ایک عرصے تک مڈے میل کے نام پر طلبہ کے ساتھ مذاق جاری رہا ہے کہیں اس کے کھانے سے طلبہ کی موت ہونے کی خبریں بھی آتی رہی اور کہیں اس کے کھانے سے درجنوں طلبہ کے بیمار ہونے کی خبروں نے اس اسکیم پر کئی سوالات کھڑے کئے ۔ ماضی میں مڈے میل کے نام پر طلبہ کے ساتھ ضرور کچھ نا کچھ ایسا ہوتارہا ہے کہ جس سے یہ اسکیم ہمیشہ سوالوں میں رہی ہے۔لیکن اس اسکیم میں کسی حد تک سدھار بھی آیا ہے ۔ مڈے میل وکروں کو اس وقت گیارہ سورپیہ دیناطے پایاتھا۔لیکن اس وقت ان کھانا پکانے والوں کو صرف ایک ہزار روپیہ کے حساب سے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ وہ بھی کبھی ایک سال کے بعد تو کبھی چھ ماہ کے بعد دی جاتی ہے۔جو کہ ان کے لئے ناکافی ہے اس اسکیم کا نام مڈے میل سے پردھان منتری پوشن اسکیم PM-POSHANتو کردیا گیا لیکن اس کے حالات ابھی تک نہیں بدلے جموں وکشمیر یوٹی کے دور دراز علاقاجات میں تو یہ اسکیم اور اس کا راشن ہمیشہ سرکاری رحم و کرم کا منتظر رہتا ہے ۔ مڈے میل اسکیم پکانے والوں کی اجرت آج کے دور میں گیارہ سو روپے کسی مذاق سے کم نہیں ہے ۔ مڈے میل پکانے والوں کو اچھا خاصا کام کرنا پڑھتا ہے جس میںکھانا بنانے سے لیکر برتن دھونے تک کا پورا کام ہوتا ہے۔ اس کام کو کرنے میں پورا دن لگ جاتا ہے۔ پھر جن اسکولوں میں طلبہ کی تعداد زیادہ اُن اسکولوں میںایک مڈے میل ورکر بھی کم ہے ملک کی کچھ ریاستوں کی سرکاروں سے اس اجرت کو بڑھا 3000سے 7000بھی کیا ہے لیکن جموں وکشمیر جہاں ہمیشہ سے چھوٹے ملازموں اور ڈیلی ویجروں کااستحصال ہوتاآیا ہے وہ اس سلسلے میں بھی جاری و ساری ہے مڈے میل ورکروں کا کہنا ہے کہ ایک ہزار روپے یعنی دن کے تیس روپے اُجرت یہ سرکار کی جانب سے کسی ظلم سے کم نہیںہے کیونکہ مڈے میل کا کام کرکے ہم کوئی اور مزدوری بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ جہاں تعلیم سے متعلق اسکیموںکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہیں مڈے میل اسکیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے اس کے وکروں کے ساتھ انصا ف کرنے کی ضرورت ہے