ننھی آصفہ کا اغوا کے بعد قتل؛ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا شدید احتجاج اور واک آوٹ

0
0
  •  چوبیس گھنٹوں کے اندر سچائی سامنے نہیں لائی تو ایوان میں تہلکہ مچائیں گے:سروڑی
  • موجودہ دورِحکومت میں جموں اقلیتوں کیلئے غیرمحفوظ ہوگیا:علی محمدساگر
  • واقعہ سب کیلئے شرمناک ،مخصوص طبقے کیخلاف زیادتیاں :میاں الطاف احمدب
  • چی لاپتہ ہوئی توحکومت سوئی رہی،لاش ملی تو حکومت بیدار ہوئی:مبارک گل
  • تحقیقات شروع ؛ملوثین کے خلاف کارروائی کی جائے گی:ویری
  • حکومت واقعہ کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرے:نذیرگریزی

 

  • جان محمد

جموں ..کٹھوعہ کے ہیرانگرمیں معصوم قبائلی بچی آصفہ کی مبینہ عصمت ریزی کے بعد وحشیانہ قتل کیخلاف آج ایوانِ زیریں میں اپوزیشن نے زبردست احتجاج درج کراتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتار کی مانگ کی اور معصوم بچی کے انسانیت سوزقتل کیلئے حکومت کوذمہ دارقرار دیا، اپوزیشن ارکان نے پولیس کو24گھنٹوں میں قاتلوں کو گرفتار کرنے کی مہلت دیتے ہوئے شدیداحتجاج کاانتباہ دیا۔اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ اپوزیشن کے اراکین نے الزام عائد کیا کہ ریاست میں پی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے جموں میں مقیم خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کو ہراساں کرنے کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کی صبح قانون ساز اسمبلی میں جوں ہی معمول کی کاروائی شروع ہوئی تو کانگریسی اراکین جی ایم سروڑی اور وقار رسول نے مؤقر اُردوروزنامہ ’لازوال‘ کی کاپیاں لہراتے ہوئے کہا کہ پولیس نہ کمسن آصفہ کا پتہ لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سروڑی نے کہا ’آپ سب سے پہلے متعلقہ ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کردیجئے‘۔ انہوں نے کہا ’واقعہ کی نسبت ایف آئی آر درج کرنے میں بھی تاخیر کی گئی‘۔ اس دوران کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے سبھی اراکین اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت مخالف نعرے بازی شروع کردی۔ احتجاجی اراکین نے کہا کہ ایک طرف حکومت ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ بلند کرتی ہے تو دوسری طرف ایک کمسن بچی کو قتل کیا جاتا ہے۔ غلام محمد سروڑی نے معاملہ ابھارتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت کی ناکامی ہے ، پولیس انتظامیہ کی غفلت کانتیجہ ہے جو آٹھ دِنوں سے لاپتہ بچی کوڈھونڈنکالنے میں ناکام ثابت ہوئی اورایک ہفتے بعد بچی کوبے دردی سے قتل کر دیاگیا۔سروڑی نے کہاکہ پولیس سوئی رہی اور بچی کی عصمت ریزی اورقتل کردیاگیا۔سروڑی نے ایس ایس پی ، ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ آف پولیس اور ایس ایچ اوکیخلاف کارروائی کی مانگ کرتے ہوئے ان تمام کو اس اسانیت کوشرمسار کردینے اوردل کو دہلادینے والے واقعہ کیلئے ذمہ دار قرار دیا۔پارلیمانی امورکے وزیرعبدالرحمان ویری کے جواب سے متفق نہ ہوتے ہوئے اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر اُٹھ کھڑے ہوئے اورجم کرحکومت کیخلاف نعرے بازی کی۔اپوزیشن نے حکومت کے ’بیٹی بچائوبیٹی پڑھائو‘ نعروں پرسوال اُٹھاتے ہوئے کہاکہ کیابیٹیاں ایسے بچائی جارہی ہیں،اب معصوم ننھی بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر وجنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث افراد کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن اراکین نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں اقلیتوں کو جموں میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران قانون و پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے کہا کہ واقعہ کی انکوائری شروع کی گئی ہے اور ملوثین کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ تاہم احتجاجی اراکین وزیر کے بیان سے مطمئن نہیں ہوئے اور احتجاج کے دوران ایوان سے واک آوٹ کیا۔

تاہم غلام محمد سروڑی ، وقار رسول وانی، رکن اسمبلی اندروال میاں الطاف احمد، ودیگرارکان نے حکومت سے مانگ کی کہ وہ24گھنٹوں کے اندراندرقاتلوں کو گرفتار کرے جو اس دردناک قتل میں ملوث ہیں۔سروڑی نے سوال کیا’’ایساصرف کٹھوعہ میں ہی کیوں ہوتاہے، لال سنگھ کہاں ہے؟۔وہ خاموش کیوں ہے’’۔سروڑی نے پرچے پھاڑتے ہوئے اسپیکرکی جانب پھینکے اور اپوزیشن نے جم کراحتجاج درج کیا۔معاملے کیخلاف اپوزیشن نے ایوان سے احتجاجاًواک آئوٹ کیا۔

دریں اثنا ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد گریزی نے حکومت سے ہدایت کی کہ وہ واقعہ کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرے۔ کانگریس کے غلام محمد سروڑی نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر سچائی سامنے نہیں لائی گئی تو وہ ایوان میں تہلکہ مچائیں گے۔ انہوں نے کہا ’ہیرا نگر میں ایک ہفتے قبل ایک آٹھ سالہ کمسن بچی کو اغوا کیا گیا ۔ ایک ہفتے تک پولیس سوئی رہی۔ اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔ بدھ کے روز ہیرا نگر میں اس کی لاش دیکھی گئی۔ کٹھوعہ، ہیرا نگر اور سانبہ کے علاقے گوجر بکروال کنبوں کے لئے مصیبت ثابت ہورہے ہیں۔ جب سے یہ فرقہ پرست حکومت وجود میں آئی ہے تب سے یہاں فرقہ وارانہ وارداتیں رونما ہورہی ہیں۔ وہ جموں وکشمیر کو گجرات بنانا چاہتے ہیں۔ کہاں تھا وہ ایس پی اور ایس ایچ او؟ کیوں انکوائری نہیں ہوئی؟ ہم نے واضح الفاظ میں ان سے کہا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر سچائی سامنے نہیں لائی گئی تو ہم تہلکہ مچا کر رکھ دیں گے‘۔

نیشنل کانفرنس رکن و گوجر لیڈر میاں الطاف احمد نے کہا کہ آٹھ سالہ کمسن بچی کی ہلاکت کا واقعہ سب کے لئے شرمناک ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ جموں میں ایک مخصوص طبقے کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ ہم نے کئی بار حکومت کی توجہ اس طبقے کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کی طرف مبذول کرائی لیکن حکومت نے ہر بار ان سنی کردی۔آج ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو ہم سب کے لئے شرمناک ہے۔ اس واقعہ سے صاف ہوگیا ہے کہ کٹھوعہ میں لاء اینڈ آڈر نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ جب یہ بچی اغوا کی گئی تو پولیس کو فوراً حرکت میں آنا چاہیے تھا۔ آٹھ دنوں کے بعد اس کی لاش مل گئی۔ یہ ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ آج حکومت کہتی ہے کہ ہم نے انکوائری کے لئے ایک کمیٹی بنائی ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔حکومت کو اس وقعہ کی انکوائری تین دنوں کے اندر مکمل کرنی چاہیے اور جن لوگوں نے یہ جرم انجام دیا ہے ، کے خلاف فوری قانونی کاروائی کی جانی چاہیے‘۔

بانہال سے کانگریسی رکن وقار رسول نے کہا ’آٹھ سالہ بچی کا قتل انجام دیا گیا ہے۔ ہم نے یہ مسئلہ ایوان میں اٹھایا۔ ہم نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ علاقہ میں اقلیتوں کے ساتھ لگاتار ظلم ہورہا ہے۔ یہ بچی آٹھ دنوں سے لاپتہ تھی لیکن پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ کیا بیٹی بچاؤ کا نعرہ یہی ہے کہ ہماری بچی آٹھ دنوں سے لاپتہ تھی اور پولیس سوئی ہوئی تھی‘۔

این سی رکن مبارک گل نے کہا ’ ایک کمسن بچی کو اغوا کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی ایکشن ہی نہیں لیا۔ جب اس کی لاش ملی تو حکومت بیدار ہوئی۔ جموں میں گوجر بکروال کنبوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کا بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ کہاں ہے؟ اس کیس میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے پولیس عہدیداروں ایس پی اور ایس ایچ او کو فی الفور معطل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے جان بوجھ کر کاروائی نہیں کی ہے‘۔ واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’کٹھوعہ میں معصوم بچی آصفہ بانوکے ساتھ پیش آئے دل سوز اور وحشیانہ واقعہ کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہماری سرکاری اس واقعہ کی تیزی سے تحقیقات کرکے ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے گی‘۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا