غلام قادر بیدار
سرینگر// وادی گلپوش اگرچہ اپنے حسن وجمال سے دنیا بھر میں صدیوں پہلے سے مشہور ہے تاہم اس خطے میں بودباش رکھنے والے ہزاروں ھنرمند اشخاص کے بدولت بھی کشمیرستان کی قدر وقامت اور مشہوری میں روز اضافہ ہوتا رہتاہے۔یوں تو زندگی کے ہرشعبے میں اعلی کارکردگی کا لوہا منوانے میں نام کمانے والوں کی کوئی کمی نہیں تاھم محض اپنے مخصوص کسب وھنر، کاریگری یا فن پارے کے سبب ریکارڈ حد تک کسی خاص چیزکی بناوٹ یا سجاوٹ کے ضمن میں اپنی شناخت نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی صورت میں علاقائی ویقار کو بلند مقام دیلوانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اسے پورے خطے کی رونق اور شادمانی تصور کی جاتی ہے۔ تفصیل کے مطابق ضلع بڈگام کے نوھاڈ چرارشریف سے تعلق رکھنے والے62 سالہ شخص علی محمد میرنے ہر قسم کی چائے بنانے میں40 سال قبل تربیت مکمل کرکے 1978 سے یہ زمہ داری باقاعدہ طور نبھانے کے شروعات کیے ہے۔ اس دوران نہ صرف بڈگام سرینگر یا بارھمولہ اضلاع میں اپنے فن مہارت میں نام کمایا ہے بلکہ وادی سے باہر بھی جموں کے گاندھی نگر سدرہ بخشی نگر منڈی کھٹی تلاب۔ گوجر نگر،پونچھ راجوری، گول گلاب گڑھ رامبن اور دوسرے مقامات پر رہائش پذیر کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کے گھروں میں منعقد اکثر شادی بیاہ کے موقوں پر کشمیری قہوے اور چائے بنوانے میں بڑا نام کمایا ھے۔ علی محمد میر کے بقول انہوں نے راج گھاٹ، کشمیر ھاوس، لاپتہ نگر آزاد پور، نئی دھلی، پنجاب، اجمیر شریف، راجھستان اور دوسرے کہی شہروں میں درجنوں تقریبات میں حصہ لیکر مدعو شامیں کوکشمیری نون چائے پلائی تو انکے ہوش بیدار ہویئے جسکے بدولت موصوف کو شاباشی ملی ہے۔بتایا جاتا ھے کہ چندہ ماہ قبل منڈی دھلی میں منعقد ایک ادبی تقریب کے لئے انھیں کشمیری کیسر والا قہوہ اور بعد میں نون چائے پیش کرنے کا موقع ملا تو اس وجہ سے کاریگری کے سبب نہ صرف علاقے کو بلکہ خطے کی عزت دوبالا ہوئی۔ واضح رھیے کہ 63 سالہ علی محمد میر محض کشمیری چائے بنوانے کے سبب وادی بھر میں چائے بابو، کے نام سے جانا جاتا ہے۔