فلائٹ میکانکس اینڈ کنٹرول اسپشلائزیشن میں ماسٹر آف سائنس ریسرچ میں ایڈمیشن ملا۔اپنے تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے عفان نے بتایا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ شروع میں مجھے ائیروناٹیکل شعبہ کے بارے میں کچھ معلومات نہیں تھی لیکن بچپن سے ہی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام میرے رول ماڈل رہے مجھے بھی اُنکی طرح فلائی کرنے کا شوق تھا۔ اور یہ جذبہ ا س وقت اور بھی پختہ ہو گیا جب میں گیارہویں ایک فلم The Martian Man دیکھی جس میں مریخ سیارے پر زندگی بسر کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد میری دوست زینب مومن سے ائیروناٹیکل انجیئرنگ کے بارے میں معلومات ملی میرا تجسس بڑھتا گیا اور مجھے لگا یہی شعبہ ہے جس سے میں اپنے سپنوں کی اڑان بھر سکتا ہوں۔


پڑھائی کے دوران مجھے مالی دشواریوں کا سامناکرنا پڑھا۔دو مرتبہ تو ایسا لگا کہ اب میری پڑھائی چھوٹ جائے گی اورمیرا خواب ادھورا رہے جائے۔پہلی مرتبہ جب میرا داخلہ DIAT میں ہوا تھا تو میرے پاس فیس بھرنے لے لیے پیسے نہیں تھے بہت کوشش کی لیکن اتنی رقم جمع نہیں ہوسکی گھر کے تمام لوگ بہت پریشان ہوئے ایسے مشکل اور نازک مرحلے کے وقت میری بہن میرے لیے ایک فرشتہ بن کر آئی اس نے اپنے تمام زیورات فروخت کر دیے اور میرے داخلے کی فیس ادا کی اگر وہ میری مدد نہیں کرتی تو میری پڑھائی شاید رک جاتی میری بہن کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ بی۔ی BEکے وقت میری فیس کے اخراجات کے لیے میرے کزن برادر محمد بھائی اور میرے ماموں نے مولاناآزاد کارپویشن فنڈ سے ایجوکیشنل لون کے لیے بہت محنت اور کوشش کی ان کی کوشش سے مجھے مولانا آزاد کارپوریشن کی جانب سے تعلیمی قرض ملا اس طرح میری یہ پڑھائی مکمل کی۔اس دوران میرے بھائی عرفات، میری دونوں بہنیں ندا اور نسائ، وسیم بھائی اور میرے ماموں لوگ وقتا فوقتا میری مدد کرتے رہے۔ میرا چھوٹا بھائی الفیض اور میرے دوست اسجاد اور عباد ہر وقت میرا حوصلا بن کر کھڑے رہے۔
دوسری مرتبہ جب میں نے تحریری امتحان اور انٹریو میں کامیاب ہوا میں بہت خوش تھا ملک کے نامور ادارے آئی آئی ٹی میں میرا داخلہ ہونے والا ہے لیکن داخلہ کے لیے فیس بھرنے کے وقت آیا تھا اس وقت بھی میرے گھر والوں کے پاس پیسہ ختم ہو چکا تھا میں اور میرے گھر والے بہت زیاد ہ پریشان ہو گئے.۔بہنوں کے زیوارت فروخت ہو چکے تھے تعلیمی قرض بھی لے چکا تھا۔دیگر کئی لوگوں سے بھی قرض لے چکے تھے۔مجھے ایسا لگا کہ اب میرا خواب ادھور ارہے جا ئے گا۔اچانک مجھے یاد آیا کہ میرے بی ای BE کے پروفیسر جو میری پڑھائی سے بہت متاثر تھے انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت پڑھے تو مجھے یاد کرنا میں ڈرتے ڈرٹے ان کے پاس گایا اور اپنی پوری کہانی انہیں سنائی انہوں مجھ سے جو کہا تھا وہ کر کے دکھایا ڈاکٹر راہول ماکڑے سر نے میری پوری فیس ادا کردی ان کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھول سکتا۔انسانیت کی انہوں نے بہترین مثال دی حالانکہ ان اور میرا مذہب بالکل الگ ہے لیکن یہ میرے ہندوستان کی خاص بات ہے۔یہاں انسانیت ابھی بھی باقی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جنہوںنے بہت سے موقع پر میری مدد کی اور میرا ساتھ دیا۔داخلے کے بعد میری پڑھائی میں رکاوٹ بننے والی مالی دشوار بہت تک کم ہو گئی۔کیونکہ مجھے سرکار کی جانب سے ہر ماہ بارہ ہزار چار سو روپے 12400/ روپے بطور stipend آنے لگے۔
اس کے بعد قسمت میرا ساتھ دیتی گئی اور میں آگے بڑھتا رہا پھر مجھے (DRDO) کی سب سے پرانی لیب جو کہ حیدرآبا میں ہے۔ Defence Research and Development labortary میں کام کرنے کا موقع ملا۔یہاں میں اپنے ماسٹر کے پروجیکٹ کے کام سے آٹھ مہینہ کام کیا۔اس لیب میں کام کرنا میرے سپنوں جیسا تھا کیونکہ اسے خود میرے رول ماڈل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکام سر نے بنایا تھا اور اس کے داخلہ گیٹ پر A.P.J. Abdul Kalam Missile Complex لکھا تھا جسے دیکھ کر ایک جوش اور جذبے کی لہر دوڑ اٹھتی تھی۔ یہاں سے اپنا پروجیکٹ مکمل کرنے کے بعد فی الحا ل ایک ملٹی نیشنل کمپنی ویسٹاس ونڈ ٹیکنالوجی میں بطور کنڑرول انجنیئر کے اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں، اس کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ڈنمارک میں ہے۔
اپنے پرائمری سے لے کر ماسٹر ڈگری کے تمام اساتذہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان سے بڑے؛ادب کے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے طلبہ کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں۔ساتھ ہی میں اپنی قوم کے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہاوں کہ کتنی بھی مشکل آ جائے کبھی اپنی تعلیم ادھوری نہیں چھوڑنا جو ٹارگیٹ طے کیا ہے یا مستقبل جو بننے کا خواب دکھا ہے اسے مکمل کر کے ہی سکون کی سانس لینا۔مشکلات آتے رہی گی اس کاڈٹ کر مقابلہ کرنا۔مالی تنگی بھی آئے گی لیکن اگر نیت صاف ہے تو مدد کے لیے بہت سارے لوگ کسی نہ کسی صورت میں ضرور بہ ضرور آئیں گے۔کبھی ناکامی سے مت ڈرنا اور اگر کسی وجہ سے ناکام ہو گئے تو پھر سے کوشش کرنا۔ ہر مشکل ایک آسانی لے کر آتی ہے۔جتنی بڑی مشکلات رہے گی کامیابی بھی اتنی ہی بڑی حاصل ہوئی۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ
ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر صمدیہ ہائی اسکول و جونئر کالج بھیونڈی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا