کٹھوعہ بنی کا سرتھل محکمہ سیاحت کی نظروں کا منتظر

0
0

قدرتی تحائف میں کوئی کمی نہیں،ذرا ایک بار آکر تو دیکھو
حافظ قریشی

کٹھوعہ؍؍ ریاست کی سرمائی راجدھانی سے دو سل کلومیٹر کی مسافت پر آباد بے حد خوبصورت علاقہ کٹھوعہ میں قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال تحصیل بنی کا سرتھل ہی نہیں بلکہ بنی وادی جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ریاست جموں و کشمیر کے گیٹ وے آف جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ داخلی دروازے کی اہمیت کا حامل ہے تو وہیں کٹھوعہ ضلع کی سب سے خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال تحصیل بنی سیاحت کے لئے دلکش مقامات کی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہاں سیاحوںکا آنا جانا نہیں ہے ،موسم گرما کے ہونے کے ساتھ ہی جب میدانی علاقوں میں گرمی اور درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ہی لوگ پہاڑی علاقوں کا رخ اختیار کر لیتے ہیں تو بنی میں اسی کے ساتھ سیاحوں کی چہل پہل بڑھ جاتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کے طویل ستر سالہ کے عرصہ سے ریاستی حکمرانوں کی عدم توجہ کا شکار رہا ہے ۔عوامی حلقوں کے مطابق اگر حکومتں توجہ دیں تو قدرتی نظاروں کی بھر مار والا یہ ارض عالمی سطح کے سیاحتی مقامات میں اپنا ایک منفرد مقام بنا سکتا ہے اور ایسے میں یہاں کے علاقے میں ہزاروں پر مشتمل آبادی معاشی لہذ سے ایک خوشحال زندگی کا مقام حاصل کر سکتی ہے لیکن افسوس کہ ہر حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جبکہ یہاں کی عوام نے کئی بار حکمرانوں کے گوش گزار کیا لیکن ان سنی جیسی بات ہوئی ۔وہیں کہ قدرتی حسن سے مالا مال خط ارض کو سیاحتی شعبے میں ترقی دینے کا مطالبہ کرتے آرہے لیکن نامعلوم کن وجوہات پر ناہی ریاستی اور ناہی مرکزی حکومت نے اس جائز مطالبہ کی جانب توجہ نہیں سمجھی۔ عوامی حلقوں کے مطابق بنی وادی کاروباری، معاشی و اقتصادی طور مشکل ترین حالات کا سامنا کررہے علاقے کی عوام کو قدرت نے دینے میں کوئی کمی نہیں کی مگر ہماری طرف سے اپنی ہی حکومت کے منتخب عوامی نمائندوں نے اس علاقے کو سیاحتی شعبے میں ترقی دینے کی خاطر ایسا کچھ نہیں کیا جو قابل ذکر ہو۔جس کے چلتے یہاں لوگوں میں حکومت کے تئیں کافی غم و غصہ پایا جارہا ہے ۔عوام کا کہنا ہے کہ اگر یہاں کہ سیاحتی مقامات سرتھل کے علاوہ چھتر گلہ، ڈوگن، ڈھگر، بانجل و دیگر کئی سیاحتی مقامات ہیں جہاںحکومت توجہ دینے کے ساتھ ساتھ سیاحتی ڈھانچوں کو تعمیر کرے،انھوں نے مزید بتایا کہ اگر یہاں سیوہ جھیل کے کناروں پر سیاحوں کیلئے بیٹھنے کیلئے سہولیات دستیاب کی جائیں تو سیاح اس سیواجھیل کا لطاف بھی اٹھا سکیں گے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا