چندربھان کی خیال انگیز نظمیں

0
0

پروفیسرکوثرمظہری

اردو شاعری میں نظم کی طرف میلان طبع رکھنے والوں میں چندربھان خیال کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ گرچہ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں، لیکن ’شعلوں کا شجر‘ سے لے کر ’گمشدہ آدمی کا انتظار‘، ’لولاک‘ اور ’صبح مشرق کی اذاں ‘ تک اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خیال نے صنف نظم کو اپنے احساسات اور تجربات کی پیش کش کا ذریعہ بنایا ہے۔’شعلوں کا شجر‘ (1979) صرف نظموں کا مجموعہ ہے جب کہ ’گمشدہ آدمی کا انتظار‘ (1997) میں گیارہ غزلیں بھی ہیں۔ ’صبح مشرق کی اذاں‘ (2008) میں 24 غزلیں ہیں۔ ’لولاک‘ (2002) ظاہر ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو محیط ہے۔ یہ ایک مربوط طویل نعتیہ رزمیہ ہے جو خیال کے فکری ارتباط اور ذہنی تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس سے رسولِ پاک کی سیرت طیبہ سے ان کی بے پایاں عقیدت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
خیال نے اپنی نظموں میں ذات اور کائنات دونوں کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ وہ خارج اور باطن دونوں جہانوں کی سیر کرتے ہیں۔ ان کے لیے سیاہ سمندر اور تاریکی، ڈائن اور پشاچ، سانپ اور ڈریگن اور اسی طرح دوسرے بہت سے دیومالائی کردار اہمیت کے حامل ہیں۔ جنگل، اجگر، پتھر، آگ، دیوتا، بھیڑیا، جادوگر، مردہ گھر، جیسے کردار اور عوامل ان کے نظمیہ متون کی تہوں میں بھرے پڑے ہیں۔ ایک نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیے:
لمحہ لمحہ خونیں خنجر/ صدیاں جیبھیں ہیں سانپوں کی/ گھاٹ پہ بیٹھی پیاس کی دیوی/اور جادوگر
وقت کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں/ مردہ گھر کے اک کمرے کے تیز دھوئیں
ایک کنواری ننگی عورت چاٹ رہی ہے/ اپنے ہی بے رنگ لہو کو
(وقت کی آنکھیں: شعلوں کا شجر)
ایک دوسری نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے جس میں اس طرح کی فضابندی ہے:
اب جسموں کے تہہ خانوں میں/ جاگ اٹھا ہے کالا جادو/بھاری بھرکم دیواروں نے/
قاتل نغمہ چھیڑ دیا ہے/ بحرصدا پھر مست ہوا ہے/ ڈوب گئے اخلاقی قدروں کے سب ہاتھی/
شور کی طوفانی لہروں میں اور گناہوں کے ٹیلے پر/ سانپ ابھی تک جھوم رہا ہے
(گناہوں کے ٹیلے پر)
خیال کی نظموں میں جو موضوعات آئے ہیں، ان سے ایک طرح کی آسیبی فضا تعمیر ہوئی ہے۔ ساتھ ہی یہ سب زمانے کی ستم ظریفی اور اخلاقی تنزل کو بھی واضح کرتی ہے۔ یہ شاعری محض تفریح طبع کا سامان بہم نہیں پہنچاتی بلکہ ذہنوں کے نہاں خانوں میں اتر کر ان میں بسنے والی تاریکیوں کو باہر لاتی ہے۔ کہیں تنہائی چیختی ہے تو کہیں زخم خوردہ چہرے کراہتے ہیں۔ تہذیب و تمدن خاموش ہے۔ شاعر کی آرزو بھی یہی ہے کہ وہ تاریکی میں اترے:
مجھ کو اس دور جراحت سے گزر جانے دے/ مجھ کو جینے کی تمنا نہیں مرجانے دے
میری تقدیر میں غم ہیں تو کوئی بات نہیں/ مجھ کو ظلمت کی گپھاؤں میں اتر جانے دے
(سمندر کا سکوت، ص 49)
خیال نے زندگی کے مختلف رنگوں کو اپنے تخلیقی منشور (Prism) سے گزار کر اردو نظم کے چہرے کو مجرّد مصوری کا ایک خوبصورت نمونہ بنا دیا ہے۔ لیکن اس خوبصورتی کے پیچھے ایک کریہہ صورت زندگی اور اس کے نقش و رنگ موجود ہیں، جو ہمیں کبھی ڈراتے ہیں تو کبھی غور و فکر کرنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ اس کریہہ صورت زندگی کا جمال دیکھیے:
چند لقمے، کچھ کتابیں/ ایک بستر، ایک عورت/ اور کرائے کا یہ خالی تنگ کمرا
آج اپنی زیست کا مرکز ہیں، لیکن/ تیرگی کا غم انھیں بھی کھارہا ہے
چار جانب زہر پھیلاجارہا ہے
(لوٹ چلیے، ص79)
ہم سب کو عزیز ہیں چند لقمے اور پڑھنے کو کتابیں۔ ہم سب کو عزیز ہیں ایک بستر اور ایک عورت۔ ہم سب کو ضرورت ہے ایک مکان کی۔ اگر زندگی یہیں تک ہو تو حسین ہے؛ لیکن اگر ان سب پر تیرگی کا سایہ ہو اور چاروں طرف زہریلی فضا، تو اس کریہہ صورت زندگی کا حسن ہمیں خوف زدہ کردیتا ہے۔ خیال نے باطن سے خارج کو اس طرح مربوط کردیا ہے کہ ان کے مشاہدے کے حصار سے باہر آنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ چار جانب زہر پھیلنے سے مکان کے اندر اس نظم کے راوی اور عورت کے بستر پر ’ہونے‘ پر کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔ باہر کا زہر راوی کے اندرون میں اتر گیا ہے، تبھی تو وہ اس زہریلی فضا سے دامن کش ہوکر لوٹ جانا چاہتا ہے۔ اس صورتِ حال میں ایک طرح کی پُراسراریت بھی پیدا ہوتی ہے جس کا سِرا Metaphysical Poetry سے بھی مل جاتا ہے۔ خیال کے یہاں اس کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں:
چھپے گا کیا کہ سب تو سامنے رکھا ہے دنیا میں/حضور غیب سے بس آدمی آتا ہے دنیا میں
کراتی ہے تعارف ایک اک شے چیخ کر اپنا/مرا اہل نظر ہونا ہی پہلی شرط ٹھہری ہے
اگرچہ ہوش والوں کی ابھی تک نیند گہری ہے/مگر سنتا ہوں ان کی نیند بھی بے حد سنہری ہے
فصیلوں کے اِدھر ہم لوگ ہیں موجود افسانہ/فصیلوں کے اُدھر جو ہے وہی اپنی حقیقت ہے
(تحیر: گمشدہ آدمی کا انتظار، ص 92)
لیکن خیال کو اس خانے میں رکھنا مناسب نہیں۔ اس نوع کی پُراسراریت میں بھی خارجیت اور ٹھوس پن کے عناصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ کام کیا ہے کہ ٹھوس حقائق کو علامتوںیا استعاروں کی مدد سے پیش تو کیا ہے، لیکن ان کی تیز آنچ سے ان حقائق کو تحلیل ہونے سے بچا لیا ہے، جس کے سبب ہم اپنی زندگی اور معاشرے کی کڑوی کسیلی سچائیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا علامتیت (Symbolism) میں بھی ایک طرح کی شفافیت (Transparency) ہے۔ ان کی غزل کا ایک شعر ہے:
اے شبنم گل اب ترے قطرے بھی ہیں شعلے
بیتاب ہیں اس آگ کو پینے کے لیے ہم
خیالؔ نے معاشرے کو اپنی فکر اور اپنے مشاہدے سے تو دیکھا ہی ہے، ساتھ ہی انھوں نے دوسرے ادیبوں کے احساسات کو بھی اپنی تخلیقی قوت سے نئی معنویت دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی ایک نظم ’بُدھیا‘ ہے جو پریم چند کی مشہور کہانی ’کفن‘ کا مرکزی کردار ہے۔ دردِزہ سے کراہتی بُدھیا کسی نئے سورج کے امکان کا پیغام دینا چاہتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کی چیخوں میں اس پازیب کی جھنکار ہے جسے اس نے دیکھا نہیں۔ وہ مرد اساس معاشرے کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اگر اس کی دکھتی ہوئی ہڈیوں، سمٹتی پھیلتی پسلیوں اور دردزہ کے سبب اگر مسرت و شادمانی کے چند لمحے مل جائیں تو یہ گویااس کی (بُدھیا کی) خوش نصیبی ہوگی۔ گویا نیا سورج طلوع ہوگا، جو یقینا ایک نیا پیغام حیات لے کر آئے گا:
یہ دکھتی ہڈیاں میری/ طرب کے چند لمحے بخش دیں تم کو تو اچھا ہے
یہ میری خوش نصیبی ہے/ یہ میرا دردزہ شاید کوئی پیغام لایا ہے
عورت تمام مصائب کے بعد بھی ماں بننے کو خوش نصیبی اور باعث فخر تصور کرتی ہے۔ یہاں اچانک ایک موڑ آتا ہے جب آنے والے نئے سورج پر بدنصیبی کا کالا سایہ پڑجاتا ہے۔ پھر وہ بُدھیا اسے بھی خوش نصیبی تصور کرتی ہے، کیوں کہ اُسے معلوم ہے کہ اس دنیا میں اگر بچہ آیا تو وہ بھی اپنے باپ دادا (مادھو اور گھیسو) کی طرح گرم آلو چھیل چھیل کر کھاتا رہے گا اور میری ہی طرح ایک عورت پھر دردِ زہ میں مبتلا موت کے انتظار میں چھٹپٹاتی رہے گی۔ یہ حصہ اس نظم کی جان ہے۔ خیال نے بڑی خوبصورتی اور ہنرمندی سے پریم چند کے فکر اور کردار کی بین متنی تعبیر پیش کی ہے۔ بلکہ مجھے یہ جرأت ہوتی ہے کہ یہ لکھ دوں کہ پریم چند نے اُس بے بس بُدھیا کے کردار میں اضطراب اور انقلاب کے عناصر بھر دیے ہیں:
چلو اچھا ہوا میں چل بسی اور میرا مستقبل/ مرے ہمراہ میرے پیٹ میں دم توڑ بیٹھا ہے
وگرنہ کس نے جانا ہے/ کہ وہ بھی زندگی بھر گرم آلو چھیلتا رہتا/ انھیں کو لیلتا رہتا
چلو اچھا ہوا ایسی غلاظت سے/ مصیبت اور غربت سے/
مرے قلب حزیں کو جلد آزادی ہوئی حاصل/ یہ میری خوش نصیبی ہے
اس نظم کا اختتام بھی بُدھیا کی زبانی ہوتا ہے جو پوری طرح طنز سے بھرپور ہے:
کفن مجھ کو نہیں دے پائے تم تو دکھ نہیں لیکن
یہ حسرت رہ گئی میری/ تمھاری غیرتوں کو کوئی اچھا سا کفن دیتی
تمھیں جینے کا فن دیتی
(بدھیا: گم شدہ آدمی کا انتظار، ص: 79)
اس نظم میں خیال نے عورت کی زبانی اس حسرت کا اظہار کرایا ہے کہ اگر وہ زندہ رہ جاتی تو مردوں کی غیرتوں کو کفن دے دیتی، ساتھ ہی جینے کا سلیقہ اور فن بھی عطا کردیتی۔ بدھیا اس بات پر خوش ہے، کہ اچھا ہوا کہ اس کا مستقبل (اولاد) اس کے پیٹ میں دم توڑ چکا ہے ورنہ وہ بھی اپنے باپ دادا کی طرح آلو چھیلتا اور اسی کو لیلتا رہتا۔ اس ایک لفظ ’لیلتا‘ میں بھی طنز کی بھرپور کاٹ ہے۔ نظم میں؛ اس کے باوجود کہ مضمون نیا نہیں، ایک اثرانگیزی اور روانی موجود ہے۔ خیال نے خارج کی کائنات کو اپنی فکری اور تخلیقی کائنات سے پوری طرح ہم آہنگ کرلیا ہے۔ اس نظم میں جو ناراضگی اور برافروختگی کا تموج ہے وہ ایک پُرامن اور پُرخلوص احتجاج کی لَے کو موسیقیت عطا کرتی ہے۔
دنیا کے سارے فنکار اپنے اپنے عہد کی بے ضمیری، ضلالت، ناہموار حالات اور معاشرے کی بے سمتی اور انسانی اضطراب کو نشان زد کرتے رہے ہیں۔ خیال نے بھی یہ کام کیا ہے۔ انھوں نے ’شعلوں کا شجر‘ میں اپنی نظم ’مستقبل‘ میں نامساعد حالات کے چند عوامل کا ذکر کیا ہے۔ یہ حصہ دیکھیے:
میں اپنی ہی گود میں اپنے سر کو رکّھے/ فکر کے صحرا میں بکھرا ہوں/ مستقبل کو دیکھ رہا ہوں
رنج و ملامت، جنگ و عداوت/ بھوک اور نفرت، خوف اور وحشت/
بوجھ اٹھائے ان سب کا میں/ ہانپ رہا ہوں، کانپ رہا ہوں (ص:۱۱۰)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی حالات کے بطن سے جو کرب آمیز نقش بنا ہے، وہ خیال کے باطن پر ضرب کاری لگا رہا ہے۔ ان کی سوچ اور طرزِ اظہار میں جو برہمی اور شعلگی ہے، وہ داخلی دنیا کے اضطراب کو واضح کرتی ہے۔ نجی محسوسات اور معاشرے کی ناہمواریوں کو انھوں نے جس انفراد کے ساتھ پیش کیا ہے، وہ ان کی فنی پختگی پر دال ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ لکھتے ہیں:
’’خیال کے موضوعات و مضامین کا مخرج تو اس کا نظام، اس کا معاشرہ ہی ہے مگر برتاؤ اور ادا کرنے کا عمل سرتا سر اُس کا اپنا ہے۔ خیال ہر جگہ ایک فرد کی حیثیت ہی سے ابھرتا ہے۔‘‘ 1؎
’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ میں ’جنگ‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس میں خیال نے جنگ کے منفی اثرات اور دوسرے خدشات کو موضوع بنایا ہے۔ کہیں طنز ہے تو کہیں آگہی کا دل دوز منظرنامہ۔ یہ حصہ ملاحظہ کیجیے اور خیال کی پیش گوئی پر غور فرمائیے:
جنگ دھرتی پہ ستاروں کے لیے جاری ہے/ حیف صد حیف کہ ہر شے پہ جنوں طاری ہے
کیا ہمیں اپنے مکانوں میں نہ رہنے دے گی/ بستیاں دور خلاؤں میں بسانے کی لگن
جنگ در جنگ سلگتے ہیں صداؤں کے بدن/ سبز راتوں کے سیہ خون سے تر ہے دامن
آسماں آگ نگلنے پہ ہے مجبور تو پھر/ ہر دشا برف کی مانند پگھل جائے گی
پہلے مصرعے ’’جنگ دھرتی پہ ستاروں کے لیے جاری ہے‘‘ میں طنز اور Irony موجود ہے۔ آخر کے دو مصرعے پڑھ کر آج کل کے Global Warming کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔
گلیشئر کے پگھلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ عالمی حدّت پر آج تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس کا احساس 14,15 سال قبل خیال کو ہوا تھا۔ آگے کے دو مصرعے بھی سنیے:
زندگی ہاتھ سے دنیا کے نکل جائے گی/ ساری تعمیر تباہی میں بدل جائے گی
خیال کی نظموں میں بار بار ناگ، سانپ، اجگر آتے ہیں جو ہمارے معاشرے کی ذلالتوں، بیہودگیوں اور کبھی کبھی جنسی خواہشات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس میں سیاسی بدمعاشیاں بھی سمٹ آئی ہیں۔ اسی طرح نشاچر، راکشس، وِش دھر، پشاچ جیسے اساطیری الفاظ کے استعمال سے انھوں نے ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات اور انسان کی ذہنی کیفیات اور ماحول کی زہرناکیوں کو پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر مولا بخش نے چندربھان خیال کی نظم ’ہاں! وے مسلمان تھے اور اکرام خاور کی نظم ’ہاں میں مسلمان ہوں‘ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’’یہاں چندر بھان خیال اور اکرام خاور نے لفظیات کی سطح پر سنسکرت آمیز ہندی کا استعمال دراصل ماضی کے تاریخی عوامل کو معروضی حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کیا ہے۔ یہ صرف الفاظ ہی نہیں ثقافتی مدلول بھی ہیں۔‘‘ 2؎
شاعر جب فرد سے اوپر اٹھ کر عمرانی اور انسانی سیاق میں سوچنے لگتا ہے تو باہر کی گھٹن اور تیرگی شاعر کے باطن میں اتر آتی ہے۔ خیال کے باطن میں بھی گھٹن اور تاریکی ہے جسے وہ اپنے تخلیقی شعور سے کھُلی فضا میں لانے اور اُسے فکری شعاعوں سے روشنی عطا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس عمل میں شاعر کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔ خیال کی فکری اساس مستحکم ہے، جس کے سبب وہ ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ آج جس عہد میں ہم آپ جی رہے ہیں وہاں اندھیرا پھیلانے والے بہت ہیں، لیکن روشنی کے لیے کوئی مٹی کا دیا بھی نہیں۔ قدروں کی شکست و ریخت کے تماشے صبح سے شام تک ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، خواہ وہ آس پاس ہوں یا ٹی۔ وی اسکرین پر۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے:
’’اردو پر فی زمانہ جو پیغمبری وقت پڑا ہے اور اقدار شکنی اور نفسانفسی کا جو دور دورہ ہے ایسے میں اگر کچھ دیے بھی جلتے رہیں تو راہ کا اندھیرا اگر کم نہ ہوگا تو کم ازکم بڑھے گا تو نہیں۔‘‘ 3؎
آج ہندوستانی پس منظر میں نفرت اور آپسی میل جول کے بجائے دشمنی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیبی وراثتوں کو بھلا چکے ہیں۔ اُن کی اَن دیکھی کررہے ہیں۔ اردو کے ہندو شعرا نے مسلم تہذیبی وراثتوں کو اپنی تخلیقات میں محفوظ کرکے نئے زمانوں کے لیے روشنی کا سامان بہم پہنچایا۔ خیال نے بھی اس طرف توجہ کی۔ انھوں نے مسلمان اور اس کی تاریخی و تہذیبی حیثیتوں کو Defend کرنے کی کوشش کی۔ ان کی نظم ’ہاں! وے مسلمان ہیں‘ (گم شدہ آدمی کا انتظار، ص: 111) بہت مشہور ہوئی تھی۔ ہندی کے شاعر دیوی پرشاد مشر کی نظم ’مسلمان‘ کے ردعمل میں یہ نظم کہی گئی تھی۔ انھوں نے مسلمان کی آمد اور اس کی قربانیوں کا ذکر کرکے اہل ہند کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان بھی یہیں کے ہیں۔ اس کی توجیہات میں تاریخی شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ میں سر دست اس نظم پر بات نہیں کروں گا بلکہ ایک دوسری نظم ’ذرا سنبھل کر زبان کھولو‘ کے حوالے سے گفتگو کروں گا۔ یہ نظم بھی کسی مسلم مخالف بیان کے ردعمل میں وجود میں آئی تھی جیسا کہ نظم کے آخر میں دیے گئے نوٹ سے ظاہر ہے۔
اس نظم میں خیال نے میر و غالب اور نظیر کے نغموں کی باتیں کی ہیں۔ کیپٹن عبدالحمید سے لے کر ٹیپو سلطان، اکبر، خواجہ سلیم چشتی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کی مثال پیش کی ہے۔ محبتوں اور شرافتوں کی جگہ عداوتوں اور نفرتوں کو بڑھاوا دینے والوں کو انیکتا میں ایکتا کا درس دیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ادب معاشرے کو سدھارنے کا کام نہیں کرتا، انھیں خیال کی اس نظم کے پیغام کو سمجھنا چاہیے۔ شاعری کے ساتھ اگر کوئی پیغام اور درس حیات کا کوئی نسخہ بھی اگر ذہنوں تک منتقل ہوجائے تو اس میں شعر و ادب کا کوئی بڑا خسارہ نہیں ہوجائے گا۔ اس نظم کے کچھ حصے دیکھیے:
وطن پرستی کی بات کرنے سے قبل سونگھو/ وطن کی مٹی
کہ جس میں شامل ہے اس مسلماں کے خوں کی خوشبو
کبھی وہ رس کھان بن کے گونجا ہے برج کے بن میں/ کبھی وہ عبدالحمید بن کر
کھڑا ہے سرحد پہ سینہ تانے/ کبھی وہ ٹیپو/ کبھی وہ اکبر/ کبھی وہ خواجہ سلیم چشتی
تمھاری بھاشا، تمھارا لہجہ، تمھارا انداز فکر اور فن/ نہ آب گنگ و جمن سے ملتا
نہ ست پڑا کی گپھاؤں جیسا/ نہ بدّھ کی انجمن سے ملتا/ نہ دراوڑوں کے کلام جیسا/
نہ کرشن جیسا نہ رام جیسا/ محبتوں کی، شرافتوں کی، تمدنوں کی
وراثتوں کو ہلاک کرنے کی ٹھان لی ہے/ وطن کا پیغام ہے محبت
عداوتوں کو فروغ دینے سے کچھ نہ ہوگا
یہاں پہ یکسانیت کا مطلب انیکتا ہے
(گمشدہ آدمی کا انتظار، ص: 110)
ہندستانی تہذیبی اور تمدنی وراثتوں کی پاسداری خیال کی شاعری میں بھری پڑی ہے۔ ان کا فطری ذہنی میلان بھی ہندستان کی یکجہتی سے ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تازہ ترین مجموعہ کلام ’صبح مشرق کی اذاں‘ میں لکھا ہے:
’’اگر ہمارے سیاسی و سماجی منظرناموں کے شوق مشاہدہ کی تکمیل، انسانی اقدار کے تحفظ اور تہذیبی و ثقافتی روایات کو رواں رکھنے کی جدوجہد میں شعر و ادب کا بھی کوئی حصہ ہے تو ان تخلیقات کو کوڑے دان میں نہ پھینکنے کا میرا فیصلہ صحیح ہے۔‘‘ 4؎
خیال نے اپنی شاعری میں امن و آشتی کا پیغام دیا ہے۔ ان کی نظر میں ایک ایسے معاشرے کا تصور ہے جہاں سارے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت مل جل کر رہ سکیں۔ وہ دسہرہ، عید، محرم، رام اور پھر رسول مکرمؐ پر نظمیں کہی ہیں۔ ہندستان پاکستان کے مابین ادبی اور ثقافتی رشتوں کے استحکام پر نظم کہی ہے۔ خواجہ اجمیری کی بارگاہ میں نظم ہے، نندی گرام پر ہے، سُنامی پر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے چین روح ہے جو پُرسکون ماحول اور مسرت کی ساعتوں کی متلاشی ہے۔ خیال کی تخلیقی آنچ میں معاشرے کی آلائشیں جیسے خاک ہوگئی ہیں۔
خیال کے مربوط تخلیقی نشانات میں رسول پاکؐ کی سیرت کو موضوع بنانا بحث کا موضوع رہا ہے۔ جون 2002 میں سیرت پاک ’لولاک‘ کی شکل میں منظرعام پر آئی۔ ایسا لگا جیسے خیال معاشرے کی جن آلائشوں کو دھوکر صاف کرنا چاہتے تھے، اب وہ صاف ہوگئی ہیں اور اب ایک ایسی فضا بن گئی ہے جس میں ’لولاک‘ کی صورت میں رسول مکرم کی سیرت پیش کی جاسکتی ہے۔
خیال نے پہلے تو شعلے کا شجر لگایا اور اسی کے سائے میں مجاہدے کے طور پر کسی گمشدہ آدمی کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ جب وہ آدمی مل گیا تو ’لولاک‘ منظرعام پر آئی۔ ظاہر ہے تیرگی میں اب ’لولاک‘ آگئی تو صبح مشرق کی اذاں لازم ہوگئی۔ خیال کی تپسّیا اور تخلیقی جوگ ختم ہوگیا۔ خورشید عالم تاب طلوع ہوچکا ہے۔ اذاں ہوچکی ہے اب ذہنوں میں جو ضلالت اور گمراہی کے جالے تھے، ختم ہوجائیں گے۔ خیال کی فکری جہات کی یہ تقلیب دانستہ یا غیردانستہ طور پر ہوتی رہی ہے۔
’لولاک‘ میں جو شعری حسن ہے، اس نے موضوع کی چمک کو مزید تابندہ تر کردیا ہے۔ حضور پاکؐ کی ولادت با سعادت کا ذکر جس خلوص اور شعری حسن کے ساتھ انھوں نے کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیال کی عقیدت کس درجہ فزوں اور بے ریا ہے۔ پہلے تو اس نظم کی ہیئت کچھ ہوتی ہے، بعد میں چل کر بدل جاتی ہے، البتہ وزن نہیں بدلتا:
سمت سمت نورانی……
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی
علم کا، شجاعت کا، سوچ کا، سخاوت کا
پھر عَلم اٹھا اوپر جہل سے بغاوت کا
——————— اور آدمیت کی
ہوگئی جبیں روشن مٹ گئی پشیمانی
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی
صبح کی اداؤں میں، شام کی ہواؤں میں
گھُل گئی مہک میٹھی رات کی قباؤں میں
——————— اور پہاڑ کا دامن
جیسے ہو فرشتوں کی پُرسکون پیشانی
جس طرف نظر جائے……… (ص: 40)
اس کے بعد نبوت کا اور معراج کا ذکر ہے۔ چار مصرعے ملاحظہ کیجیے:
جبریل ٹھٹھک کر ٹھہر گئے اور آپ ادب سے آگے بڑھے
اٹّھا جو حجاب تو قربت کا ضوبار تلاطم چاروں طرف
الطاف و کرم کی بارش اور اللہ کا در سبحان اللہ
اک فرش نشیں کی عرش تلک معراجِ سفر سبحان اللہ
(ص:94)
موضوع اور اسلوب کی ہم آہنگی ہو تو شاعری میں اثرآفرینی اور غنائیت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لولاک میں خیال نے کامیاب تخلیقی تجربہ کیا ہے۔ لولاک کی شاعری کو دینی جمالیات کا مظہر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ملک عرب کی جہالت، تاریکی اور قبیلوں میں بٹے ہوئے معاشرے، حرام کاریوں اور بُرے رسوم و قیود اور اوہام پرستی میں جکڑے ہوئے انسانوں کا نقشہ بھی پیش کیا ہے اور اُسی تاریکی میں انوار رحمت کے ورود مسعود کا ذکر بھی کیا ہے۔ انھوں نے مجردات کی بھی تجسیم (Personification) کی ہے:
ایک ایک پتھر اور ہر شجر تھا سجدے میں/ بے خبر تھا سجدے میں باخبر تھا سجدے میں
شاخ شاخ پر مہکے گل کا سر تھا سجدے میں
عمرہ کے ارادے سے نکلا جب شمس شجاعت یثرب سے
صحرا کی رگوں میں دور تلک ایماں کی حرارت دوڑ گئی
بے کیف درختوں کی شاخیں احساس طرب سے جھوم اٹھیں
خیال نے ’لولاک‘ میں اسلامی افکار کے نچوڑ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام جو مساوات اور امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام جو عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ اسلام جو امارت کو معیار انسانیت اور علوئیت کے بجائے تقویٰ اور پرہیزگاری کو معیار سمجھتا ہے، اسلام جو غلاموں اور اپنے ماتحتوں پر جبر کرنے سے روکتا ہے، خیال نے اسی اسلامی شعار کو اور مکارم اخلاق کو رواں اسلوب میں منظوم کیا ہے:
جسے تقویٰ کی دولت مل گئی وہ برتر و اعلا
وگرنہ سب برابر ہیں جہان شاہ و بے کس میں
سبھی اولاد آدم ہیں، سبھی کا حق بھی یکساں ہے
کسی بھائی سے اس کا مال جبراً چھین مت لینا
کشادہ دامن دل، صاف اور ستھری نظر رکھنا
غلاموں یعنی اپنے خادموں سے پیار کرنا تم
ہمیشہ بھائی جیسے اُنس کا اظہار کرنا تم
وہی پہناؤ ان کو بھی جسے تم لوگ خود پہنو
وہی کھانا انھیں دینا جسے تم لوگ خود کھاؤ
یہ تھا رسولِ مکرّم کا نظریۂ حیات اور اخلاقیات کی اعلا قدریں، جن کی طرف خیال نے اپنے اس نظم کے کچھ حصوں میں اشارے کیے۔ اس نوع کی شاعری کرنے والوں میں حفیظ جالندھری کے بعد نئی نسل میں حافظ عبدالمنان طرزی(سیرت رسول)، حضرت ابرار کرت پوری (غزوات)، عنبر بہرائچی (لم یات نظیرک فی نظرٍ) اور جناب چندربھان خیال کے اسماء گرامی اہمیت کے حامل ہیں۔
خیال نے ’لولاک‘ میں یہ اہتمام کیا ہے کہ رسول پاک یا دوسرے کرداروں کی پیش کش میں پس منظر تقریباً وہی رکھا ہے جس سے ان کا تعلق رہا ہے۔ حالاں کہ ہندستان کے شاعر کے لیے عرب کی تاریخی اور جغرافیائی ماحول اور سماجی حالات کو قائم رکھنا ایک مشکل امر ہے۔ ہیئت اور تکنیک کے لحاظ سے انھوں نے یہ التزام کیا ہے کہ جو حصہ شروع ہوتا وہ دو ہم قافیہ اور ہم ردیف مصرعوں سے ہوتا ہے اس کے بعد غیرمقفیٰ مصرع آتا ہے اور بعد ازاں تین مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ان تین ہم قافیہ اور ہم ردیف مصرعوں کا ایک مصرعہ اوپر کے بند کے ساتھ اور دوسرے دو مصرعے نیچے کے دوسرے بند کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہی غیرمقفیٰ مصرع اور پھر تین ہم قافیہ ہم ردیف مصرعے آتے ہیں۔ اس طرح:
حرا کے غار سے اٹھ کر سمندر پار میں گونجی
صدا توحید کی سارے عرب سنسار میں گونجی
مسلسل آزمائش اور اذیت ناک لمحے بھی
کبھی ثابت قدم راہی کو پسپا کر نہیں پائے
ہزاروں حادثوںاور سازشوں کے بدگماں سائے
حق انصاف اور روئے وفا پر روز منڈلائے
سحر تا شام خونریزی، مسا تا صبح شب خونی
(ص:112)
اس خوبی کی داد دیتے ہوئے مخمور سعیدی نے لکھا ہے:
’’موقع و محل کی مناسبت سے خیال نے نظم کے مختلف حصوں میں مختلف بحروں کا استعمال کیا ہے لیکن ہر حصے کے تمام بند بظاہر الگ الگ ہیں، معنوی طور پر باہم اس طرح گُتھے ہوئے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ 5؎
اس خوبی کی خرابی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم قافیہ مصرعوں کو ایک ساتھ رکھ کر پڑھنا چاہے تو ممکن ہے کہ معنوی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ ہوجائے۔ پہلا مصرع ممکن ہے اوپر کے ایک مصرعے سے پیوست ہو یا یہ کہ تین ہم قافیہ مصرعوں کے تار آئندہ کے ایک یا دو مصرعوں سے ہو۔ یہ خرابی ایسی ہے جس سے نظم کا اندرونی ربط مستحکم اور گتھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ربط اور تسلسل کے مزاج کو؛ جو نظم کے لیے اور طویل نظم کے لیے بالخصوص، اہمیت کڑھتا ہے، خیال نے عملی طور پر کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ اس تکنیک کا استعمال انھوں نے ’شعلوں کا شجر‘ ہی سے شروع کردیا تھا:
دور بجتا رہا اک شہر خموشی میں ستار
رقص کرتا رہا شعلوں پہ دھوئیں کا مینار
اور اک شخص سراسیمہ و بادیدۂ غم
منجمد آنچ کو سینے پہ دھرے بیٹھا رہا
غیر تو غیر وہ اپنوں سے پرے بیٹھا رہا
اپنی جیبوں میں طلسمات بھرے بیٹھا رہا
لیکن آسیب زدہ رات کے سناٹے میں
لوگ اپنے در و دیوار میں روپوش رہے
(اور وہ آج بھی: شعلوں کا شجر، ص: 80)
چندربھان خیال کی نظمیہ شاعری میں جو ایک جدید لب و لہجہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، وہ شروع سے اب تک اس لیے باقی ہے کہ انھوں نے دوسروں سے اثر قبول نہیں کیا۔ شاید اس میں نجی اسلوب کے بکھرنے یا مکدّر ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔ انھوں نے ذات اور کائنات کی ہم آہنگی سے انسانی زندگی کے اصل روپ کو پہچاننے اور انھیں Point کرنے کی کوشش کی ہے۔ گرد و پیش کے ماحول کو اور انسانی اقدار کی بے حرمتی کو اپنی طرح، اپنے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ کمار پاشی نے لکھاہے:
’’اپنے گرد و پیش پھیلی ہوئی بے منظری پر اداس، نیوٹرون کے داخلے سے ہراساں اور انسانی قدروں اور عقیدوں کی پامالی پر ایک دبے دبے احتجاج کے ساتھ اس عزم کا متلاشی ہے جس کے سہارے وہ اپنی اور معاشرے کو جی سکے۔‘‘ 6؎
چندربھان خیال کی نظمیہ شاعری کا کینوس شاید ابھی اور بھی وسیع ہونا ہے، سو انھیںداد سخن دیتے ہوئے ان کے اس شعر پر اپنی اکھڑی اکھڑی رائے کا اختتام کرتا ہوں:
اک جست میں تمام ہوئیں ساری وسعتیں
لا اب نئی زمین، نیا آسماں مجھے
9818718524

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا