آرٹس فیکلٹی میں تقرری،مسلمان ہونے پرطلباکوتھااعتراض
یواین آئی
وارانسی؍؍بنارس ہندویونیورسٹی(بی ایچ یو) کے’ سنسکرت ودیا دھرم وگیان‘ (ایس وی ڈی وی )میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعیناتی کے بعد فیکلٹی کے طلبہ کے احتجاج کا سامنا کررہے ڈاکٹر فیروز خان نے یونیورسٹی کے ہی دیگر دو شعبوں میں تدریس کے لئے کامیابی حاصل کرنے کے بعد منگل کو ‘ودیا دھرم’ سے استعفیٰ دے دیا۔یونیورسٹی کے شعبہ رابطہ عامہ کے افسر ڈاکٹر راجیش سنگھ نے منگل کو یواین آئی کو بتایا کہ ڈاکٹر خان نے آرٹس فیکلٹی میں شعبہ سنسکرت میں اسسٹنٹ پروفیسر کا عہدہ سنبھال لیا۔حالانکہ ڈاکٹر راجیش نے ان کے استعفیٰ کے سوال پر کچھ بھی تبصرہ کرنے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈاکٹر خان کا ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے اس معاملے میں یونیورسٹی کی جانب سے قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔یونیورسٹی ذرائع سے موصول اطلاع کے مطابق ڈاکٹر خان نے آرٹس فیکلٹی کے شعبہ سنسکرت میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تقرری نامہ ملنے کے بعد ان کی مخالفت میں ایک مہینے سے جاری احتجاج کے درمیان‘ودیا دھرم وگیان ’ سے استعفیٰ دے دیا۔قابل ذکر ہے کہ گذشتہ 5 نومبر کو ڈاکٹر فیروز خان کا تقرر بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ودیا دھرم وگیان سنکائے میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا تھا۔ لیکن جیسے ہی متعلقہ شعبے کے طلبہ کو پتہ چلا کہ ڈپارٹمنٹ میں ایک مسلم پروفیسر کا تقرر ہوا ہے انہوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور ڈاکٹر خان کو برخاست کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ڈاکٹر خان کی تقرری کے خلاف گذشتہ ایک مہینے سے احتجاج کررہے طلبہ کا الزام تھا کہ ان کو ودیا دھرم کی تدریس کوئی آریہ ہی دے سکتا ہے کسی مسلم سے ہم یہ تعلیم کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔طلبہ کے احتجاج کے درمیان ڈاکٹر خان نے یونیورسٹی کے دیگر شعبوں میں درخواست دی تھی۔پیر کے دن آئے رزلٹ میں ڈاکٹر خان نے ایس وی ڈی وی فیکلٹی کے علاوہ فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف آیوروید میں تدریس کے لئے ہوئے انٹرویو میں کامیاب حاصل کرتھی۔ان شعبوں میں کامیابی درج کرنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈاکٹر خان کے ثوب دید پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ جس شعبے کا چاہیں انتخاب کریں۔ وہیں دوسری جانب موصول اطلاع کے مطابق ڈاکٹر خان کے استعفی دینے اور دوسرے ڈپارٹمنٹ سے منسلک ہونے کی خبر ملتے ہی احتجاج کرنے والے طلبہ نے جشن منانا شروع کردیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنسکرت ودیا دھرم سے ان کا استعفی منظور ہونے کے بارے میں یونیورسٹی کے اعلان کے بعد وہ اپنا احتجاج ختم کردیں گے۔