وسطی ضلع بڈگام کے آستان پورہ چاڈورہ، چرار شریف اور پکھر پورہ میں اپنی پارٹی کے جلسوںکا انعقاد

0
0

اپنی پارٹی ریاست کے درجے کی بحالی، قیدیوں کی رہائی، افسپا کے خاتمے اور مسلح افواج کی بیرکوں میں واپسی کو یقینی بنائے گی:سید محمد الطاف بخاری
لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍ لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنی جاری مہم کو جاری رکھتے ہوئے، اپنی پارٹی نے آج وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں کئی جلسوں اور عوامی رابطہ مہم کے پروگراموں کا انعقاد کیا۔آستان پورہ چاڈورہ، پکھر پورہ اور چرار شریف میں عوامی جلسوں اور عوامی رابطہ مہم کے پروگراموں میں پارٹی صدر اور ان کے ہمراہ پارٹی کے دیگر سینئر رہنماوں کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ان مقامات کے اپنے دن بھر کے دورے کے دوران اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے چرار شریف میں زیارتِ شریف شیخ العالم پر اور پکھر پورہ میں زیارتِ شریف حضرت سلطان سید محمد علی بلخی صاحب پر حاضری دی۔جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے سید محمد الطاف بخاری نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں روایتی پارٹیوں بالخصوص خاندانی پارٹیوں کے ذریعہ کئے گئے پْرفریب بیانیوں اور جھوٹے وعدوں کا شکار نہ ہوں۔
انہوں نے کہا، ’’جموں کشمیر کے عوام یہ بات ہر گز نہیں بھول سکتے ہیں کہ ان خاندانی جماعتوں کے لیڈران کے ہاتھ درجنوں بچوں سمیت سینکڑوں معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت نے سال 2010 میں 200 بچوں کو ہلاک کروایا، جبکہ دوسری جماعت نے سال 2016 میں سو سے زیادہ ہلاکتیں کروائیں اور پیلٹ گن کے استعمال سے سینکڑوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نابینا بنا دیا۔ اس جماعت کی لیڈر نے بے رحمی کی تمام حدیں اْس وقت پار کیں جب اس نے معصوم بچوں کی ہلاکتوں کو جواز بخشنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا یہ بچے اپنے لیے چاکلیٹ اور دودھ لینے گھروں سے نکلے تھے‘۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’یہ جماعتیں آپ کو مسلسل جھوٹے وعدوں اور گمراہ کن بیانیوں سے راغب کرتی ہیں۔ ان دنوں ایک بار پھر، وہ جذباتی نعروں اور جھوٹے وعدوں کے ساتھ آپ سے ووٹ مانگنے آ رہے ہیں۔ آپ کو ایک بار پھر ان کی سیاسی چالوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ان سیاسی خانوادوں کے ادوار میں یہاں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ اس قتل و غارتگری کی ذمہ داری انہی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
سید محمد الطاف بخاری نے مزید کہا، ’’سال 2019 میں، یہ پارٹیاں آپ کے پاس ووٹ مانگنے آئیں اور وعدہ کیا کہ ان کے منتخب لیڈر پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 کی حفاظت کریں گے۔ آپ نے ان پر بھروسہ کیا اور ان میں سے ایک پارٹی سے 3 ممبران اسمبلی منتخب کرائے، جب کہ دوسری جماعت کے پاس بھی راجیہ سبھا میں اس کے دو ممبر تھے۔ تاہم، جب 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا، تو یہ اراکین پارلیمنٹ خاموش رہے۔ کم از کم، انہیں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔‘‘انہوں نے مزید کہا، اگر موجودہ ایم پی فاروق عبداللہ صرف پچاس نظر بند نوجوانوں کو جیلوں سے رہا کروائیں گے، تو میں اپنے امیدوار سے ان لوک سبھا انتخابات میں دستبردار ہوجانے اور این سی امیدوار کے لیے راستہ بنانے کے لیے کہوں گا۔ لیکن فاروق عبداللہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ عوام کے مسائل سے ان لیڈوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہیں صرف اپنے اقتدار کی فکر لگی رہتی ہے۔ ان جماعتوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں کچھ بھی نہیں کیا۔ لوگ انہیں دوبارہ ووٹ کیوں دیں؟‘‘سید محمد الطاف بخاری نے وعدہ کیا کہ ’’جب اپنی پارٹی کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہوگا تو وہ جموں و کشمیر کا ریاست کے درجے کی بحالی، جیلوں سے قیدیوں کی رہائی، افسپا کو ہٹانے، اور مسلح افواج کی بیرکوں میں واپسی کو یقینی بنائے گی۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا، ’’ہم جموں و کشمیر کے لوگوں کو سیاسی اور اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اپنی پارٹی کی حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ جموں کشمیر کے عوام کو وہ تمام حقوق فراہم ہوں جن کی ملک کی آئین ضمانت دیتا ہے۔‘‘آستان پورہ چاڈورہ میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، اپنی پارٹی کے نائب صدر جاوید مصطفی میر نے 1987 کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کرکے جموں و کشمیر میں تشدد کے ایک طویل مرحلے کی راہ ہموار کرنے کے لیے این سی اور کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔انہوں نے کہا، ’’1987 کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے نتیجے میں، ان جماعتوں نے جموں و کشمیر میں تشدد کی راہ ہموار کی۔ تشدد کا یہ طویل مرحلہ آخرکار خطے میں ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنا۔ یہ پارٹیاں اور ان کے لیڈر یہاں رونما ہوئیں ہلاکتوں اور خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔‘‘سید محمد الطاف بخاری اور جاوید مصطفی میر کے علاوہ جن سرکردہ پارٹی قائدین نے ان عوامی جلسوں سے خطاب کیا یا جو ان میں موجود تھے، ان میں ضلع صدر کپوارہ راجہ منظور، سینئر لیڈر عاشق بخاری، سید اصغر، فاروق اندرابی، مشتاق زوہامی، ثاقب مخدومی، پروفیسر پال، ایڈووکیٹ اویس، یاسر چودھری، عبدالعزیز پوسوال، امتیاز احمد ڈار، عنایت گل، رفیق رینہ، غلام حسن شاہ، غلام نبی یتو، ارشد صاحب، ایڈووکیٹ احسان، عرفان مختار، بشیر کھانڈے، ایڈووکیٹ ریاض احمد، شہباز نذیر، اور دیگر لیڈران شامل تھے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا