مودی پر اوبا ماکے بیان پر بھکت چراغ پا ہوگئے

0
0

محمد اعظم شاہد

وزیراعظم مودی سبب بے سبب ڈپلومیسی کے نام پر دھڑا دھڑ بیرونی ممالک کے دورے کرنے میں مگن رہتے ہیں ۔’’ ہم توفقیر آدمی ہیں ،ہمارا کیا ۔ جھولا اُٹھائے چل دیں گے‘‘یہ جملہ اقتدار سے اپنی بے نیازی جتانے وہ (مودی) کئی بار دُہراتے آرہے ہیں۔ ان کے ٹھاٹ باٹ اور رہن سہن سے تو کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ فقیر صفت ہیں۔ شاید ان کی نظرمیں ماڈرن یا پھر شاہی فقیر ویسے ہی ہوتے ہیں ،جیسے وہ ہیں۔ خیر گجرات میںخونیں فسادات کی پاداش میں انہیں بطور وزیر اعلیٰ عدالتوں سے تمام تر الزامات سے بری تو کردیا گیا تھا مگر ـClean Chitمل جانے کے بعد بھی اِن دِنوں امریکہ نے ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا تھا۔ حالات بدلے‘ مودی کے وزیراعظم بنتے ہی ظاہر ہے کہ تمام پابندیاں ختم ہوگئیں ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اورمودی ایک ہی سکّے کے دو رُخ ثابت ہوئے ۔ امریکہ کے دورے پر بوسٹن میں مودی نے ٹرمپ کی حمایت میں زور لگایا تھا یہ کہتے کہ ’’ اب کی بار ٹرمپ کی سرکار‘‘ مگرامریکہ نے جو بائیڈن کو اپنا صدر چن لیا۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے مودی۔ اور گزشتہ ہفتہ اپنے امریکی دورے پر اپنے روایتی انداز میں ہندوستان کی جمہوریت کی تعریف و توصیف میںمودی زمین آسمان کے قُلابے ملاتے رہے۔انگریزی میںاپنی تقریر کے دوران وہ ( مودی) واضح کرنا چاہتے تھے کہ بھارت میں لڑکیوں کی تعلیم و ترقی پر کثیر رقم کا سرمایہ(Investment) لگایا جارہا ہے۔ مگر لفظInvestigationاستعمال کربیٹھے۔ تبھی تو ان کا وہ ویڈیو سوشیل میڈیا پروائرل ہوتا رہا جس پر یہ تبصرہ لکھا گیا تھا کہ اسی لیے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم تعلیم یافتہ ہو۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے دیرینہ سفارتی تعلقات کی دہائی دیتے ہوئے اپنے دورے سے ان تعلقات میںمزید وسعت اور بہتری کی اُمیدیں مودی جتاتے رہے۔
اپنے امریکی دورے کے دوران امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں سے خطاب کرنے مودی نے اپنے 56انچ کا چوڑا سینہ تان کر کہا ’’ ایک بھارت سریشٹھ بھارت کا پہلو یہاںنظر آرہا ہے۔ مودی بھکت ’ مودی مودی کا راگ الاپتے رہے۔ دوسری مرتبہ حکومت امریکہ کی دعوت پر مودی امریکی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا ۔ اس پر بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن مودی کی تعریف میںکہنے لگیں کہ یہ غیر معمولی اعزاز یعنی دو مرتبہ امریکی پارلیمنٹ کوخطاب کرنا ہرہندوستانی کے لیے اعزاز ہے ۔ اس دوران سابق امریکی صدر باراک اوباما کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ہندوستان میں مودی حکومت کے دوران مسلم اقلیتوں کے ساتھ سلوک تشویش کا باعث ہے۔ مذہب کے نام پر حکومت کا متعصب روّیہ ہندوستان کو ہی کمزور اور بے وقعت کردے گا۔ اوباما سے اپنے گہرے مراسم پر ناز کرنے والے مودی کو یہ تبصرہ گراں گزرا ، وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ ( مودی) امریکی کانگریس سے خطاب کرنے والے تھے ۔ اوبا ما نے اپنے بیان میں واضح طور پر بائیڈن سرکار کی ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ مودی حکومت کے رویہّ پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میںایماندارانہ گفتگو ضروری ہے۔
جیسے ہی اوباما کابیان مودی کی کارکردگی پر سوال اُٹھاتے ہوئے میڈیا پر آرہا تھا۔ مودی بھکت اور ان کے حامیوں نے اوباما کو ہی آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا شرما نے اوباما کے بیان کو زیادتی اورمسلم نواز قرار دیا، تو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اوبا کی جنم کنڈلی ہی کھول کر رکھ دی۔ نرملا جی کہہ گئیں کہ چھ ایسے ممالک جس میں شام اور یمن بھی شامل ہیں ، ان ممالک پر وحشیانہ بمباری کے دوران اوبا ما نے ہزاروں مسلمانوں کو ہلاک کردیا اور اب ہندوستان کے مسلمانوں کے حق میں بات کررہے ہیں اور فکر جتارہے ہیں جو بالکل غیر ضروری اور غیر مناسب ہے۔ مودی کی حمایت اور اوباما کی مخالفت میں اِن بیانات سے یہ باور کروایا جارہا ہے کہ کوئی بھی مودی کی بے مثال حکومت کی کارکردگی پر نہ اُنگلی اٹھا سکتا ہے اورنہ ہی تنقید کرسکتا ہے ۔ جبکہ جمہوریت میں Dissent مزاحمت اور عدم اتفاق Disagreementکی بھی بھر پور گنجائش رہتی ہے ۔ صرف ایک طرف کہنے اورکرنے کو ہی جمہوریت نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اب بھلا اوباما ہی کیوں نہ ہو، وہ مودی حکومت کو جوابدہ بنانے آئینہ دکھلا نہیںسکتے۔ اس لیے بھی کہ مودی کے حواری اورحامی حکومتوں کے اندر اور باہر مودی بھکتوں کی ایک فوج بیانات پر اپنا ردِعمل جارحانہ طور پر کرنے ہر لمحہ متحرک رہتی ہے۔
azamshahid1786@gmail.com cell: 9986831777

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا