ویٹ لفٹنگ: گولڈن گرل میرا بائی چانو نےاولمپک کے علاوہ کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کئے

0
0

نئی دہلی،7 اگست (یو این آئی)ہندوستان میں ویسےتو ویٹ لفٹنگ ایک کھیل کے طور پر سال 1935 میں شروع ہوئی لیکن خواتین کو پہلی بار سال 1989 میں عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کا موقع ملا۔ کھیلوں کی تاریخ میں ویٹ لفٹنگ ہمیشہ ایک اہم حصہ رہا ہے اور اس شعبے میں ہمار ے کھلاڑیوں نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ ویٹ لفٹرز کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو کچھ دلچسپ اعدادوشمار ہمارے سامنے نکل کر آتے ہیں۔مجموعی طور پر ویٹ لفٹنگ سرکٹ میں، منی پور ایتھلیٹس کے بغیریہ فہرست نامکمل نظر آتی ہے۔منی پور ہی ہندستان کی واحد ایسی ریاست کہی جاسکتی ہے جس نے اب تک کئی اعلیٰ درجے کے ویٹ لفٹرز تیار کیے ہیں جنہوں نے ہندوستان کے لیے اپنی بہترین خدمات پیش کی ہیں۔میرا بائی چانوکا شمار بھی ہندوستان کی بہترین ویٹ لفٹرز کی فہرست میں ہوتا ہے او ر ان کا تعلق بھی ریاست منی پور سے ہی ہے۔
میرا بائی چانو، جو ہمیشہ کھیلوں میں دلچسپی رکھتی ہیں، ویٹ لفٹنگ میں حصہ لینے سے پہلے اپنے کیریئر کے آغاز میں امپھال کے ایک مقامی اسپورٹس ہال میں تیر اندازی سیکھنا چاہتی تھیں۔اپنے کھیل کو صحیح طریقے سے پہچاننے کے بعد، میرا بائی چانو نے ہندوستانی خاتون ویٹ لفٹر کنجارانی دیوی سے تحریک لی جو ان کی ویٹ لفٹنگ کوچ بھی رہ چکی ہیں۔
ٹوکیو 2020 میں میرابائی کا چاندی کا تمغہ کرنم مالیشوری کے بعد ہندوستانی ویٹ لفٹر کا دوسرا اولمپک تمغہ تھا۔ وہ پی وی سندھو کے بعد اولمپک میں چاندی کا تمغہ جیتنے والی دوسری ہندوستانی خاتون بنیں۔ انہوں نے ریو 2016 میں اپنے پہلے اولمپکس میں اپنی کارکردگی سے اپنے حریفوں کے ہوش اڑا دیئے تھے۔جہاں وہ 12 سال کا قومی ریکارڈ توڑنے کے بعد داخل ہوئی، وہ اپنی کوئی بھی کلین اینڈ جرک لفٹ مکمل کرنے میں ناکام رہیں۔اس ناکامی نے میرا بائی چانو کو مایوس کر دیا اور اس نے جلد ہی ریٹائر ہونے کا سوچا۔ لیکن ٹوکیو اولمپکس میں چانو نے عزم اور بہت سی قربانیوں کے بعد چاندی کا تمغہ جیتا جو ان کی انتھک محنت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا