کذاب ذرائع ابلاغ سے اللہ ہی وطن عزیز کو محفوظ رکھے

0
129

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
آج عالمی منظر نامہ ایک الگ ہی داستان بیان کر رہا ہے۔ایک جانب دنیا ترقی و فروغ کے لیے کوشاں و سرگرداں ہے تو دوسری جانب اس ترقی کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار بیٹھی ہے خواہ اسکی خاطر انسانوں کے لہو کی ہولی ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ اگر کوئی اپنے بوطے ،اپنی محنت،اپنی تکنیکی مہارت،اپنی سمجھ بوجھ اور اپنی واجب منصوبہ بندی کے بل پر پیش قدمی کرتاہے تو کسی کو کوئی اعتراز نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ اس میدان عمل میں اس کی جفا کشی،جاں سوزی،اور عزم و حوصلے کی قابل قدر پزیرائی و ستائش ہونی ہی چاہیے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ مذکورہ بالا صفات و خصوصیات کے بل پر جو ترقی عمل پزیر ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔لیکن جب یہی ترقی کسی فرد واحد،کسی گروہ یا کسی حکومت کے سر پر چڑھ کر برہنہ رقص کرنے لگتی ہے تو یقینی طور پر وہاں سے اس کے زوال اور تنزلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔پھر اسکا انجام انتہائی عبرتناک اور دردناک ہی ہوتاہے۔معلوم نہیں اس ترقی یافتہ دور میں اہل علم و بصیرت اور اہل فہم و فراست و اہل آگہی و ادراک حضرات بھی اس معمولی سی بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سمجھنے سے قاصر ہی نہیں ہیں بلکہ انہیں اپنی اقتصادی و معاشی ،حربی و تکنیکی اور بارودی قوتوں پر غرور ہوتاہے۔وہ اس مسلمہ حقیقت سے ضرور غافل ہیں کہ تکبر کا انجام سدا ہی برا ہوا ہے۔تکبر نہ کسی کا رہا ہے نہ رہیگا۔پھر بھی یہ اپنے متکبرانہ رویے کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔تاکہ وہ ساری دنیا کو خوفزدہ کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کر سکیں اور تا دیر یہ حکومت قائم رکھ سکیں۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں دنیا کے پر امن ہونے کا تصور دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے آج جو دنیا کا منظرنامہ ہے وہ اسی قسم کا ہے۔کبھی حکومت برطانیہ کا محکوم امریکہ آج دنیا کا بادشاہ بن بیٹھا ہے اور ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔وہ ساری دنیا کے لئے یہ طے کرنے لگا کہ تم اس سے دوستی رکھو اور اس سے دوستی مت رکھو۔تم یہ چیزیں بنا سکتے ہو اور یہ چیزیں نہیں بنا سکتے ہو۔تم یہاں سے یہ چیزیں خرید سکتے ہو اور یہ چیزیں نہیں خرید سکتے ہو۔تم اپنا کاروبار فلاں فلاں ملک سے کر سکتے ہو اور فلاں فلاں ملک سے نہیں کر سکتے ہو۔ امریکہ بڑی بیباکی سے تہزیبی تصادم کی دہائی دے کر دوسروں کے مذہبی امور میں بھی مداخلت کرنے لگا ہے۔الغرض اپنی خدائی قائم کرنے میں اس نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔لیکن وہ یہ بالکل فراموش کر گیا کہ ماضی میں بڑی بڑی قوتوں کے سربراہان نے کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا اور بالآخر وہ ایسے نیست و نابود ہو گئے کہ صفح? ہستی پر انکا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہا۔کل کا وسیع روم آج ایک چھوٹا سا ملک اٹلی ہو کر رہ گیا۔فرعون اور شداد جیسا طاقتور بادشاہ تباہ و برباد ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔بعد کے ہٹلر اور مسولینی کا انجام کیا ہوا اس حقیقت سے کون واقف نہیں ہے۔اتنے سارے عبرتناک واقعات کے باوجود اگر کوئی اپنی خدائی قائم کرنے کا خواہاں ہے تو اصل خدا اسے کسی طرح معاف نہیں کر سکتا۔یہ ایک نظام فطرت ہے کہ اس نے ہر عروج کی ایک انتہا مقرر کر رکھا ہے اور ہر انتہا کے بعد اس کی تنزلی کا دور شروع ہو جاتا ہے۔اس ناچیز کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خداے برتر و بالا نے امریکہ سے مکافات کا عمل جاری کر رکھا ہے۔جس کے زیر اثر اس کے زوال کا دور شروع ہو چکا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کبھی اس امر پر غور و فکر کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ کسی بھی ملک پر اپنی مرضی تھوپنا اس کا جذباتی استحصال ہے خواہ وہ حکومتی امور میں ہو یا اقتصادی و مذہبی امور۔ایسے لوگوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ کوئی بھی انسان اپنی خود مختاری میں کسی کی بھی مداخلت کو گوارا نہیں کر سکتا ہے۔جب ایک فرد واحد اپنے ذاتی یا خانگی معاملات میں کسی کی بھی مداخلت گوارا نہیں کر سکتا ہے تو کسی ملک کا سربراہ اپنے وطن عزیز کے داخلی یا خارجی امور میں کسی کی بھی مداخلت کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔بائڈن نے جو اپنے عہد اقتدار میں دوسرے ممالک کے سربراہان پر اپنی مرضی تھونپنے کی فاش غلطی مسلسل کی ہے اسکا انجام یہ ہوا کہ نہ صرف?اہل مشرق بلکہ اہل مغرب بھی ان سے متنفر ہو گئے۔مثال کے طور پر جرمنی کے چانسلر کے علاوہ یونان وغیرہ بھی ان سے متنفر نظر آنے لگے۔لیکن یہ عجب خود عنانیت ہے کہ متذکرہ بالا تمام کار بیجا کو بائڈن جائز اور بجا قرار دے کر اپنی طاقت کے غن میں چور سبھوں پر اپنا ڈنڈا چلاتے رہے۔آج جب بائڈن اپنی غلطیوں کے باعث خود مصیبتوں میں مبتلا ہو چکے ہیں تو ان ہی لوگوں کو مدد کے لئے صدا دے رہے ہیں جن پر اپنی مرضی تھونپتے رہے۔یہ تو بیشرمی و بیغیرتی کی انتہا ہے۔بہر کیف آج کوئی ہاتھ بائڈن کی جانب مدد کے لئے نہیں بڑھ رہا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان سے خدائی انتقام کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔اب ٹرمپ کو خود ہی چین ایران روس اور شمالی کوریا جیسے طاقتور ممالک سے نمبرد آزما ہونا ہوگا جو کہ لوہے کا چنا چبانے کے مصداق ہوگا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین سپر پاور بننیکی تیاری بہت قبل سے کر رہا ہے۔یہ بات اس کے اسلحہ گودام میں پڑے ان جدید ترین میزائلوں اور طاقتور جنگی طیاروں سے ثابت ہوتی ہے۔۔کیونکہ ان کی دنیا کو کوئی خبر ہی نہیں ہو سکی۔انہیں انتہائی رازدارانہ طور پر بنایاگیا اور رکھا گیا۔امریکہ چین کو وہی قدیم چین تصور کر رھا ہیجو امریکہ سے بہت کمزور تھا۔چونکہ امریکہ کے پاس کئی بحری بیڑے ہیں جن میں نکولیای اسلحہ جات بھی ہیں اور ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے لانگ رینج میزائل بھی نیز اس پر کئی جدید جنگی طیارے یعنی پانچویں نسل کے طیارے بھی ہمہ اوقات تعینات ہیں۔چنانچہ اس نے سوچا کہ امریکہ سے تصادم کی جرائ￿ ت چین نہیں کر سکیگا۔جب آزمائشی کا وقت آیا تو چین بل سے باہر آیا اور اس نے اپنے نو تعمیر اسلحہ جات کا انکشاف کیا۔ بائڈن کے ہوش کے فاختے پرواز کرنے لگے۔یہاں اس امر کی توضیح ناگزیر ہے کہ امریکہ نے اگرچہ اپنے طور پر فیک جنگ ہی چھیڑی تھی کہ اسکی دہائی دے کر امریکی عوام سے اپنے حق میں رائے دہی کا جواز پیدا کیا جا سکے۔عین اسی طرح ہندوستان نے بھی سوچا تھا کہ چین سے جنگ چھیڑ کرارض ہند پر اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا جائیگا۔جیسا کہ قبل میں اپنے ہی کچھ فوجیوں کو شہید کروا کر موجودہ حکومت ہند سرخروئی حاصل کر چکی ہے۔لیکن اس دفعہ امریکہ و ہندوستان کی منصوبہ بندی بالکل ہی ناکام ہو گئی۔فیک جنگ حقیقی جنگ میں تبدیل ہو گئی جس میں فی زمانہ ہندوستان کو عظیم نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔اب حالات یہ ہیں کہ متذکرہ بالا دونوں ہی ممالک کے سربراہان کو نہ اگلتے بن رہا ہے اور نہ ہی نگلتے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چین ایک توسیع پسند ملک ہے چنانچہ اس کی نگاہ حرس ہندوستان کے لداخ،اروناجل پردیس اور سکم پر بہت قبل سے مرکوز ہے۔چنانچہ اس نے لداخ میں کثیر نفری فوج اتار رکھیں ہے۔اسی کے باہم تمام جنگی ساز و سامان بھی لے آیا ہے۔دوسری جانب خبروں کے مطابق اروناچل پردیش میں بھی چینی فوجیوں کی گشت دیکھی جا رہی ہے۔یہ ہندوستان کے لئے انتہائی تشویشناک حالات ہیں۔چین نے مملکت نیپال کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔اب چونکہ چین کا عمل دخل نیپال میں بہت بڑھ گیا ہے اس لئے یہ بھی ہندوستان کے لئے ایک الگ سر درد ہے۔اس کا خاص سبب یہ ہے کہ چین نیپال سے مل کر ہندوستان کے خلاف کئی محاذ کھول سکتا ہے۔۔جس کے باعث نہ صرف ہندوستانی فوج کو کتنے ہی حصے میں تقسیم کرنا ہوگا بلکہ جنگی ساز و سامان کو بھی۔ایسے میں ہندوستان بہت کمزور پڑ سکتا ہے۔اس طرح اسے چین جیسے جدید تکنیک سے لیس ملک سے نمٹنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے ہندوستان کے عوام کو بالکل ہی قعر تاریک میں دفن کر کے رکھ دیا ہے۔اس قدر کذب گوئی سے کام لیتے ہیں کہ ہندوستانی عوام الجھنوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کوئی بھی خبر سچائی پر مبنی نہیں ہوتی ہے۔وہ خواہ قومی خبر ہو یا بین الاقوامی خبر۔یہ مبالغہ آرائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے خصوصاً برقی ذرائع ابلاغ تو اسی پر منحصر ہی کرتے ہیں۔یوں تو انہیں وطن عزیز کا چوتھا ستون کہا جاتا۔لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ جب اس کی بنیاد ہی کذب گوئی اور مکر و فریب پر ڈال دی گئی ہے تو یہ کس حد تک ملک کے لئے مفید ہو سکتے ہیں یہ سمجھا جا سکتا ہے۔اس کی کذب گوئی کے باعث وطن کے حقیقی حالات سے غافل ہیں۔وہ حالات خواہ معاشی و اقتصادی ہوں یا تعلیمی و حربی۔اج یہ ذرائع ابلاغ خوب خوب شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت بہت ہی مستحکم حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر بیرونی قرض میں ہر روز برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔بیروزگاری اپنے پورے شباب پر ہے۔مہنگائی تاریخ رقم کر رہی ہے۔دوسرے ممالک کی بنسبت یہاں فاقہ کشوں کی تعداد میں بیتحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔غرض کہ ہر شعبہئ￿ حیات میں ہندوستان کی حالت غیر نظر آرہی ہے۔لیکن یہ ذرائع ابلاغ والے صرف اور صرف مبالغہ آرائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔اج ہندوستان کی حقیقی تصویر یہ ہے کہ 80 کروڑ ہندوستانی مفت راشن کی صف میں کھڑے ہیں لیکن کذب گو ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان کی معیشت برق رفتاری سے فروغ پارہی ہے۔ان ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دو سال میں یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہو جائے گی۔یہ وہ سنہرے خواب ہیں جو حکومت ہند اور گودی میڈیا کے ذریعے ہر ہندوستانی کو دکھائے جا رہے ہیں جبکہ فی کس آمدنی میں ہندوستان بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ان حالات میں ہندوستان کا تحفظ بھی خطرے سے دو چار ہے۔
جب ایک رافیل جہاز ہندوستان آیا تھا تو یہی ذرائع ابلاغ یہ شور مچا رہے تھے کہ اب پاکستان تو پاکستان امریکہ اور فرانس والے بھی ہندوستان سے تھر تھر کانپ رہے ہیں شاید انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ رافیل جہاز فرانس ہی میں بنتا ہے اور اس نے ہی ایسا پرانا گھسا پٹا جہاز جس کا رنگ بھی اڑ چکا تھا ہندوستان کو بہت اونچی قیمت پر فروخت کیا ہے ان ہندوستانی گودی میڈیا والوں کو شاید یہ علم بھی نہیں کہ امریکہ،روس اور چین کے پاس پانچویں پیڑھی کا اسٹیلتھ جہاز ہے جس کی رفتا روشن سے ستائس درجہ زیادہ۔جسے اسمارٹ سے اسمارٹ رڈار بھی نہیں پکڑ سکتا اور کوئی بھی میزائل اسے گرانے سے قاصر ہے۔در اصل یہ ذرائع ابلاغ والے صحافت کم اور حکومتی غلامی کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔جس سے وطن عزیز کو بہت زیادہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ان کی کذب گوئی اور بڑ بول کے باعث دوست بھی دشمن ہوتے جا رہے ہیں۔مثال کے طور پر نیپال،بنگلہ دیش،مال دیپ ،سنگا پور وغیرہ۔ان کے فریب کے باعث اروناچل پردیش اور لداخ ہاتھ سے نکل رہا ہے مگر یہ تیس مار خاں بنے بیٹھے ہیں۔
ان کاذبوں سے اللہ ہی وطن عزیز کی خیر فرمائے آمین۔جو حالات اقلیم ہند کے جو حالات پیش نظر ہیں وہ بالکل ہی ناگفتہ بہ ہیں۔ایک جانب چین سے آنکھ ملانے کی جرائ￿ ت امریکہ جیسا مستحکم ملک بھی نہیں کر پا رہا ہے تو ہندوستان کیا کریگا۔چین تو ہندوستان کی کتنی ہی زمین پر قبضہ کر کے بیٹھا ہے لیکن ہندوستان کے وزیر اعظم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ چین کا نام بھی لے سکیں بلکہ انہوں نے تو اس قبضے کے صلے میں چین سے اپنے تجارت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔شاید بھی کسی خوف کے باعث ہی عمل پزیر ہوا ہو۔یہ ہے زبانی پہلوان کی وہ حقیقت جو سبھوں پر روشن ہے سوا حکومت ہند کے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا