سری نگر؍؍وادی کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کے خلاف بدھ کے روز مسلسل 52 ویں دن بھی ہڑتال رہی جس دوران گرمائی دارالحکومت سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں و تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل رہی۔ تاہم جہاں ہڑتال کے دوران سڑکوں پر چلنے والی نجی گاڑیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے وہیں اب کچھ سڑکوں بالخصوص بارہمولہ جموں ہائی وے پر صبح اور شام کے وقت چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ سری نگر میں بڑی تعداد میں چھاپڑی فروش سڑک کے کنارے اپنا سامان فروخت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ گرچہ دکانیں و تجارتی مراکز دن کے وقت مکمل طور پر بند رہتے ہیں تاہم وادی کے کچھ بازاروں میں صبح کے وقت رونق دیکھی جارہی ہے۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے کچھ حصوں میں اب نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دکانیں کھل جاتی ہیں اور لوگ بھی ان دکانوں کا رخ کرکے خریداری کرتے ہیں تاہم نو بجتے ہی دکانیں فوراً بند ہوجاتی ہیں اور بازاروں میں ایک بار پھر اگلے فجر تک ہوکا عالم چھا جاتا ہے۔وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر پابندی بدستور جاری ہے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی کی وجہ سے اہلیان کشمیر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔وادی میں جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات بھی 5 اگست سے لگاتار معطل ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ سروسز مقامی پولیس و سول انتظامیہ کی ہدایت پر معطل رکھی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ سے گرین سگنل ملتے ہی بحال کی جائیں گی۔ وادی بھر میں تعلیمی ادارے گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے اور پتھرائو کے واقعات میں غیر معمولی حد تک کمی آئی ہے۔ تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین ہسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔وادی میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے۔ علاحدگی پسند لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے بلکہ یہ بغیر کال کی ہڑتال ہے۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے بدھ کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھرائو کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے دروازوں کے سامنے ٹھہرنے یا گاڑی کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پائین شہر میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں۔