پی ڈی پی بی جے پی کی مخلوط سرکار کا ٹوٹ جانا کشمیریوں کی مزاحمت کی جیت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ہاتھ ملا کر دلی کو بتائیں کہ کشمیری بے وقعت نہیں ہیں/انجینئر رشید

0
0

سی این آئی
سرینگرعوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے نئی دلی کے ساتھ ایک خاموش سمجھوتے کے تحت ہر وقت اسکے ساتھ ہتھیار ڈالدئے ہیں اور اسے کشمیریوں کے جذبات و احساسات اور خواہشات کو روندھ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دی ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیاں 1996سے آج تک سیاسی یا انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بھی اپنا کارنامہ پیش کرکے دکھائیں۔سی این آئی کے مطابق سرینگر کے مقامی ہوٹل میں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انجینئر رشیدنے کہاکہ اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مخلوط سرکار کا ٹوٹ جانا کشمیریوں کی مزاحمت کی جیت ہے تاہم جس طرح بی جے پی نے ہر کسی،باالخصوص پی ڈی پی،کو حیران کرتے ہوئے سرکار سے اپنی حمایت واپس لی وہ ریاست کی ان علاقائی جماعتوں کیلئے زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں ہے کہ جو ریاست کے خصوصی پوزیشن اور دیگر مفادات کیلئے لڑتے رہنے کی جھوٹی دعویداری سے لوگوں کو بیوقوف بناتی آرہی تھیں۔انجینئر رشید نے کہا”نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں ہی بی جے پی کے محبوبہ مفتی کی سرکار سے حمایت واپس لینے کے نفسیاتی پہلو کو سمجھنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔حالانکہ یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ جموں کشمیر میں کسی کی بھی سرکار ہو نئی دلی کیلئے اسکی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے آرہے بیانات،دفعہ370اور35Aکی تنسیخ کی باتوں، طاقت کے بل پر کشمیریوں کو ڈرائے جانے کی کوششوں اور اس طرح کی چیزوں سے کشمیر کے مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں بلکہ الیکشن سیاست سے دور کے حلقوں کو بھی جاگ جانا چاہیئے اور نئی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اقدامات کرنا چاہیئں۔عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے مزید کہا کہ جو کچھ بی جے پی نے ابھی کیا ہے اگر ایسا کچھ بھی جموں کشمیر سے باہر کسی ریاست میں ہوا ہوتا تو بھاجپا کی اس اخلاقی بد دیانتی نے وہاں کی سبھی طاقتوں کو ایک کردیا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیئے کہ اگر کانگریس نے کرناٹکا میں حیران کن اور عجیب و غریب اقدامات کرکے سرکار بنائی تو پھر جموں کشمیر میں اس طرح کے کسی امکان کو رد کرنے کا انکے پاس کیا جواز ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کی جانب سے جموں کشمیر میں سرکار بنانے کی کسی بھی کوشش کو یکسر مسترد کردئے جانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جمہوریت اور جموں کشمیر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔انجینئر رشید نے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ کی نیت اور خلوص پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ ریاست کی حکومت کس کے پاس رہتی ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح محبوبہ مفتی کو نئی دلی نے باہر کا دروازہ دکھایا ہے اس سے جموں کشمیر کی پوری مین اسٹریم کی سیاست بے وقعتی اور بے اعتباری بے نقاب ہو چکی ہے۔انجینئر رشید نے کہا”جو خواب محبوبہ مفتی 2014میں دیکھتی تھیں اب عمر عبداللہ بھی وہی خواب دیکھنے لگے ہیں کیونکہ ان دونوں کو ہی کسی جدوجہد کے بل پر نہیں بلکہ جموں کشمیر کے مخصوص حالات کی وجہ سے باری باری حکومت ملتی رہی ہے۔ان برسوں کے دوران اگر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے کوئی چیز حاصل کی ہے تو وہ فقط مزید اور نئے نئے ابہام کی تخلیق ہے جو انہوں نے اٹانومی اور سیلف رول کی کہانیاں بناکر پیدا کیا ہے۔دراصل دونوں ہی پارٹیاں نئی دلی کے کشمیریوں پر مظالم اور زیادتیوں کی پردہ پوشی ہی نہیں کرتی آئی ہیں بلکہ انہوں نے اس ظلم کو جواز بخشنے کی بھی کوششیں کی ہیں۔جب تک عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ریاستی عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے کام نہیں کرتے تب تک یہ بات بے معنیٰ ہوگی کہ ان میں سے کب کون اور کیسے ریاست کے مسنند اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے۔کشمیری عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ برسوں تک حکومت کرتے رہنے کے باوجود ان دونوں پارٹیوں کیلئے کم از کم نئی دلی کو، افسپا اور پی ایس اے جیسے کالے قوانین کی تنسیخ،بجلی پروجیکٹوں کی واپسی،انسانی حقوق کی پامالی کے مجرمین کو سزا دلانے یا خود آئین ہند کے اندر کوئی قرارداد منظور کرنے کیلئے،آمادہ کرنا کیونکر ممکن نہیں ہو سکا ہے“۔انہوں نے یہ بات دہراتے ہوئے کہی کہ یا تو ریاست کی مین اسٹریم کی جماعتوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہونگی یا پھر انہیں ریاست کو درپیش تمام مصائب کی جڑ سمجھا جائے گا۔انجینئر رشید نے مزید کہا”یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا