پونچھ کے بالائی علاقوں میں مال مویشیوں کے لئے آبی ذخائرکی ضرورت

0
103

[

 

 

 

 

 

 

 

 

محمد الطاف ثاقِب
منڈی،پونچھ

جموں کشمیر کے تمام تر دیہی علاقاجات کی عوام جانوروں کو پال کر اپنی زندگی کا گزر بسر کرتی ہے ۔ یہاں روزگار کے دیگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ان جانوروں کا دودھ فروخت کر یا پھر ان جانوروں کو فروخت کرآمدنی کا ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ موسم سرما میں یہ دیہی علاقاجات کے لوگ میدانی علاقوں میں رہائش پزیر ہوتے ہیں ۔ وہیں موسم گرما شروع ہوتے ہی یہ لوگ پہاڑی علاقاجات کا رخ کرتے ہیںجہاں یہ لوگ عارضی طور پر رہائش پزیر ہوتے ہیں ۔ ان پہاڑی علاقاجات میں پانی کی قلت ہونے کی وجہ سے جہاں یہ لوگ خود دور دور تک پانی کی تلاش میں بھٹکتے ہیں ایسے میںان کے لئے اپنے جانوروں کے لئے پانی کا انتظام کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے ۔
ضلع پونچھ کے دوردراز علاقوں میں رہائش پزیر لوگوں کو بھی متعدد پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میںتحصیل منڈی کے علاقہ اڑائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے غلام محی الدین کہتے ہیںکہ موسم گرما میں جب ہم مال مویشیوں کو لیکر اپنی ڈھوک میں جاتے ہیں تو ہمیں وہاں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہیں ایک اور بزرگ عبدالباقی جو گزشتہ کئی سالوں سے مال مویشیوں کولیکر بالائی علاقہ بھاکسر جاتے ہیں ،کہتے ہیں کہ میں گزشتہ 50 سالوں سے مال مویشیوں کو چرانے کا کام کرتا ہوں اوراسی سے اپنی زندگی بسر کرتا ہوں ۔ ہمارے اس علاقہ میں پانی کی شدید قلت ہے ۔ جس کے لئے ہمیں دور تک کاسفر کرنا پڑتا ہے۔
وہیں تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں سنئی کا علاقہ مدان بھی پانی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہے ۔ گاؤں سنئی کا علاقہ میدان ایک پسماندہ اور سہولیات سے کٹی ہوئی جگہ ہے۔اس گائوں کی تین پنچایتیں ہیں اور ان تینوں پنچایتوں کے اوپری مقام کا نام شاہستار ہے۔ شاہستار پیر پنجال کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے ۔ اسکولی بچے و دیگر عوام سال بھر یہاں سیر و تفریح کے لیے رخ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں پر پنچایت لور سنئی ختم ہوتی ہے وہ جگہ مدان ہے۔ گاؤں سنئی کی عوام موسم سرما میں اس علاقہ مدان کا رخ کرتے ہیں جہاں پر لوگ چھ مہینوں کے لیے اپنے مال مویشیوں کو لے کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ مستقل یہیں پر رہتے ہیں۔ یہ جگہ شاہستار سے تقریباً پانچ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اپنی خوبصورتی کے چلتے مدان علاقہ بھی اپنا منفرد مقام رکھتا ہے ۔ جو بھی سیاح شاہستار سیر کرنے کے لیے آتے ہیں ان میں بعض مدان کا چکر بھی لگا لیتے ہیں۔شاہستار کو جیسے قدرت نے تازہ پانی سے نوازہ ہے ۔ وہ سہولت مدان میں دستیاب نہیں ہے۔مدان سیاحتی مقام تو ہے لیکن شاہستار کے برعکس بدقسمتی سے یہ اتنی توجہ کا مرکز نہیں ہے جس کا حقدار ہے۔
یہاں بسنے والے لوگوں کو اکثر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں پانی اور سڑک اہم مسائل ہیں۔پہلے بجلی بھی اہم مسئلہ ہوتا تھا لیکن پچھلے سال سوبھاگیہ اسکیم کے تحت یہاں بجلی پہنچ چکی ہے۔جس سے لوگوں کو اب رات تاریکی میں نہیں گزارنی پڑتی ہے۔ میدانی علاقہ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو صرف چھ مہینوں کے لیے یہاں آتے ہیں جبکہ کچھ لوگ مستقل بارہ مہینے یہیں رہتے ہیں۔ چونکہ یہ آبادی سو فیصد قبائلیوں کی ہے۔ جن کا گزر بسر مال مویشیوں پر ہوتا ہے۔ یہ اپنے اپنے مال مویشیوں کے گھاس کی خاطر یہاں آتے ہیں ۔ یہاں مویشیوں کے چرنے کے لئے گھاس وغیرہ وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی پریشانی پانی کی ہے۔ ویسے تو یہاں سپلائی کے پانی کی پائیپیں بھی محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے بچھائی ہوئی ہیں جن میں لاڑاں اور برمی والے مقام سے پانی سپلائی ہوتا ہے ۔ علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ لائین پر تائینات پی ایچ ای کے ملازمین مقررہ وقت پر پانی فراہم کرتے ہیں۔ انسانوں کے پینے کے لیے تو پانی دستیاب ہو جاتا ہے لیکن مویشیوں کے لیے پانی پورا نہیں ہو پاتا ہے۔ اس کی وجہ پانی کے جمع کرنے کی سہولت نہ ہونا ہے۔جن کنووں سے یہ سپلائی آتی ہیں وہ آبادی کی بانسبت کم ہیں۔ان میں پانی کی اتنی فراوانی نہیں ہے کہ پورا دن مال مویشیوں کو پانی پلایا جا سکے۔
اس تعلق سے گاؤں سنئی کے ایک نوجوان محمد اکرم کہتے ہیں ہم مال مویشیوں کو لیکرموسم گرما میں علاقہ میدان کے رخ کرتے ہیں وہاں مال مویشیوں کے لیے پانی کی بہت ضرورت پڑھتی ہے کیونکہ مویشیوں کو دن میں دو یا تین بار پانی پلانا پڑتا ہے۔ علاقہ ڈنی سے چھیڑ تک لگ بھگ پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہے جس کے بیچ صرف ایک پانچ ہزار لیٹر کا ٹینک ہے۔ جہاں سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے اور باقی لائینوں پر پانی جمع کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ لائینوں میں جب پانی سپلائی کیا جاتا ہے تو تالاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پانی اسٹور نہیں کر پاتے۔ انفرادی سطح پر وقتی طور پر کچھ لوگ کچے تالاب جن کو علاقائی زبان میں جبڑ کہا جاتا ہے، بنا لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان میں پانی جمع کرتے ہیں تو آدھے سے زیادہ پانی زمین جذب کر لیتی ہے اسطرح یہ کوئی پانی جمع کرنے کا محفوظ طریقہ نہیں ہے۔ علاقے کی خواتین دن بھر دو یا تین کلومیٹر دور سے سر پر پانی مٹکوں میں بھر کر لاتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین کی شکایت ہے کہ دن بھر وزن اٹھا اٹھا کر وہ متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس ضمن میں مقامی نوجوان امتیاز عادل جن کا تعلق گاؤں سنئی سے ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری ڈھوک میں پانی کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے پائپ لائین کے ساتھ آبادی والے علاقوں میں پانی کو جمع کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے پکے تالاب بنانے کی ضرورت ہے۔ تالاب کا یہ فائدہ بھی ہو گا کہ سپلائی کے پانی کے علاوہ بارش کا پانی بھی بآسانی جمع ہوجائے گا‘‘۔ اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان ابرار احمد عمر غالباً بائیس سال ، کہتے ہیں کہ ہماری ڈھوک میں مویشیوں کے لئے مستقل پانی کا کوئی نظام نہیں ہے ۔اگر یہاں پانی کے وافرمقدار میں فراہم کرنے کا ہمیں یقین دلایا جائے تو یہ یہاں کے لوگوں کے لیے بہت ہی خوشی کی بات ہوگی اور اگر ایسا ہو جائے تو لوگوں کو پانی کی مشکلات کا سامنا کم ہو جائے گا اور لوگوں کو ایک بڑی سہولت فراہم ہو جائے گی۔ اس تعلق سے مقامی لوگوں نے مرکزی حکومت و ضلع انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ علاقہ میدان کے مختلف مقامات پر پکے تالاب تعمیر کئے جائیں ۔ اس علاقے میں چار پانچ قدرتی چشمے بھی ہیں جن کا پانی ایسے ہی بہہ جاتا ہے جن میںترکنہ، کندر کا ڈلہ، ڈاب، مئو وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان چشموں کا پانی بھی محفوظ کیا جائے اور اس علاقہ میں تالاب تعمیر کئے جائیں تو ان علاقاجات کی عوام کو مشکلات سے راحت مل سکے گی۔(چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا