کٹھوعہ جیسے واقعات کا پیش آنا شرمناک

0
73
  • ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں،پھرایسانہ ہویہ ہم سب کی ذمہ داری: صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند
  • لازوال ڈیسک
  • کٹرہ (ریاسی) ؍؍ صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے کہا کہ کٹھوعہ میں آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل جیسے واقعات کا پیش آنا شرمناک ہے۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ’ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں کسی بھی بیٹی یا بہن کے ساتھ کٹھوعہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے۔ صدر جمہوریہ بدھ کے روز یہاں شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی کے چھٹے جلسہ تقسیم اسناد میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا ’دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ایک معصوم بچے کی مسکراہٹ ہے۔ بچوں کا محفوظ ہونا سماج کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہر بچے کو تحفظ دینا اور اس کی حفاظت یقینی بنانا، کسی بھی سماج کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں، کہیں نہ کہیں، ہمارے بچے آج گھناونی حرکتوں کے شکار ہورہے ہیں۔ حال ہی میں اس ریاست میں ایک معصوم بچی ایسی بربریت کا شکار ہوئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ ملک کو آزاد ہوئے 70 برس ہوچکے ہیں۔ لیکن آج بھی اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا شرمناک بات ہے۔ ہم سبھی کو سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ ہم کیسا سماج بنا رہے ہیں؟ ہم اپنی آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسے سماج کی تعمیر کررہے ہیں جس میں ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف اور تحفظ کا احساس ملے؟‘۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ کٹھوعہ جیسے واقعات کو روکنا ملک کے ہر ذی حس شہری کا اخلاقی فرض ہے۔ انہوں نے کہا ’ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں کسی بھی بیٹی یا بہن کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ملک کے بیشتر شہری ملک کی بیٹیوں اور بہنوں کے تئیں اپنی سماجی ذمہ داری کو نبھائیں گے‘۔ ریاستی گورنر و یونیورسٹی چانسلر این این ووہرا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کیا۔ صدر جمہوریہ مسٹر کووند نے کہا کہ ملک کی بیٹیاں ہر ایک جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڈ کر پورے ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’مجھے بتایا گیا کہ اس یونیورسٹی میں بیٹیوں نے شاندار کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 میں سے 8 سونے کے تمغے حاصل کئے ۔ ان بیٹیوں پر نہ صرف مجھے بلکہ پورے ملک کو فخر ہے۔ جہاں بھی میں جلسہ تقسیم اسنادسے خطاب کرنے کے لئے جاتا ہوں تو میں یہی رجحان پاتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری لڑکیاں ہمارے لڑکوں سے آگے بڑھ رہی ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’لیکن زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ ابھی بھی ہمارے سماج میں بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں پر زیادہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ لیکن وہ اس کے بعد بھی اپنی ذہانت اور طاقت کے بل پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس کی جھلک ہمیں کامن ویلتھ گیمز میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان کھیلوں میں بھی بھارت کی طرف سے سب سے زیادہ تمغے ایک بیٹی نے ہی حاصل کئے ہیں۔ وہ دہلی کی منیکا باترا ہے۔ اس نے سونے کے دو سمت چار تمغے جیت کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا‘۔ صدر جمہوریہ نے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سراہنا کرتے ہوئے کہا ’جب ہم بیٹیوں کی بات کرتے ہیں تو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ اپنے والد مفتی صاحب کی سوچ اور وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے اور تمام مشکل مرحلوں سے نکلتے ہوئے وہ آج اس حساس اور کٹھن ریاست کو ایک نئی سمت دے رہی ہیں‘۔ مسٹر کووند نے کہا کہ اچھی تعلیم ایک طالب علم کو ایک اچھا انسان بناتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اچھی تعلیم اس کو کہہ سکتے ہیں جو ایک طالب علم کو ایک اچھا انسان بنائے۔ ایک ایسا انسان جس کے اندر دوسروں کے لئے عزت اور احترام ہو۔ جو اچھا انسان ہوگا، وہ کہیں بھی رہے گا تو اچھی طرح ہی رہے گا۔ ڈاکٹر بنا تو ایک اچھا ڈاکٹر ثابت ہوگا۔ انجینئر بنے گا تو وہ ایک اچھا انجینئر ثابت ہوگا۔ زندگی کے کسی بھی شعبے کو چنے گا تو اس میں اپنی چھاپ چھوڑے گا‘۔ مسٹر کووند نے طالب علموں سے کہا کہ وہ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انہوں نے کہا ’مجھے بتایا گیا کہ اس یونیورسٹی کا افتتاح سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے کیا۔ انہوں نے یہاں پہلا کلاس بھی لیا ہے ۔ اس ادارے سے جڑے طالب علموں کے لئے یہ فخر کی بات ہے۔ ڈاکٹر کلام کی زندگی ہر ایک بھارتی شہری کے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے بچپن میں اخبار بیچیں۔ اپنے گھر سے پندرہ کلو میٹر دور اسکول جاتے تھے۔ انہوں نے چیلنجوں کے باوجود سائنسداں بننے کے اپنے خواب کو پورا کیا ۔ مجھے نہیں لگتا کہ آج کے طالب علموں کو ایسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ سادگی اختیار کی اور ملک کی بے پناہ خدمت انجام دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے حمایتی تھے۔ وہ ایک قابل انسان تو تھے ہی لیکن وہ اس سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے‘۔ مسٹر کوند جن کا یہ جموں وکشمیر کا دوسرا جبکہ جموں کا پہلا دورہ ہے، نے کہا ’بھارت کے صدر جمہوریہ کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے کسی بھی ریاست کے دورے کا آغاز جموں وکشمیر سے کیا تھا۔ یہ دورہ میں نے گذشتہ برس اگست میں کیا اور اس دوران میں نے خطہ لداخ میں فوجی جوانوں سے ملاقات کی تھی۔ لداخ میں بہادر جوانوں سے ملنے کے بعد آج پھر مجھے آپ کے بیچ آنے کا موقع ملا ہے‘۔ انہوں نے شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی کو ’منی انڈیا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ’یہ یونیورسٹی نوجوانوں کو تعلیم فراہم کرنے میں کلیدی ادا کررہی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں 24 ریاستوں سے آنے والے طلباء پڑھ رہے ہیں۔ اور یہاں پڑھانے والے اساتذہ 16 مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم آج یہاں اکیسویں صدی کے ایک طاقتور منی انڈیا کو دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کو شری ماتا ویشنو دیوی شرائن بورڈ کی طرف سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس یونیورسٹی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں آسودہ حال یاتریوں کے ساتھ ساتھ غریب یاتریوں کی بھی شرکت رہی ہے‘۔ 470 ایکڑ اراضی پر پھیلی شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی تریکوٹہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس یونیورسٹی کا افتتاح سنہ 2014 میں سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے انجام دیا تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں تب پہلا لیکچر بھی دیا تھا۔ چھٹے جلسہ تقسیم اسناد میںبھارت کی معروف کاروباری شخصیات سنیل بھارتی متل اور سدھیر منجل کو اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ جلسہ تقسیم اسناد میں کل ملاکر 70 طالب علموں کو ڈگریاں تفویض کی گئیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا