ہریانہ میں ایک اور کشمیری طالب علم کا زدوکوب؛اسمبلی میں اپوزیشن کاہنگامہ اور واک
آوٹ کشمیری نوجوان اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں :ساگر
یہ کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ سرکار خاموش کیوں ہے:تاریگامی
- لازوال ڈیسک
جموں؍؍ریاست ہریانہ میں شرپسندوں کی جانب سے ایک اور کشمیری طالب علموں کو زدوکوب کرنے کے معاملے پر جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں جمعرات کو اپوزیشن کے اراکین نے شدید شور شرابہ کے بعد احتجاج کے بطور ایوان سے واک آوٹ کیا۔ اطلاعات کے مطابق ہریانہ کے ضلع امبالا میں شمالی کشمیر کے ایپل ٹاون سوپور سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کو اس کے ساتھی طالب علموں کے ایک گروپ نے زدوکوب کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ واقعہ 7 جنوری کو یونیورسٹی کیمپس کے نذدیک پیش آیا ہے۔ یونیورسٹی نے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک قصوروار طالب علم کو معطل کیا ہے۔ جمعرات کی صبح جوں ہی قانون ساز اسمبلی میں معمول کی کاروائی شروع ہوئی تو نیشنل کانفرنس رکن اسمبلی و جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے معاملے کو اٹھاتے ہوئے کہا ’ہریانہ میں بدھ کے روز کچھ شرپسندوں نے ایک اور کشمیری طالب علم کی پٹائی کی ہے‘۔ ساگر کے بعد اپوزیشن نیشنل کانفرنس، کانگریس اور سی پی آئی ایم کے بیشتر اراکین نے حکومت مخالف نعرے بازی شروع کی۔ انہوں نے واقعہ کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسٹر ساگر نے کہا ’کشمیریوں کو ریاست سے باہر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ حکومت ان کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے‘۔ اس دوران پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے حکومتی بیان دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ ’ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم اور تجارت کے سلسلے میں مقیم جموں وکشمیر کے رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے‘۔ سی پی آئی ایم ممبر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے مطالبہ کیا کہ وادی سے باہر مقیم کشمیریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایوان میں ایک قرارداد منظور کی جانی چاہیے۔ ایوان میں موجود بیشتر اپوزیشن اراکین نے تاریگامی کے مطالبے کے ساتھ اتفاق کیا۔ تاہم جب اسپیکر کویندر گپتا نے یہ کہتے ہوئے کہ ’حکومت نے معاملے پر اپنا موقف پہلے ہی واضح کیا ہے‘ اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کیا تو اپوزیشن قائد عمر عبداللہ کی قیادت میں حزب اختلاف کے تمام اراکین نے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ دریں اثنا نیشنل کانفرنس ممبر اسمبلی مسٹر ساگر نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ کشمیری نوجوان اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں ہیں۔ بقول ان کے اس سے حکومت کے اعتبار پر آنچ آجاتی ہے۔ یوسف تاریگامی نے کہا کہ ایسی وارداتوں کا رونما ہونا اب معمول بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’بار بار اس قسم کی وارداتیں رونما ہورہی ہیں۔ کشمیری طالب علم اور تجارت پیشہ افراد اپنے ہی ملک کو خود کو محفوظ نہ سمجھیں، یہ کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ سرکار خاموش کیوں ہے۔ پارلیمنٹ میں کل وزیر اعظم مودی نے ڈیڑھ گھنٹے تک تقریر کی۔ ان وارداتوں پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ ہم نے سرکار سے کوئی آسمان کے تارے نہیں مانگے بلکہ ایسی وارداتوں پر مذہبی قرارداد منظور کرانے کا مطالبہ کیا‘۔ تاہم حکومتی ترجمان نعیم اختر کا کہنا تھا ’یہاں سے جو بچے باہر پڑھنے جاتے ہیں، ان کو محفوظ ماحول ملنا چاہیے۔ یہ بچے کشمیر اور ملک کے باقی حصوں کے درمیان جذباتی پل کا کام کرسکتے ہیں۔ بیرون ریاستوں کے شہریوں کو وہاں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں کو اپنا سمجھنا چاہیے‘۔ واضح رہے کہ 2 فروری کو سینٹرل یونیورسٹی ہریانہ کے دو طالب علموں آفتاب احمد اور امجد علی ساکنان ضلع راجوری کو شرپسندوں کے ایک گروپ نے بلا کسی وجہ شدید زدوکوب کیا۔ زدوکوب کا نشانہ بنائے گئے ایک طالب علم کا کہنا تھا ’2 فروری کو (جمعہ کو) ہم نماز کی ادائیگی کے لئے مہندر گڑھ مارکیٹ گئے۔ جب ہم نے ایک چوک میں اپنا موٹر سائیکل کھڑا کیا تو قریب 15 سے 20 افراد نے ہمیں بلا کسی وجہ پیٹنا شروع کردیا‘۔ آفتاب اور امجد سینٹرل یونیورسٹی ہریانہ سے جغرافیہ میں پوسٹ گریجویشن کررہے ہیں۔ جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واقعہ پر اپنی شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا ’مہندر گڑھ ہریانہ میں دو کشمیری طالب علموں کو پیٹنے کی خبروں نے مجھے حیران و پریشان کردیا ہے۔ میں متعلقہ انتظامیہ پر زور دیتی ہوں کہ وہ معاملے کی تحقیقات اور ملوثین کے خلاف سخت کاروائی کرے‘۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال نے محترمہ مفتی کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا تھا ’ملزمان کو سزا ملے گی۔ طرفین کے مابین توتو میں میں موٹر سائیکل کے ٹکرانے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘۔ محترمہ مفتی نے منوہر لال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا ’فوری کاروائی کرنے کے لئے آپ کی شکر گذار ہوں‘۔ واقعہ کی نسبت پولیس تھانہ مہندر گڑ میں درج کی گئی ایف آئی آر میں آئی پی سی کی 148 ، 149، 341 اور 323 دفعات شامل کی گئی تھیں۔