وقف املاک پہ چوہے بِلی کاکھیل کب تک؟

0
0

ریاست جموں وکشمیرمیں ایک طرف جہاں ماتاویشنودیوی شرائین بورڈ نے یونیورسٹی اور اسپتال ودیگر تربیتی اِدارے قائم کئے ہیں وہیں تقسیمِ وطن کے زائیدازستربرس گذرجانے کے باوجود بھی تقسیم کے زخم جھیل چکی ریاست جموں وکشمیرکی وقف املاک ملک بھرکی طرح ریاست میں بھی ماضی میں لوٹ کھسوٹ کاشکار ہوئی ، اور وقاری مِلی فلاحی اِدارے قائم نہ ہوسکے،وقف املاک سے اُمت مسلمہ کی تقدیر بدلی جاسکتی تھی بشرطیکہ اسے لُٹیروں سے بچایاجاتااور صحیح معنوں میں بروئے کارلایاجاتا، منافع بخش اِداروں کے قیام کیساتھ ساتھ یہاں تعلیمی وطبی نظام میں بھی کچھ نمایاں کارنامہ انجام دیاہوتا، بمشکل ریاست میں باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کاقیام عمل میں آیا، اور وہ بھی وہیں ایک زیارت باباغلام شاہ بادشاہ ،شاہدارہ شریف سے ہونے والی آمدن سے ہی ممکن ہوا، ریاست بھرمیں وقف املاک بے شمار تھیں لیکن اب یہ سکڑتے سکڑتے ایک طرح سے سُکڑ چکی ہے، صوبہ جموں میں تو یہ املاک اپنے وقت کے ایڈمنسٹریٹروں ودیگرجموی مسلمانوں کے ٹھیکہ داروں نے بیچ کھائی، یہاں تک کہ ضلع جموں ودیگر پڑوسی اضلاع میں قبرستان بھی ہڑپ لئے گئے، تاہم قریب دودہائی سے اوقاف اسلامیہ میں تعینات ہونے والے ایڈمنسٹریٹرحضرات نے انتہائی جانفشانی، نیک نیتی اور جرا ¿تمندی سے اپنے فرائض انجام دئے جس سے نہ صرف وقف املاک کی لوٹ کھسوٹ پرقدغن لگابلکہ آمدنی میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا، اس کیساتھ ہی دیگر اضلاع وتحاصیل کی اوقاف کمیٹیوں نے بھی اچھاکام کیا اور دھیرے دھیرے ہر جگہ وقف املاک پھولنے پھلنے لگیں ، لیکن آج بھی ایسی بے شمار وقف املاک ہیں جن پر ’خاندانی راج‘چلتاہے، خاص طورپردرگاہوں،خانقاہوں پرکئی دہائیوں سے تخت نشین حضرات سے آمدنی اخراجات کاکوئی حساب لینے والانہیں، اور نہ ہی ان سے آنے والی آمدنی سے کوئی فلاحی کام انجام دئے جاتے ہیں اگرکہیں کوئی کام دکھایابھی جاتاہے تووہ آٹے میں نمک کے برابرہوتاہے، زیادہ تر لوٹ کھسوٹ کاسلسلہ ہی چلتاہے، ایک تازہ واقعے میں اوقاف اسلامیہ پونچھ نے سرنکوٹ میں گذشتہ روز ایک زیارت تکیہ شریف بابا غلام شاہ بادشاہ کاظمی مشہدی علیہ رحمہ کواپنے زیرانتظام لاتے ہوئے وہاں قابض ذمہ داروں کو پولیس کی مددسے باہرکیا، اس موقع پرایڈمنسٹریٹر اوقاف اسلامیہ پونچھ ریاض آتش وہاں کے کچھ مولوی حضرات کیساتھ خوب بحث وتکرار کرتے نظرآئے اور انہیں کافی مزاحمت کاسامناکرناپڑا، پولیس نے بیچ میں آکر کسی طرح سے ہنگامہ کرنے والوں کو خاموش کیا، لیکن یہ شرمناک مناظرتھے ، وقف املاک کو فروغ دینا،تحفظ دینا اوران سے ہونے والی آمدنی کا صحیح استعمال کرنالازمی ہے، جوابدہی ،شفافیت کافقدان اور کچھ گھرانوں کی لوٹ کھسوٹ کے بجائے ملت اسلامیہ کے بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے کالج ویونیورسٹیاںاور غریب غرباءکے علاج ومعالجہ کیلئے شفاءخانے قائم کئے جانے چاہئے لیکن ریاست میں وقف کونسل ایک ایسابِکھراہوا اِدارہ ہے جس کاکوئی منہ سرنہیں، وادی میں وقف بورڈ وقف املاک کی دیکھ ریکھ اورآمدنی وخرچ کاذمہ دارہے، صوبہ جموں میں اوقاف اسلامیہ ودیگراضلاع کی اوقاف کمیٹیوں کوسٹےٹ وقف کونسل کے ماتحت رکھاگیاہے، کوئی ایک نظام نہیں، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس جیسانظام ہے، مجموعی طورپروقف املاک کے گھڑے میں چھید ہی چھید ہیں، ہرجگہ سے ہرکوئی اپنااپناحصہ ڈالناونکالتاہے، جس سے ملت کیلئے کوئی بڑاکارنامہ انجام دینے سے اوقاف اسلامیہ ہنوز قاصرہے، یہاں تک کے ریاستی وقف کونسل بھی چند زیارتوں کی محتاج ہے جہاں سے ہونے والی آمدنی سے ہی یہ کونسل چلتی ہے، یہ انتہائی شرمناک ہے، ریاستی وقف کونسل ایک ایساویران اِدارہ ہے جس کی صرف جموں میں چلتی ہے او رجس کی گاڑی جموں کے دم پہ چلتی ہے، کشمیرمیں وقف بورڈ کااپنامن چاہانظام ہے، وقف املاک کیلئے ایک نظام ہوناچاہئے جوپوری ریاست پرلاگوہو اور جوآمدنی ہو اُسے مرحلہ وار فلاحی اِداروں کاقیام عمل میں لایاجاناچاہئے۔اب بھی جواملاک کسی خودساختہ ٹرسٹ کے قبضے میں ہیں توانہیں فوری طورپراوقاف کے تحت لاناچاہئے اوربغیرکسی زورزبردستی قابضین کوچاہئے کہ وہ از خود اوقاف اسلامیہ کو مدعوکریں اوراس سے استدعاکریں کہ وہ وقف املاک کواپنے دائرے میں لاکراس سے ہونے والی آمدن کو مستحقین کی فلاح وبہبودکیلئے خرچ کرے۔یہ چوہے بِلی والاکھیل آخر کب تک جاری رہے گااوربِکھراشہرازہ کب ایک بڑاپلیٹ فارم بنے گاجہاں سے قوم وملت کے روشن مستقبل کے منصوبے رفتار پکڑیں گے؟

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا