نظم شہزادی

0
0

آفتابؔ اجمیری
میری شہزادی ، میری جان ، میری عنوانِ غزل
راز کھلتا ہے، تو کھل جائے ارادہ نہ بدل
میرے اشعار کی پہچان ، تو رخ اپنا بدل
اب نہ بن پائیں گے اس شہر میں خوابوں کے محل
شہر اجمیر چلیں۔ اپنے اجمیر چلیں۔ پھر سے اجمیر چلیں
اپنی ہر ایک مصیبت کا ہے اجمیر میں حل
میری شہزادی ، میری روح ، میری جان غزل
مرمری جسم کا ہو سکتا نہیں تاج بدل
ڈھل گئی رات ستاروں کو بھی نیند آئی ہے
چاند کے چہرے پہ ، نو رانی گھٹاچھائی ہے
ہے جواں رات ابھی ، چاند ستارے ہیں جواں
ایسے میں تو بھی دبے پائوں ، ذرا گھر سے نکل
دودلوں کو نہ یہ دنیا کبھی ملنے دے گی
اپنی آشائوں کی کلیوں کو نہ کھلنے دے گی
ایسے ماحول میں رہنے کے لئے تو نہ مچل
ریت کے ڈھیر پہ بنتا نہیں ہے کوئی محل
اب نہ بن پائیں گے اس شہر میں خوابوں کے محل
شہر اجمیرچلیں۔ اپنے اجمیر چلیں۔ پھرسے اجمیر چلیں
یہاں انسان کی قیمت نہیں پجتے ہیں مزار
رہتا ہے بے درد دیوار کے گھر میں معمار
موت کے بعد ہی فنکار کو ملتا ہے وقار
اپنے ارمانوں کا پھیلانہ یہاں توآنچل
خون مفلس سے یہاں ہوتے ہیں تعمیر محل
اب نہ بن پائیں گے اس شہر میں خوابوں کے محل
پیار کا نام لے پیارہے بدنام یہاں
قیس و فرہاد رہے پیار میں ناکام یہاں
پیار کو کہتے ہیں ، اب لوگ دماغوں کا خلل
ان کو معلوم نہیں ، اپنا ارادہ ہے اٹل
اب نہ بن پائیں گے ، اس شہر میں خوابوں کے محل
شہر اجمیر چلیں۔ اپنے اجمیر چلیں ، پھر سے اجمیر چلیں
ہونٹ کلیوں کے ترستے ہیں تبسم کو یہاں
گیت اورنظمیں تڑپتی ہیں ترنم کو یہاں
ہوش میں آج میں آیا ہوں ، ذرا تو بھی بہل
کھل نہ پائیگا یہاں اپنی محبت کا کنول
اب نہ بن پائیں گے اس شہر میں خوابوں کے محل
شہر اجمیر چلیں۔ اپنے اجمیر چلیں ، بھر سے اجمیر چلیں
رنگ اور نور کے سانچے میں ڈھلاتیرا بدن
کوندتی ہے ، تیری آنکھوں میں محبت کی کرن
جیسے ٹھہرے ، ہوئے پانی میں کوئی نیل کمل
جو بھی دیکھئے تجھے تو دیکھ کے ہو جائے وہ شل
اب نہ ہو پائے گا اس شہر میں خوابوں پہ عمل
شہر اجمیر چلیں۔ مرحبا اجمیر چلیں۔ لوٹ کے اجمیر چلیں
پیار بے بس ہے جہاں علم و ہنر ہیں محتاج
یہاں فنکارکا فن بکتا ہے دولت کا ہے راج
ناچتی ہے سر بازار یہاں عریاں اجل
آج سے بیزار ہوں تو کیسے سمجھالوں گا میں کل
اپنے ارمانوں کو پیروں سے اپنے نہ کچل
شہر اجمیر چلیں۔ مرحبا اجمیر چلیں۔ لوٹ کے اجمیر چلیں

اپنے اجمیر میں ہے دل کا سکون راحت ہے
ہندو مسلمان میں وہاں ایکتا ہے الفت ہے
سکھ سے آرام سے گزرے گا وہاں ایک ایک پل
ہے فرشتوں کے اترنے کی جگہ جنت ہے
کہتا ہوں سوچ سمجھ کر کہ اب اجمیر ہی چل
شیر اجمیر چلیں، مرحبا اجمیر چلیں، لوٹ کہ اجمیر چلیں
در پہ خواجہؒ کے سکون چین میسر ہوگا
فیض سے خواجہؒ کے بیدار مقدر ہوگا
ہے یہی اپنے پریشانی و تکلیف اصل
ہم کو امید ہے حاصل ہمیں ہو جائے گا پھل
اپنے نہ ہو پائے گا اس شہر میں خوابوں پہ عمل
شیر اجمیر چلیں، مرحبا اجمیر چلیں، لوٹ کہ اجمیر چلیں
انا ساگر بھی ہے پشکر بھی تیرتھ استھان
اور ملتا ہے وہاں دیش کی بھکتی کا وگیان
دل یہ کہتا ہے کھلے گا وہیں آشا کا کنول
جو بھی ہاتھ میں ہے وقت جائے نہ نکل
اپنے اجداد کی روحوں کا بسیرا ہوگا
سُر مئی راتیں کو خوش رنگ سویرا ہوگا
باقی شفقتیںاور ماں کا ملے گا آنچل
کیوں نہ چکھ لیں ابھی ماں باپ کی خدمت کا پھل
آفتاب اپنی مرادوں کا جنازہ لے کر
آہ چلیں سوئے وطن غم تازہ لیکر
صرف نفرت ہی ملے گی یہا ں الفت کا بدل
اب محبت کا یہاں دیکھ لے سورج گیا ڈھل
اب تشدد کی ہے نفرت کی ہے فضاء چاروں طرف
منہ کو پھاڑے ہوئے گھومے ہے قضاء چاروں طرف
اپنے آرام میں پڑتا ہے ہمیں وقت خلل
اب نہ کھل پائے گا اس شہر میں حسرت کو کنول
شیر اجمیر چلیں، مرحبا اجمیر چلیں، لوٹ کہ اجمیر چلیں

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا