نصیب

0
0

 

 

 

 

 

 

آفسانہ نگار……….زاہد بشیر مغل
طالب علم شعبہ اردو یونیورسٹی آف جموں

کالج کے ایڈمنسٹریشن بلاک کے دائیں جانب ایک پارک میں بینچ پر بیٹھا ہوا یہ اکیلا لڑکا اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا اس کی وجہ تھی ایک تو یہ کہ آج کا اِس کالج میں پہلا دن تھا دوسری یہ کہ اس کا لباس دیکھ کر کوئی اُسے بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا تبھی اس پارک سے شبنم کا گزر ہوتا ہے ۔ اُس کی اچانک نظر اس لڑکے پر پڑتی ہے تو وہ فوراً اِس کی طرف آتی ہے اور قریب آکر کہتی ہے عدنان تم نے یہ کیا حال بنا رکھا ہے اور تم یہاں کیا کر رہے ہو

شبنم جو کے عدنان کو پہلے سے ہی جانتی ۔ شبنم اور عدنان پانچویں کلاس تک ہم جماعت رہ چکے تھے یہ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست رہ چکے تھے پانچویں کلاس کے بعد جہاں شبنم نے اعلی تعلیم کے لئے شہر کا رخ کیا تو عدنان نے اسی اسکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی اس وقت جہاں آہستہ آہستہ ان دونوں کے درمیان رابطہ ختم ہوا تو وہاں ہی قسمت نے اج انہیں ایک دوسرے سے ملا دیا لیکن اب حالات کچھ مختلف تھے۔ کالج میں ہونے والی وقتاً فوقتاً ملاقاتوں میں شبنم نے عدنان سے اُس کی بکھری ہوئی زندگی کے بارے میں جانا

5 6 سال قبل رضا الہی سے عدنان کی ماں وفات پا گئی تھی ۔باپ نے عدنان کے بارے میں بنا کچھ سوچے سمجھے دوسری شادی کر لی لیکن عدنان نے اُسے دل سے قبول نہیں کیا وجہ کہ وہ بہت کٹھور دل عورت تھی جس نے عدنان کے غمزدہ دل پہ ممتا کی محبت کا سایہ نہ رکھا اُسے خود اولاد نہ ہونے کے باوجود عدنان کو بھی اولاد کا درجہ نہ دیا آہستہ آہستہ اِن کے درمیان نفرت کی دیوار مضبوط ہوتی گئی عدنان کو اپنی جوانی کے دنوں میں ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا کہ جب اس کا باپ ایک مہلک ناک بیماری میں مبتلا ہوگیا آب وقت تھا کہ خاندانی رشتہ دار عدنان کے اس مشکل وقت میں اس کی مدد کریں مگر کوئی بھی اس کی مدد کو تیار نہیں تھا تب عدنان کو یہ محسوس ہوا کہ ماں باپ کے علاوہ باقی سب خاندانی رشتے کھوکھلے ہیں۔

باپ کے علاج اور گھر کے اخراجات نے اُسے اپنی جوانی تیاگنے پر مجبور کر دیا تھا اور کام کے لئے نکل پڑا مختلف جگہوں پر کام کرکے وہ گھر کے اخراجات اور باپ کا علاج کروانے کی کوشش کرتا مگر اتنا نہیں کماتا تھا کہ وہ باپ کا اچھی طرح علاج کروا پائے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا

عدنان کے اندر غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی میری اس سے ملاقات ایک پکنک پر ہوئی جو شبنم کے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ترتیب دی گئی تھی میں نے دیکھا کہ وہ خوبصورت تھا مگر شرمیلا بہت تھا لیکن اس کی آنکھوں میں بہت گہری اُداسی تھی وہ دن بہت خوشگوار تھا اس دن ہم نے بہت مزے کیے

شبنم کو معلوم ہوتا ہے کہ عدنان کی سوتیلی ماں اس پر بہت ستم ڈھا رہی ہے باپ کی بڑھتی بیماری سوتیلی ماں کی کم ظرفی کو کھول کر عدنان کے سامنے لے آئی عدنان اور اس کی سوتیلی ماں کے درمیان اب ماحول ایسا تھا کہ جیسے جنگ کا میدان ہو بیمار شوہر سے تنگ انے والی عورت اور عدنان میں ہر وقت جھگڑے ہونے لگے پھر ایک دن عدنان نے اپنے والد کے انتقال کی خبر دی شبنم کو۔ شبنم اپنے دوستوں کے ساتھ عدنان کے گھر گئی اور تدفین میں شریک ہوئی مگر شبنم جب واپس اپنے گھر لوٹ رہی تھی وہ بہت غمزادہ تھی عدنان اب بہت اکیلا رہ گیا ہے چونکہ اس کی سوتیلی ماں باپ کی تدفین کے بعد اپنے میکے چلی گئی

شبنم ہر دوسرے یا تیسرے دن عدنان کو کال کرکے اس کا حال جانتی کچھ دن گزر جانے کے بعد اسے معلوم ہوا کیا عدنان ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کر رہا ہے تو اسے بہت خوشی ہوئی

جہاں عدنان کو ماں اور باپ کا پیار زیادہ دیر زندگی میں نصیب نہ ہوا تو ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اس کے چچا رفیق نے بھی عدنان پہ ظلم ڈھایا اسے اپنے ہی گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ یہ ہماری زمین ہے تمہارے باپ نے تو اپنے حصے کی زمین بیچ دی تھی۔ گھر سے بے دخل ہونے کے بعد عدنان اپنے ایک دور پار کے کزن کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے لگا عدنان کا کزن کمرے کا کرایہ کھانے پینے کا خرچہ برابر کے بجائے عدنان سے زیادہ وصول کرتا اور وہ پھر بنا کچھ کہے اسے دے دیتا کیونکہ اگر وہ اُسے بحث کرتا یا نہ دیتا تو عدنان کا کزن اُسے کمرے سے نکال دیتا اور پھر وہ کہاں جاتا یہی وجہ تھی کہ عدنان بنا کچھ کہے اسے سہتا رہا۔

ایک دن عدنان کو شبنم کا میسج آتا ہے لکھتی ہے ”عدنان تم کیسے ہو کیسا ہو“ ”کیسا ہوں گا بس ویسا ہی زندگی کا دن دن کاٹ رہا ہوں زندہ رہا تو کسی دن ملاقات ہوگی“ عدنان کے لفظوں نے جیسے قیامت ڈھا دی تھی شبنم پر اور اُسنے اب عدنان کو کوٸی جواب نہیں دیا۔ عدنان کے یہ الفاظ شبنم کے ذہن میں بار بار گردش کر رہے تھے حالات سے مجبور شبنم اخر کرتی بھی تو کیا کرتی وہ سماج کی بنائی ہوئی دیوار سے مجبور تھی وہ عدنان کے لئے ایسا کچھ انتظام بھی نہیں کر سکتی تھی کہ عدنان کو اپنے ہی فیملی کے ساتھ رکھ پائے کیونکہ شبنم کی منگنی ہو چکی تھی

ٹھیک دو دن بعد نئے سال کا اغاز ہونے والا تھا اور شبنم نے نیا سال عدنان کے ساتھ منانے کا پورا انتظام کر لیا تھا جہاں ایک طرف نئے سال کی خوشیاں منانے کا انتظار ہو رہا تھا تو وہیں دوسری جانب ایک زخمی روح جسم کا ساتھ چھوڑنے کو تیار تھی

نٸے سال کا سورج عدنان کی موت کی خبر لے کر طلوع ہوتا ہے اس لڑکے کے جنازے میں میں نے بھی شرکت کی جنازے میں چند نام نہاد رشتے دار یہ کہہ رہے تھے کہ اس نے زہر پی کر خودکشی کرلی اس وقت عدنان کے نام نہاد رشتہ داروں کی بے صبری دیکھنے لائق تھی کہ بے جان لاش کی صورت لیٹا یا لڑکا ہمارے گھر کی دہلیز چھوڑ دے اس وقت میرے منہ سے بے ساختہ طور پے یہ الفاظ نکلے کہ اے نصیب لکھنے والے تجھ سے شکایت تو نہیں بنتی مگر زندگی دے تو اچھے نصیب سے ورنہ دے ہی نہ

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا