’پتھربازوں پر کارپٹ بمباری کی جائے‘

0
0

سیلف رول کی باتیں کرنے والے پاکستان چلے جائیں: پروین توگڑیا
کہامرکزی روہنگیا مسلمانوں کو نکال باہر کرے: محبوبہ مفتی اپنی کرسی بچائیں، ترنگاہم بچائیں گے
لازوال ڈیسک

جموں؍؍وشوا ہندو پریشد کے بین الاقوامی صدر پروین توگڑیا نے کہا کہ کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے والوں پر کارپٹ بمباری (بلاامتیاز اور شدید بمباری) کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر میں موجود پاکستانی ایجنٹوں پر کارپٹ بمباری نہیں ہوگی تب تک وہاں پاکستانیوں کی آواز بند نہیں ہوگی۔ وی ایچ پی کے شعلہ بیان لیڈر نے کہا کہ وادی میں آزادی، آٹانومی اور سیلف رول کی باتیں کرنے والوں کو پاکستان بھیجا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ پاکستان نہیں چلے جاتے ہیں تو انہیں سیکورٹی فورسز کی اے کے 47 رائفلوں اور بمبوں کا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ پروین توگڑیا نے ان باتوں کا اظہار ہفتہ کو یہاں ’ہندو ہیلپ لائن‘ کی آل انڈیا میٹنگ سے قبل نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے دفعہ 35 اے کو غیرقانونی قانون قرار دیتے ہوئے کشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی تمام دفعات کو ہٹانے کا مطالبہ کرڈالا۔ وی ایچ پی صدر نے کہا کہ وہ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو تب ہی مذاکرات کار مانیں گے جب وہ بقول ان کے چار لاکھ کشمیری پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں میں بسائیں گے۔ انہوں نے ریاست کی متواتر حکومتوں پر جموں کے ساتھ نا انصافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نا انصافی کا یہ سلسلہ فی الفور رکنا چاہیے۔ پروین توگڑیا نے پتھر بازوں پر کارپٹ بمباری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’ہمیں جموں وکشمیر کو دہشت گردی سے آزاد کرانا ہوگا۔ اگر سیکورٹی فورسز نے کسی دہشت گرد کو گھیر لیا ہے، تو اس وقت سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے والوں کو کارپٹ بمباری کا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ جب تک کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ اور دہشت گردوں کو بچانے والے پاکستانی ایجنٹوں پر کارپٹ بمباری نہیں ہوگی تب تک وہاں پاکستانیوں کی آواز بند نہیں ہوگی‘۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں آزادی، آٹانومی اور سیلف رول کی باتیں کرنے والوں کو پاکستان بھیجا جانا چاہیے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جموں وکشمیر کے لئے سیلف رول کی وکالت کئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں توگڑیا نے کہا ’ان کو پاکستان بھیج دینا چاہیے ۔ پاکستان نہیں جاتے ہیں اور یہاں پاکستان کی بات کرتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کی اے کے 47 کی گولیاں اور فوجیوں کے بم سے جواب دینا چاہیے۔ ہومن رائٹس کے نام پر پاکستانی ایجنٹوں کو جموں وکشمیر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہا ’جن کو سیلف رول چاہیے وہ پاکستان چلے جائیں۔ یہ پاکستان کے ایجنٹوں کا دیش نہیں ہے۔ یہاں سمجھوتہ کی پالیسی چلے گی نہ اس طرح کی کوئی کوشش ہونی چاہیے۔ بھارت کے آئین کے خلاف بولنے والے غدار ہیں، انہیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘۔ وی ایچ پی لیڈر نے دفعہ 35 اے کو غیرقانونی قانون قرار دیتے ہوئے کشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی تمام دفعات کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا ’دفعہ 35 اے بالکل غیرقانونی قانون ہے۔ بھارت کی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر غیرقانونی طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ملک میں کوئی قانون بن سکتا ہے نہ نافذ ہوسکتا ہے۔ اس (دفعہ 35 اے) کو ہٹاؤ۔ دفعہ 370 کو بھی ہٹاؤ۔ ہمیں کشمیر کو سیریا (شام) بنانے کی دھمکی مت دو۔ سیریا دہشت گردوں کی وجہ سے تباہ ہوگیا ہے۔ زائرہ وسیم اور سردار پٹیل کے حوصلوں کو چیلنج کرنے کی ہمت مت کرو۔ جو لوگ ہمت کریں گے، ان کو فوج کی بندوق، توپ اور بم جواب دیں گے۔ ہندوستان غداروں سے نمٹنے کا اہل ہے‘۔ وی ایچ پی صدر نے کہا کہ وہ دنیشور شرما کو تب ہی مذاکرات کار مانیں گے جب وہ بقول ان کے چار لاکھ کشمیری پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں میں بسائیں گے۔ انہوں نے کہا ’دنیشور شرما چار لاکھ ہندو کشمیری پنڈتوں کو اگلے تین ماہ میں کشمیر میں بسا کر دکھائیں گے تو میں انہیں مذاکرات کار مانوں گا۔ ان کو نہیں بساتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات کرتے ہیں تو کہوں گا کہ انہوں نے اچھا کام نہیں کیا‘۔ انہوں نے کہا ’ویشوا ہندو پریشد کا موقف ہے کہ جب تک کشمیری پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں میں بسایا نہیں جاتا ہے تب تک کشمیر میں ہونے والی ہر بات چیت بے معنی ہے۔ اتنے برسوں کے بعد بھی ہندووں کو ان کے اپنے گھروں میں بسایا نہیں جاسکا ہے، اس سے بڑی دکھ کی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے میں مذاکرات کار دنیشور شرما سے کہتا ہوں کہ کشمیر میں ہندووں کو بسانے کا کام اولین ترجیح میں پورا کرو۔ علیحدگی پسند یا پاکستانی ایجنٹ یہ ہمارے موضوع نہیں ہونے چاہیے۔ کشمیر کے ہندووں کو اپنے گھروں میں بسانا، یہ موضوع ہونا چاہیے‘۔ پروین توگڑیا نے کہا ’جب تک کشمیر کے پنڈت ہندووں کو اپنے گھروں میں واپس نہیں بسایا جاتا ہے، اس دیش کا کوئی فرد (کشمیر میں بات چیت کی کسی بھی کوشش کو) ٹھیک نہیں مانے گا۔ ٹھیک تب مانیں گے جب کشمیری پنڈتوں کو واپس ان کے گھروں میں بسایا جائے گا۔ میں دیش کی سرکاروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیری ہندووں کو ان کا اپنا حق دلوا دو۔ پاکستانی ایجنٹوں کو اتھارٹی دینے کی کوششیں نہ کی جائیں۔ ہم مل کر کشمیری پنڈتوں کو ان کے گھروں میں بسائیں گے‘۔ پروین توگڑیا نے ریاست کی متواتر حکومتوں پر جموں کے ساتھ نا انصافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نا انصافی کا یہ سلسلہ فی الفور رکنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’جموں کے ساتھ آج بھی نا انصافی ہورہی ہے۔ روزگار کی فراہمی سے لیکر فنڈس کی واگذاری تک ہر ایک معاملے میں نا انصافی ہورہی ہے۔ جموں کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ بغیر کسی مزید تاخیر کے رکنا چاہیے۔ ریاستی سرکار کو جموں اور لداخ کی ترقی کے لئے بھی کام کرنا چاہیے‘۔ وی ایچ پی لیڈر نے اپنے جموں دورے کے بارے میں کہا ’آج دن بھر ہندو ہیلپ یوجنا کی بات چیت چلے گی۔ کل انڈیا ہیلپ لائن پر بات چیت ہوگی۔ ہم سب مل کر لوگوں کو کھانہ بھی دیں گے اور ان کی مدد بھی کریں گے۔ اور حکومت کی ویلفیئر سکیموں کو لوگوں تک پہنچائیں گے‘۔ وی ایچ پی کے شعلہ بیان لیڈر توگڑیا 5 نومبر کو واپس نئی دہلی روانہ ہوں گے۔ پروین توگڑیا نے ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو غیرقانونی پناہ گزین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بین الاقوامی سطح پر سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں۔ انہوں نے مرکزی سرکار سے کہا کہ وہ ان بقول ان کے غیر قانونی پناہ گزینوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرے۔ انہوں نے کہا ’یہ مرکزی اور ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے غیرقانونی پناہ گزینوں کو پکڑ کر سرحد سے باہر کرے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ روہنگیا مسلمانوں جو غیرقانونی پناہ گزین ہیں اور جن کے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے دنیا میں ثابت ہوئے ہیں، کو اب تک پکڑ کر جموں سے بنگلہ دیش کی سرحد پر کیوں نہیں بھیجا گیا، مجھے اس کا جواب چاہیے‘۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جموں میں مقام میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کی تعداد 13 ہزار 400 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ مرکزی سرکار کی جانب سے گذشتہ ماہ سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ء پیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔توگڑیا نے جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے قریب تین ماہ قبل دیے گئے بیان کہ ’اگر ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو جموں وکشمیر میں ترنگے کو تھامنے والا کوئی نہیں رہے گا‘ کے ردعمل میں ہفتہ کو یہاں کہا کہ محترمہ مفتی اپنی کرسی کو بچائے اور ہم ترنگے کو بچائیں گے۔ پروین توگڑیا نے کہا ’آپ (محترمہ مفتی) ترنگے کی فکر مت کریے۔ میں کروڑوں ہندووں کے ساتھ جموں وکشمیر میں ترنگا لیکر آوں گا‘۔ انہوں نے کہا ’آپ اپنی کرسی بچائے، ہم ترنگے کو بچائیں گے‘۔ پروین توگڑیا نے کہا کہ وادی میں آزادی، آٹانومی اور سیلف رول کی باتیں کرنے والوں کو پاکستان بھیجا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’ان کو (جو آزادی، آٹانومی اور سیلف رول کی باتیں کرتے ہیں) پاکستان بھیج دینا چاہیے ۔ پاکستان نہیں جاتے ہیں اور یہاں پاکستان کی بات کرتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کی اے کے 47 کی گولیاں اور فوجیوں کے بم سے جواب دینا چاہیے۔ ہومن رائٹس کے نام پر پاکستانی ایجنٹوں کو جموں وکشمیر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا