پاکستان نے کرگل جنگ جیسی حماقت دہرائی تو انجام خونین ہوگا

0
0

کشمیری نوجوان بندوقیں چھوڑ کر اپنا مستقبل سنوارنے پر دھیان دیں: جنرل بپن راوت
یواین آئی

دراس (کرگل)فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کشمیری مسلح نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ بندوقیں چھوڑ کر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں اور اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لئے ان کے افراد خانہ، سول سوسائٹی اور مذہبی رہنماﺅں تک پہنچنے کی سخت کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بندوق اٹھانے والے نوجوان کو ‘معصوم’ نہیں کہا جاسکتا۔جنرل بپن راوت نے جمعہ کی صبح یہاں ’وجے دیوس‘ کی تقریب کے موقع پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’بندوق اٹھانے والے نوجوان کو ہم معصوم نہیں کہہ سکتے۔ ہم راستہ بھٹک کر بندوق اٹھانے والے نوجوانوں کو واپس لانے کے لئے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماﺅں اور افراد خانہ تک پہنچنے کی سخت کوششیں کررہے ہیں‘۔انہوں نے کہا: ‘والدین اپنے بچوں کو گریجویشن اور پی ایچ ڈی اس لئے کراتے ہیں تاکہ وہ بڑھاپے میں ان کی خدمت کرسکیں لیکن جب وہ بندوق اٹھاتے ہیں تو ان والدین کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ فوج کشمیری نوجوانوں کا مستقبل بہتر بنانے میں جٹ گئی ہے اور اس سلسلے میں مختلف پروگرام شروع کئے گئے ہیں’۔پاکستان کو کرگل جنگ جیسی غلطی سے مستقبل میں احتراز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے جنرل راوت نے کہا کہ اگر پاکستان نے یہ غلطی دہرائی تو اس کا انجام خونین ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جموں کشمیر میں تشدد بھڑکانے کے لئے سوشل میڈیا اور انتہا پسندی کا بے تحاشا استعمال کررہا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا جاسکے۔مسٹر راوت نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی سرزمین پر ملی ٹنسی کو فروغ دینے والا ملک قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ‘آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے۔ آپ اس بات سے بھی واقف ہے کہ اس ملک میں احکامات اور ہدایات کون لوگ جاری کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی مالی حالت بہت بری ہے۔ اس لئے وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے جس سے انہیں پیسے مل جائیں گے۔ اگر انہیں پیسہ مل گیا تو وہ وہی کریں گے جو وہ اتنے برسوں سے کررہے ہیں’۔انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کے حوالے سے کہا: ‘بات اور کارروائی میں فرق ہوتا ہے، بات پر تب ہی بھروسہ کیا جاتا ہے جب زمینی سطح پر کارروائی کی جائے’۔مسٹر راوت نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر ملی ٹنٹوں کو تربیت دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ملی ٹنٹوں کو تربیت دی جارہی ہے اور وہاں تربیتی کیمپ قائم ہیں، وہ ملی ٹنٹوں کی صرف اخلاقی مدد ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ انہیں مالی اور اسلحی مدد بھی فراہم کرتے ہیں’۔پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بپن راوت نے کہا: ‘جموں وکشمیر ایک سٹیٹ ہے۔ 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔ اسی الحاق کے تحت بھارتی فوجی کشمیر میں تعینات کی گئی تھی جس نے پاکستانی دراندازوں کو نکال باہر کردیا تھا۔ بعد ازاں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور نتیجاً ریاست کا کچھ حصہ پاکستان کے قبضے میں چلا گیا جس سے آج پاکستان زیر قبضہ کشمیر کہا جاتا ہے۔ پورے جموں وکشمیر پر بھارت کا حق ہے۔ پاکستان زیر قبضہ کشمیر کو کس طرح واپس لانا ہے یہ ایک سیاسی فیصلہ ہوگا اس پر کارروائی احکامات کے تحت ہی ہوگی’۔حقیقی لائن آف کنٹرول پر تازہ صورتحال کے بارے میں مسٹر راوت نے کہا: ‘حقیقی لائن آف کنٹرول پر صوتحال بہت اچھی ہے، چینی فوج اپنے اعتبار سے گشت کررہی ہے اور ہماری فوج اپنے اعتبار سے گشت کررہی ہے لیکن ایک میکانزم ہے جس کے تحت صورتحال کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا جاتا ہے، صورتحال قابو میں ہے اور امن وسکون قائم ہے’۔کرگل جنگ میں حصہ لینے کی بناءپر ‘ویرچکر’ حاصل کرنے والے ایک فوجی جس نے مبینہ طور پر پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری اختیار کی ہے، کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جنرل راوت نے کہا: ‘جب تک کوئی بھی سپاہی فوج میں رہتا ہے ہم اس کی دیکھ بال کرتے ہیں بلکہ سبکدوش ہونے کے بعد بھی ہم اس کی دیکھ بال کرتے ہیں اگر کوئی ویر چکر حاصل کرنے کے بعد کسی پولیس فورس میں جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے جاتا ہے’۔مسٹر راوت نے آسام کے رہنے والے ریٹائرڈ فوجی افسر محمد ثناءاللہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: ‘جس سپاہی کے خلاف این آر سی رجسٹر کے تحت کارروائی کی گئی ہے وہ ہمارے ساتھ رابطہ کرسکتا ہے اور ہم اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ کسی سابق فوجی اہلکار یا افسر کو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے’۔فوج کو درپیش چلینجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘اگر آپ کو جیت چاہئے تو وہ بندوق کے پیچھے جوان دلاسکتا ہے، وہ ہمیشہ بہترین تربیت اور جدید اور تمام اسلحہ سے لیس ہونا چاہئے تاکہ مشکل حالات میں کام کرسکیں’۔موصوف فوجی سربراہ نے کہا کہ ہمارے فوجی کھانے اور کپڑے کے بغیر بھی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم ان کے پاس بھی جدید اسلحہ کا ہونا ضروری ہے جس کو فراہم کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پراکسی جنگ لڑنے کے لئے سپاہی کے پاس ایسے آلات ہونے چاہئے جن کی مدد سے وہ ملی ٹنٹوں کو پہچان کر ان کا مقابلہ کرسکیں۔راوت نے کہا کہ ہمارے جوان ایسے ہتھیاروں سے لیس ہونے چاہئے تاکہ وہ ملی ٹنٹوں کا مقابل کرسکیں جو ایسے ہی ہتھیاروں سے لیس ہوں اور اس کے علاوہ ایسے ہتھیار بھی ہونے چاہئے جن کی مدد سے ملی ٹنٹوں کے بالائی زمین ورکروں کے ساتھ نمٹا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ جنگ لڑنے کے لئے فوج کے پاس جدید ٹیکنالوجی پر مبنی اسلحہ بھی ہونا چاہئے جس کا حصول راتوں رات ممکن نہیں ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پرانے ہتھیار کار آمد نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہوائی دفاعی سسٹم کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا