نجی اسکول، والدین سے انصاف کریں !

0
165

سال 2024-25کیلئے داخلوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ پرائیویٹ اسکولوں کی طرف والدین کی حسب رواج دوڑیں لگ چکی ہیں۔ نجی اسکولوں میں بچوں کو داخل کروانے کا رواج اتنا عام ہو چکا ہے کہ آج ایک بے روزگار والد بھی قرض اٹھا کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کرنا چاہتا ہے ۔ جبکہ وہیں دوسری طرف این ای پی 2020کے نفاذ کے بعد سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کیلئے کئی نئی ترمیم کی گئی ہیں۔ نئے نئے پروگرام بنائیں گئے ہیں جن میں ای سی سی ای پروگرام قابل توجہ ہے جس کے تحت سرکاری اسکولوں میں با ضابطہ طور پر نرسری کلاسز لگائی جائیں گی ۔ جس کے لئے محکمہ تعلیم نے حال ہی میں ہر اسکول کیلئے ایک ہیلپر (آیا) کی تعیناتی بھی عمل میں لائی ہے جو چھوٹے بچو ں کی اسکول میں صاف صفائی اور دیگر ضرورتوں کا خیال رکھے گی ۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں دی جانے والی دیگر سہولیات کا موازنہ اگر نجی اسکولوں سے کیا جائے تو سرکاری اسکولوں میں بچوں کو دی جانے والے سہولیات جن میں ، کتابیں ، وردی ، وظیفہ ، ظہرانہ وغیرہ کا انتظام واقعہ ہی غریب والدین کیلئے ایک بڑی مدد ہے ۔ مگر نے جانے کیوں پھر بھی والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کرنے میں نا صرف فخر سمجھتے ہیں بلکہ ایک مجبوری بھی سمجھ رہے ہیں ۔ اسلئے اب نجی اسکولوں کے ملکان اور پراوئیوٹ اسکول چلانے والوں کو بھی یہ چاہئے کہ وہ ان غریب والدین کا خیال رکھتے ہوئے ان سے انصاف کریں ۔ ان پر بھاری فیسوں کا بوجھ نہ ڈالتے ہوئے سرکاری حکم نامے کے مطابق داخلہ فیس لیں ۔ جبکہ دیکھنے میں اکثر یہ آیا ہے کہ نجی اسکولوں میں داخلے کا نام پر اس طرح کی لوٹ کھسوٹ اور مارکیٹنگ کی جاتی ہے کہ نجی اسکول والدین کو داخلہ کے علاوہ بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ بچوں کیلئے کتابیں ، وردی، اور اسکولی بیگ حتیٰ کے بچوں کے ٹیپھن تک اسکول انتظامیہ یا ان کی من پسند دوکان سے ہی خریدیں جن پر اسکول کا بیج لگا ہوا ہے۔ تاہم بیچارے والدین پرائیویٹ اسکولوں کے مطالبات کے مطابق ہی اپنے بچوں کیلئے وردی ، کتابیں اور دیگر چیزیں خریدنے پرمجبور ہیں ۔ اب ایسے میں بہت سارے سوال پیدا ہوتے ہیں ۔کیا نجی اسکول تعلیم کے نام پر اپنی تجارت چلا نا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ چاہتے ہیں کے داخلے کے نام پر غریب والدین کو خوب لوٹا جائے ۔ ان پر کمر توڑ بوجھ ڈال کر آخر یہ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں ۔کیا وہ کاپی جس پر اسکول کا بیچ نہیں ہوگا اس کے علاوہ کسی بھی سفید کاغذ والی کاپی پر لکھنا ممنوع ہے ۔ کیا بیچ کے بغیر والی کاپی پر پنسل نہیں چل سکتی ہے ۔اسلئے نجی اداروں کے مالکان سے گزارش ہے ،خدا رہ ان غریب والدین سے انصاف کریں جہاں ان کے بچوں کے مستقبل کیلئے آپ اتنے فکر مند ہیں وہیں ان والدین کی بھی فکر مندی کریں کہ یہ کہیں قرض کے بوجھ تلے نہ دب جائیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا