- تشدد کے واقعات میں کم از کم 45 انسانی جانیں ضائع ہوئیں
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں اپریل کا مہینہ رواں برس کا انتہائی خون ریز مہینہ ثابت ہوا جس کے دوران تشدد کے مختلف واقعات میں کم از کم 45 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان میں 20 جنگجو، 18 عام شہری، ایک بی جے پی لیڈر اور 6 سیکورٹی فورس اہلکار شامل ہیں۔45 میں سے 38 انسانی جانیں جنوبی کشمیر کے چار اضلاع شوپیان، اننت ناگ، پلوامہ اور کولگام میں ضائع ہوئیں۔ اپریل کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں قریب درجن بھر ابھی بھی وادی کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپریل کے پہلے اور آخری دن ہونے والے مسلح تصادم 23 انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا سبب بنے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف جنوبی کشمیر میں اپریل کے مہینے کے دوران 20 سے زیادہ پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں نے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان میں نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی کا پاس آوٹ عابد نذیر اور ایک فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ وادی میں ’اپریل‘ کو گرمائی سیاحتی سیزن کا سٹارٹر مانا جاتا ہے کیونکہ اس ماہ کے دوران باغ گل لالہ کو سیاحوں کے لئے کھلا رکھا جاتا ہے۔ یکم اپریل کو جنوبی کشمیر کے دو اضلاع شوپیان اور اننت ناگ میں تین مختلف مقامات پر مسلح تصادم ہوئے جن میں حزب المجاہدین سے وابستہ 13 مقامی جنگجو جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے بیشتر جنگجوؤں نے گذشتہ ایک برس کے دوران ہی حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سبھی جنگجوؤں کی عمر 30 برس سے کم تھی۔ ان تصادموں کے دوران جنگجوؤں کی فائرنگ سے 3 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ مسلح تصادموں کے مقامات پر احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں 4 عام شہری ہلاک جبکہ قریب 200دیگر زخمی ہوئے تھے۔جنگجوؤں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف وادی کے بیشتر حصوں میں پرتشدد جھڑپیں بھڑک اٹھیں جن کے دوران وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے کنگن میں سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں دو جواں سال نوجوان جاں بحق ہوئے۔ شمالی کشمیرکے ضلع بانڈی پورہ کے حاجن میں 2 اور 3 اپریل کی رات دیر گئے نامعلوم بندوق برداروں نے ایک گھر کے اندر داخل ہوکر دو عورتوں سمیت تین افراد کو زخمی جبکہ مکان مالک کے داماد کو اغوا کے بعد قتل کردیا ۔ مقتول کی شناخت 26 سالہ نصیر احمد شیخ کی حیثیت سے کی گئی تھی۔نصیر احمد کی لاش اغواء کے مقام سے قریب پانچ کلو میٹر دور شاہ گنڈ میں ایک نالہ سے برآمد کی گئی تھی۔ اس واقعہ کے تین روز بعد نامعلوم بندوق برداروں نے 5 اور 6 اپریل کی رات دیر گئے حاجن کے بونہ محلہ میں ایک 25 سالہ نوجوان منظور احمد بٹ کو اغوا کے بعد قتل کردیا۔ منطور کی سرکٹی لاش ایک میوہ باغ سے برآمد کی گئی تھی۔ 6 اپریل کو ضلع پلوامہ کے کنگن میں ایک مختصر مسلح تصادم ہوا جس میں حزب المجاہدین سے وابستہ ایک مقامی جنگجو مصور حسن وانی مارا گیا۔ 11 اپریل کو جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کے وانی محلہ کھڈونی میں سیکورٹی فورسز کے محاصرے میں پھنسے جنگجوؤں کو بچانے کے دوران سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں 4 عام نوجوان ہلاک جبکہ 60 دیگر زخمی ہوئے۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان گولہ باری کے تبادلے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک جبکہ دو دیگر زخمی ہوئے تھے۔ تاہم مقامی لوگ جنگجوؤں کو بچانے میں کامیاب ثابت ہوئے تھے۔ 24 اپریل کو ضلع پلوامہ کے لال ترال کے جنگلات میں جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین قریب دس گھنٹے تک مسلح تصادم جاری رہا جس میں جیش محمد سے وابستہ 4 جنگجو اور 2 سیکورٹی فورس اہلکار ہلاک ہوئے ۔ مہلوک جنگجوؤں میں سے دو مقامی تھے جن کی شناخت عابد احمد ساکنہ کرال گنڈ اور اشفاق احمد ساکنہ ہنڈورہ کی حیثیت سے کی گئی تھی۔ دو غیرملکی جنگجوؤں کی شناخت عمر خالد اور یاسر کی حیثیت سے کی گئی تھی۔ مہلوک سیکورٹی فورس اہلکاروں کی شناخت فوج کی 42 راشٹریہ رائفلز (آر آر) کے اجے کمار اور ریاستی پولیس کے محمد لطیف گوجری کی حیثیت سے کی گئی تھی۔ ریاستی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے دعویٰ کیا تھا کہ لام ترال کے جنگلات میں مارے گئے 4 جنگجوؤں میں جیش محمد کا آپریشنل کمانڈر مفتی یاسر بھی شامل ہے۔ انہوں نے ایک تصویر ٹویٹ کی تھی جس میں مفتی یاسر کو کالعدم جنگجو تنظیم ’جیش محمد‘ کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ پولیس سربراہ نے تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ’ترال کے بالائی حصوں میں مارے گئے جنگجوؤں میں جیش محمد کا آپریشنل کمانڈر مفتی یاسر بھی شامل ہے‘۔ 25 اپریل کو مشتبہ جنگجوؤں نے ضلع پلوامہ کے راجپورہ چوک میں غلام نبی پٹیل نامی بی جے پی لیڈر کی گاڑی پر فائرنگ کرکے اسے ہلاک جبکہ اس کے دو ذاتی محافظین (پی ایس اوز) کو زخمی کردیا۔ 26 اپریل کو ضلع اننت ناگ میں جنگجوؤں نے ریاستی پولیس اور سی آر پی ایف پر مشتمل ایک روڑ اوپننگ پارٹی کو نشانہ بناکر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک عام شہری جاں بحق ہوا۔ مہلوک شہری کی شناخت شفیق شبیر شاہ ولد شبیر احمد شاہ ساکنہ شوپیان کی حیثیت سے کی گئی تھی۔ مہینے کے آخری دن یعنی 30 اپریل کو ضلع پلوامہ کے دربگام میں مسلح تصادم ہوا جس میں حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر سمیر ٹائیگر سمیت دو مقامی جنگجو جاں بحق ہوئے۔ مسلح تصادم کے مقام پر مقامی لوگوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ایک 25 سالہ نوجوان ہلاک جبکہ قریب دو درجن دیگر زخمی ہوگئے۔ مارے گئے جنگجوؤں کی شناخت سمیر احمد بٹ عرف سمیر ٹائیگر ولد محمد مقبول بٹ ساکنہ دربگام اور عاقب مشتاق خان ولد مشتاق احمد خان ساکنہ راجپورہ پلوامہ کی حیثیت سے کی گئی۔ مسلح تصادم کے مقام پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے عام نوجوان کی شناخت 25 سالہ شاہد احمد ڈار ولد محمد اشرف ڈار ساکنہ آری ہل پلوامہ کی حیثیت سے کی گئی۔ 30 اپریل کو نامعلوم بندوق برداروں نے شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے خانپورہ میں شام دیر گئے ٹارگٹ فائرنگ کرکے تین افراد کو جاں بحق کردیا۔ ریاستی پولیس نے مہلوکین کی شناخت عاصف احمد شیخ، حسیب احمد خان اور محمد اصغر ساکنان کاکر حمام بارہمولہ کی حیثیت سے کی ہے۔ پولیس نے ان کی ہلاکت کے لئے جنگجوؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بارہمولہ پولیس نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا ’تین شہریوں کی ہلاکت میں ایک پاکستانی اور دو مقامی جنگجو ملوث ہیں۔ ملوث جنگجوؤں کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے‘۔ دریں اثنا گذشتہ ایک ماہ کے دوران جہاں سیکورٹی فورسز کی جانب سے 19 جنگجو مارے گئے، وہیں اس دوران صرف جنوبی کشمیر کے چار اضلاع میں 20 سے زیادہ پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں نے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ یکم اپریل کے مسلح تصادموں جن میں 13 جنگجو جاں بحق ہوئے تھے، کے بعد سیکورٹی عہدیداروں نے کہا تھا کہ بڑی تعداد میں جنگجوؤں کی ہلاکت کے پیش نظر اب مزید نوجوان جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔ تاہم یہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ کشمیری نوجوانوں کے ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔ ایک رپورٹ میں ایک سینئر پولیس عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا ہے ’یکم اپریل کے مسلح تصادموں کے دن سے لیکر اب تک 20 کشمیری نوجوانوں نے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے‘۔ گذشتہ ہفتے جہاں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کا ایک بڑا واقعہ پیش آیا، وہیں ایک پولیس کانسٹیبل اپنی سروس رائفل لیکر فرار ہوگیا۔ 25 اپریل کی رات دیر گئے جنگجوؤں نے ضلع بڈگام کے گوری پورہ حیدرپورہ میں ایک مندر کی حفاظت کے لئے قائم جموں وکشمیر آرمڈ پولیس کی چوکی پر حملہ کرکے وہاں سے چار سروس رائفلیں اڑالیں۔ ان رائفلوں کی تصویر بعدازاں حزب المجاہدین نے سماجی میڈیا پر ڈال دی۔ اس واقعہ سے دو روز قبل وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے پکھر پورہ میں تعینات ایک پولیس کانسٹیبل طارق احمد بٹ ساکنہ شوپیان اپنی سروس رائفل لیکر لاپتہ ہوگیا۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کشمیری نوجوانوں میں نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی کا پاس آوٹ عابد نذیر ساکنہ پڈرپورہ شوپیان اور جموں وکشمیر لائٹ انفینٹری رجمنٹ کا فوجی اہلکار ادریس احمد میر ساکنہ صفانگری زین پورہ شوپیان بھی شامل ہیں۔