’’نسرین!تم پاپ کورن (popcorn)تو بہت اچھے بناتی ہولیکن یہ اتنے سارے پاپ کورن کے پتھر کیوںبنا دیتی ہو؟‘‘دادی نے سخت اور مضبوط پاپ کورن کے ایک دانے کو ہاتھ میں لے کر مزاحیہ انداز میں کہا
’’کیا امّی!آپ بھی نا۔میں کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتی ہوں؟امّی یہ پتھر نہیں بلکہ مجھے تو لوہے کے دانے جیسے لگتے ہیں۔کم بخت چبائے نہیں چبتے۔‘‘نسرین نے ایک دانہ منہ میں رکھ کر چبانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
’’ارے تھوکو نسرین۔کیا دانت توڑنے ہیں؟‘‘دادی نے اپنی بہو نسرین کوپیار بھری ڈانٹ لگاتے ہوئے کہا
’’امّی !جب آپ پاپ کورن پکاتی تھیں تو کیا وہ سارے ہی پھول کی طرح کھل جاتے تھے؟‘‘نسرین نے کچھ پاپ کورن منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا
’’نہیں بھئی۔کبھی کم کبھی زیادہ۔یہ پتھر تو ہمیشہ پاپ کورن ختم ہونے کے بعد برتن میں منہ چڑھاتے ہی رہتے تھے۔مجھے لگتا تھا کہ شاید مجھے پکانا نہیں آتا۔‘‘دادی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا
’’میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ شاید میں صحیح طریقے سے نہیں پکاتی ہوں۔‘‘نسرین نے مسکراتے ہوئے کہا
’’نسرین !اِن پتھروں کو بنانے کے لیے کوئی تو ذمّہ دار ہوگا؟ہم دونوں نہیں تو پھر کون؟‘‘دادی نے اپنے ڈرامائی انداز میں کہا اور دونوں ہی ہنسنے لگیں۔تبھی پیچھے سے کاشف کی آواز آئی
’’اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں بتا سکتا ہوں کہ آپ کے پسندیدہ پاپ کورن کے سبھی پھول کیوں نہیں کھلتے۔‘‘کاشف نے دادی کے سامنے رکھے پیالہ سے ایک مٹھی پاپ کورن لیتے ہوئے کہا
’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔مگرپہلے مجھے یہ جاننا ہے کہ یہ پھول کھلتے کیسے ہیں؟‘‘دادی نے کاشف کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا
کاشف بارہویں جماعت میں پڑھتا ہے ۔اُسے طبیعیات میں خاص دلچسپی ہے۔آج اُسے پھر اپنی قابلیت دکھانے کا موقع مل رہا تھا۔اُسے دادی اور امّی کے سوالوں کو حل کرنے میں بہت مزا آتا تھا۔کاشف نے سخت اور گانٹھ بنے پاپ کورن کے دانے کوہاتھ میں لے کر کہا
’’دادی!یہ جو آپ کے پاپ کورن کا اوپری خول ہے۔یہی پھول نہ کھلنے دینے کے لیے ذمّہ دار ہے۔پاپ کورن بیج (popcorn kernels)کا خول جسے (pericarp(hull)) کہتے ہیں۔بے چارہ اپنے اندر ہو رہی تبدیلی کو سنبھال نہیں پایا۔‘‘کاشف نے غمگین آواز میں کہا تودادی نے درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہا
’’کاشف زیادہ ڈرامہ نہیں!یہ بتاؤ کہ اِس سوکھے سے مضبوط خول کے اندر آخر ہوتا کیا ہے؟‘‘کاشف نے کہا
’’پاپ کورن کیرنل کے اندر پانی اور تخم(endosperm)ہوتا ہے۔جب آپ اِس بیج کو برتن میں ڈال کر گرم کرتی ہیں تو اِس خول کے اندر موجود پانی بھاپ بننا شروع ہو جاتاہے۔اور یہ مضبوط اوپری پرت بھاپ کو باہر نہیں نکلنے دیتی۔اندر موجودتخم میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔یہ مضبوط دیوارآخر کتنی دیر تک اِس دباؤ کوجھیل سکتی ہے۔پھر ایک چھوٹے سے دھماکے کے ساتھ پاپ کورن کرنل ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اندر موجود ذائقہ دار نشاستہ(starch)دیوار توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔یہ مادہ(gel)خول سے باہر نکلتے ہی خوبصورت پھول جیسی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ‘‘کاشف نے خوب ڈرامائی انداز میں بتایا تو دادی اور امّی کو بھی ہنسی آگئی۔امّی نے کہا
’’اچھا اچھا کلاکار! یہ بتاؤ کہ پھر یہ لوہے کے پاپ کورن کیسے بن جاتے ہیں؟‘‘کاشف کی امّی نے سنجیدہ ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا
’’امّی!ابھی تو بتایا تھا کہ اِس کے لیے بھی یہی خول ذمّہ دار ہوتا ہے۔ اگر یہ مضبوط نہ ہو تو خول کے اندر موجود پانی بھاپ بن کردھیرے دھیرے باہر نکل جاتا ہے۔جب اندر دباؤ بن ہی نہیں پایا،کوئی تبدیلی ہوئی نہیںتو پھول کیسے کھلے گا؟وہ تو گیس پر جل رہی آگ سے سوکھتا جاتا ہے اور پھر بقول آپ کے پتھر بن جاتا ہے۔‘‘کاشف کی دادی نے سر ہلاتے ہوئے کہا
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ۔‘‘ کاشف نے اپنی قابلیت دکھانے کے لیے کہا
’’یہ پورا عمل حرّی توانائی (thermal energy)کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔درجہ حرارت (temprature)،دباؤ(presure)اور طاقت (force)۔اور پھرپھٹ۔بن گئے آپ کے لذیذ پاپ کورن۔‘‘کاشف نے کھڑے ہوکر سمجھاتے ہوئے بتایا
’’سمجھ گئے بھئی سمجھ گئے۔ یہ طبیعیات (physics)کی معلومات کا خزانہ ہماری سمجھ سے باہر کی بات ہے۔ہاں!پاپ کورن کے پھول کیسے کھلتے ہیں یہ بہت اچھی طرح سمجھ آگیا۔اب ہم اچھے والے کورن لاکر اُن سے پاپ کارن بنائیں گے ۔تازے سویٹ کورن سے پاپ کورن بنائیں تو کیسا رہے گا امّی؟‘‘کاشف کی امّی نے کہا
’’سویٹ کارن کے بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں۔جاؤ کاشف مارکیٹ سے سویٹ کارن لاؤ۔آج اسی سے لذیذ پاپ کورن بنائیں گے۔‘‘دادی نے کاشف کو حکم دیا تو کاشف ہنسنے لگا
’’دادی !ہر مکئی کے دانے سے آپ کی پسند کے پاپ کورن نہیں بن سکتے۔‘‘دادی نے حیران ہو کر مکئی کے دانے کو ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے پوچھا
’’ یہ مکئی کے دانے ہی ہیں نا؟کیا مکئی کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں؟‘‘کاشف نے کہا
’’جی دادی ۔جیسے فیلڈ کورن(field corn)،سویٹ کورن(sweet corn)اور پاپ کورن(popcorn)۔صرف پاپ کورن ہی پاپ((pop)پھٹ کی آواز)کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‘‘امّی نے برا سا منہ بنا کر کہا
’’کتنا اچھا ہوتا اگر سویٹ کورن کے بھی ایسے ہی مزے لے پاتے۔‘‘دادی نے کہا
’’یہ تم نے صحیح کہا۔لیکن کاشف نے ابھی بتایا تو، کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے‘‘دونوں کو پریشان دیکھ کر کاشف نے موضوع بدلتے ہوئے کہا
’’امّی کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاپ کورن ایک مکمل غذا ہے؟‘‘اب حیران ہونے کی باری دادی کی تھی
’’شرارتی !ہمیں بہلا رہا ہے!‘‘کاشف نے کہا
’’نہیں دادی!اِن پھولوں میں وافر مقدار میںحیاتین(vitamins)،معدنیات(minerals)اور غذائی ریشہ(dietary fiber) پائے جاتے ہیں۔اور شحم(fat)بھی کم ہوتا ہے۔ورنہ تو میری دادی پھول کر کُپّا ہو جاتیں۔‘‘کاشف نے دادی سے مزاحیہ انداز میں کہا
’’یہ بھی ٹھیک ہے۔ورنہ میں جتنے پاپ کورن کھاتی ہوں اُس سے تو ہاتھی بن جاتی۔‘‘دادی نے ہنستے ہوئے کہا
’’میری اسمارٹ دادی کو فرق پڑ ہی نہیں سکتا۔آپ کے پاپ کورن ہمیشہ مکھن اور نمک سے پاک ہوتے ہیں۔لیکن دادی !آپ امّی کو مکھن ، نمک اور دوسرے مسالے ،پاپ کورن میں شامل نہ کرنے کے احکامات صادر کر دیجئے۔وہ آپ کی بات ٹال نہیں پائیں گی۔آپ دیکھتی ہیں نا کہ وہ بہت سارا مکھن اور نمک ڈال کر پاپ کورن کھاتی ہیں۔‘‘دادی نے مسکرا کر کہا
’’کاشف بیٹا!یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے!اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ نقصان دہ ہے تو میں نسرین کو کیسے یہ سب کھانے دے سکتی ہوں؟‘‘ دادی نے کاشف کی امّی کو آواز دی۔دو کپ چائے کے ساتھ وہ باورچی خانہ سے باہر آئیں
’’جی امّی! باتوں کے درمیان چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی۔یہ لیجئے گرما گرم چائے۔‘‘کاشف کی امّی نے دادی کی طرف ایک کپ بڑھاتے ہوئے کہا
’’نسرین!آج سے تم پاپ کورن میں کوئی مسالے وغیرہ ملا کر نہیں کھاؤ گی۔ورنہ تمہارے پاپ کورن کھانا بند!مجھے ابھی کاشف نے بتایا ہے کہ سادے پاپ کورن صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔لیکن تیل مسالے ڈالنے کے بعد صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔مجھے اپنی پیاری سی نسرین کو موٹی اور بے ڈھنگی سی ،سوچ کر ہی کوفت ہو رہی ہے۔‘‘دادی نے سوچتے ہوئے کہا تو کاشف کی امّی نے بنا کوئی سوال کیے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’مجھے معلوم ہے کہ آپ کو میری فکر ہے۔لیکن آپ بھی جانتی ہیں کہ مجھے پاپ کورن کھانا کتنا پسند ہے؟اچھاامّی!کیا تھوڑا سانمک ڈال سکتی ہوں؟یا وہ بھی نہیں۔‘‘کاشف کی امّی کے سوال پر دادی نے کاشف کی جانب دیکھا
’’تھوڑا سا نمک چل جائے گا مگر ڈھیر سارا نہیں۔‘‘کاشف کے جواب پر دادی نے خوش ہوکر کہا
’’چلو نسرین !چٹکی بھر نمک ڈالنے کی تمہیں اجازت ہے۔‘‘دادی کے ڈرامائی انداز پر دونوں ہنسنے لگے۔کاشف کی امّی نے کہا
’’بہت بہت شکریہ امّی!‘‘اور کمرے میں ہنسی گونجنے لگی۔