حمید سہروردی(گلبرگہ)
ڈاکٹر زور عمل کے غازی تھے نہ کہ گفتار کے۔ وہ علمی، ادبی، لسانیاتی اور تنظیمی میدانوں میں منفرد و مختلف رہے۔ ان کا زاویہ فکر تحقیقی اور علمی تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے تخیل کو رنگ آمیز کرنے کی طرف بھی توجہ صرف کی۔ شاعری اور افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی فرمائی۔ افسانوں میں بھی ایک نئے زاویہ کی نشاندہی کی، جو اُن کی فکر کا اہم حصہ ہے۔ ہمیں یہاں ان کے جذبہ کو بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ ڈاکٹر زور دکن اور بالخصوص حیدرآباد، ان میں اور وہ حیدرآباد میں بسے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانوں کے انتخاب میں اصلاحی و مقصدی، سماجی و معاشرتی افسانوں کے بجائے تاریخی اور وہ بھی گولکنڈہ اور ان کے حکمرانوں کو کردار بنایا اور اُن کے زمانے کے کسی واقعہ کو افسانوی مزاج عطا کرنے کی کوشش کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی فن پارہ اپنی تہذیبی قدروں سے چشم پوشی نہیں کرتا بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر ان قدروں سے استفادہ کرتا ہے یا انہیں اپنے طور پر رنگ و نور عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تہذیب، انسانی معاشرہ کے افعال و اعمال اور دیگر سرگرمیوں سے بنتی ہے۔ تہذیب کی آبیاری میں تمام معاشرہ اپنے اصول و ضوابط تحریری اور غیر تحریری طور پر قبول کرلیتا ہے۔
ادب کا مطالعہ، دراصل کسی تہذیب کا مطالعہ ہی ہوتا ہے جس میں زندگی کی توانائیاں، کمزوریاں، خوش حالیاں، بدحالیاں ہر طرح کے معاملات اور کارکردگیاں دھندلے اور واضح نظر آتے ہیں۔ انسان کے خواب، جو حال اور مستقبل کے لیے نیا منظرنامہ، نئی زندگی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ فنکار کبھی ماضی، کبھی حال اور کبھی مستقبل کی تبناکیوں کا آرزومند اور خواہش مند ہوتا ہے۔ علاقائیت سے آفاقیت، ایک عالم ہے کہ فن پارہ کی ہیئت، مواد اور اصنافِ ادب کے ذریعہ کئی پہلوئوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ایک راہ کو ہموار کرنے کی کوشش میں سرگراں رہتا ہے۔ غرض کہ تہذیب سے الگ انسان کا تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ تہذیب کی ہی ایک سرگرمی تاریخ بھی ہے۔
تاریخی فکشن لکھنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ماضی کو پھر سے تازہ اور زندہ کیا جائے تاکہ موجودہ نسل اس سے استفادہ کرسکے، اپنے بزرگوں اور اسلاف کے کارہائے نمایاں سے موجودہ نسل بھی اس ورثے کی حفاظت کرنے اور اس ورثے میں اضافہ کا عزم و حوصلہ پیدا کرے۔ تاریخی فکشن کا، کسی ایک شخصیت یا اشخاص کے چند اہم اور نمایاں پہلوئوں کو پیش کرتے ہوئے انفرادی کردار کا استحکام اور اجتماعی کارکردگی سے معاشرتی، تمدنی اور تہذیبی زندگی میں فعالیت اور دنیا میں کچھ کرگزرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہی مقصد ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زور نے جہاں دکنی زبان کے تخلیقی پاروں کی تحقیق کی ہے وہیں انھوں نے قطب شاہی سلاطین کے کارناموں کو زندہ و جاوید بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے تاریخی افسانوں میں یہی احساس کام کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسانوں کے ذریعہ قطب شاہی سلاطین کی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کو تخلیق کے درجہ تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ڈاکٹر زور نے سیر گولکنڈہ اور گولکنڈہ کے ہیرے تاریخی شخصیتوں اور ان کے زمانے کے ماحول، رسم و رواج، معاشرتی اور تمدنی زندگی کے مرقعے پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر زور نے ان تاریخی افسانوں کے بارے میں لکھا:
گول کنڈے کے یہ تاریخی افسانے اسی نقطہ نظر سے لکھے جارہے ہیں کہ ان میں ہندوستان کے اہم خطے، دکن کے حکمرانوں، امیروں اور عوام کے ایسے سچے کردار اور اصلی حالات زندگی پیش کیے جارہے ہیں جن کے مطالعے سے عہد حاضر کے نوجوان اپنے ملک کی حقیقی عظمت سے واقف ہوسکتے ہیں اور اس آزاد خیالی، مذہبی رواداری، بلند ہمتی، سعی پیہم اور باہمی محبت کے سبق سیکھ سکتے ہیں جن کی بنا پر ہمارے اسلاف نے تمام دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا تھا۔ (سیر گول کنڈہ)
ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنے دیباچہ میں کہیں بھی افسانہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کے پیش نظر گولکنڈہ کے کھنڈروں کے نام جو زبانِ حال سے اپنی عظمت ماضی کی داستان سناتے ہیں۔ البتہ انھوں نے داستان کا لفظ استعمال ہے۔ ظاہر ہے اس کتاب میں داستانوی عناصر موجود نہیں ہیں بلکہ تاریخ کا علم و احساس ہونے لگتا ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر زور نے کسی ایڈیشن میں ان فن پاروں کو نیم تاریخی افسانے لکھا ہے۔ دیباچہ کا پہلا پیراگراف ملاحظہ فرمایے
اس مجموعہ میں گولکنڈہ کی عظمت کو وہاں کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈال کر ایک حد تک بے نقاب کرنے کوشش کی گئی ہے اور اس سرزمین کے قطب شاہی حکمرانوں کی ان لازوال خدمات کی جھلکیں دکھائی گئی ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کی تاریخ، ادبی، تمدنی، معاشرتی اور عمرانی نقطہ نظر سے دنیا کی بہتر سے بہتر اور ترقی یافتہ ممالک کی تاریخوں کے پہلو بہ پہلو رکھی جاسکتی ہے۔
محی الدین قادری زور نے اپنے افسانوں میں دکن کی قطب شاہی دور کے حکمرانوں کے کارناموں کو ظاہر کرتے ہوئے، دراصل قطب شاہی دور کے حکمرانوں کے تعمیراتی ذہن، ان کی حب الوطنی کے جذبے اور دکن کی گنگا جمنی تہذیب کو نمایاں کرنا مقصد رہا ہے۔ ایک مہذب اور اعلیٰ اطوار رکھنے والی قوم ہر وقت تہذیب کی ہی آبیاری کرتی رہتی ہے۔
ان کے افسانوں میں واقعہ یا قصہ، کردار، ماحول یا فضا اور خود کلامی جیسے عناصر پائے جاتے ہیں۔ محی الدین قادری کے افسانوں میں موضوع اور نقطہ نظر واضح ہوتا ہے جس کا اظہار موصوف نے اپنے دیباچہ میں کیا ہے۔ ان کے افسانے کا بیانیہ صاف ستھرا اور رواں ہے۔ وہ واقعہ کو تسلسل و تواتر کے ساتھ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ کردار نگاری کے باب میں وہ کسی حکمراں یا شاعر کے ظاہری تاثرات اور کیفیات کو بیان کرتے ہیں اور ماحول و فضا کو پیش کرنے میں بھرپور قدرت رکھتے ہیں۔ منظر نگاری بھی ان کے افسانوں میں دامنِ دل کھینچ لیتی ہے:
آج صبح سے حیدرآباد کے بازاروں میں عجیب چہل پہل ہے۔ انسانوں کا ایک سیلاب ہے کہ ہر گلی کوچے سے چار مینار کی طرف جانے والی سڑکوں میں داخل ہو رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاروں سڑکیں بڑے بڑے دریا ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی ندیوں نالوں سے آنے والے سیلابوں کی وجہ سے طغیانی کے آثار نمایاں ہوئے جارہے ہیں۔ یہ انسانی سیلاب ایک ہی مرکز کی طرف بہہ رہا ہے اور چار مینار تک پہنچ کر جنوب مغرب کے عظیم الشان میدان میں جذب ہوتا جاتا ہے۔
نوجوانوں کی ٹولیاں اپنی وضع قطع اور چست لباس میں زندگی اور زندہ دلی کا صحیح نمونہ پیش کر رہی ہیں۔ بڑے بوڑھے اور ثقہ لوگ اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے اور وضع وضع کی لپٹی پگڑیاں لپیٹے چلے آرہے ہیں۔ کوئی بادشاہ کے غیر معمولی زہد و اتقا اور مذہبی شفق کا ثنا خواں ہے، کوئی اس کید رویش صفت زندگی کے قصے سنا رہا ہے۔ کسی کی زبان پر سلطنت کی ہر دلعزیز ملکہ حیات بخشی بیگم کے رفاہِ عام کے کاموں اور خیر خیرات کا تذکرہ ہے اور کوئی اس کے باپ سلطان محمد قلی کی فیاض طبیعت اور اس کے زمانے کی رنگ رلیوں سے موجودہ عہد کا مقابلہ کر رہا ہے۔ لیکن اکثروں کی گفتگو کا موضوع آج ہی کی تقریب ہے جس میں شرکت کے لیے اس ذوق و شوق سے ہر شخص کے قدم چار مینار کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ (مکہ مسجد)
کردار نگاری ملاحظہ فرمائیے:
اس عالم تشویش میںتین چار دن گزر جاتے ہیں۔ ملکہ جھروکے سے باہر کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی ہیں کہ آسمان پر محرم کا چاند نظر آیا۔ اس کو دیکھتے ہی اپنا کھویا ہوا چاند یاد آگیا وہ بے اختیار رونے لگیں لیکن یکایک ان کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اپنا دردِ دل جگر بند فاطمہ سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں کیوں نہ عرض کروں، کیوں نہ منت مانوں۔ فوراً ان کے زبان سے بے اختیار نکلا:
اے امام شہید مظلوم آپ کی اس لونڈی کے جگر کا ٹکڑا اگر صحت اور خیر و خوبی کے ساتھ آملے تو دولت خانہ شاہی میں داخل ہونے سے قبل چالیس من سونے کی زنجیر بنوائوں گی اور مست ہاتھی کے پائوں میں لنگر کرکے آپ کے غلام سلطان عبداللّٰہ کی کمر میں باندھ کر قلعہ گولکنڈہ سے مکان حسینی علم تک پاپیادہ لے جائوں گی اور وہاں فقرا و مساکین و سادات و علما و فضلا و ارباب احتیاج میں تقسیم کردوں گی۔
ذرا مکالمے ملاحظہ کیجیے:
خطاط خاں نے بات کاٹ کر کہا۔ ارے میاں میں جانتا ہوں کہ کسی دوسرے کنارے کے حلقے والے وجہیؔ تو کیا اس کے تلامذہ سے آنکھ نہیں ملاسکتے تھے۔
مگر بھائی استاد وجہی بھی تو شروع ہی سے اپنے کمال فن پر ایسے نازاں اور اپنی فضیلت کے اظہار میں ایسے بے باک تھے کہ اکثر نوجوان ان کی مزاج داری سے تنگ آکر مغربی گروہ یعنی ملا غواصیؔ کے حلقے میں شامل ہوجاتے تھے۔ طلعتی کا واقعہ کیا تم کو یاد نہیں؟ میاں یوسف نے پوچھا۔
قطع کلام معاف کیجیے مجھے آپ نہیں پہچانا؟ میں آپ کے قدیم دوست دھان کوٹھے والے چاند میاں کا بیٹا ہوں۔
ارے تم ہو۔ کیا جوانی تھی تمہارے باپ کی بھی! آج وہ زندہ رہتے تو ہم سے اچھے نظر آتے، ملک خوشنود کا حال تم کو کیا معلوم؟ تم تو بچے ہوگے تم نے اسے دیکھا بھی نہ ہوگا۔ بوڑھے نے ناس کی ڈبیا کھولتے ہوئے کہا۔
جی نہیں قبلہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ ابھی ان کو حسین ساگر کے قریب چھوڑ آیا ہوں۔
کیا وہ اس قدر جلد چلاگیا! بوڑھے نے تعجب سے پوچھا۔
اس قدر جلد کیا معنی؟ وہ تو کئی مہینے یہاں رہے۔ اس اثنا میں بڑی ہنگامہ آرائیاں رہیں، بڑے بڑے مشاعرے ہوئے اور…
اچھا یہ تو کہو کہ گولکنڈہ کے اس حبشی غلام کو بیجاپور میں اتنی اہمیت کیونکر حاصل ہوگئی۔ تم تو بھاگ نگر ہی میں چوک کے قریب رہتے ہو جہاں شاہی ملازمین کی چہل پہل رہتی ہے، تم کو معلوم ہوگا۔
ڈاکٹر زور کے افسانوں سے اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ انھوں نے افسانوں کو اس کے فنی لوازمات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔ ڈاکٹر زور کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے تاریخ کو افسانوں کی شکل میں ایک جہت دینے کی کوشش ہے۔ جو دلچسپ بھی ہے اور فن کے تقاضوں کو کم و بیش پورا بھی کرتے ہیں۔ شاید میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ زور صاحب نے ہر کام کی ابتدا کی ہے اور بنیاد کا پہلا پتھر نصب کیا ہے۔
(زمانہ تحریر2006)