منشی پریم چند کی تخلیقات اور ان کے کردار ہمیں غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔:پروفیسر ارتضیٰ کریم

0
0

شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، اکھل بھارتیہ کایستھ سبھا ،جن وادی لیکھک سنگھ اور وی کمٹ میرٹھ کی مشترکہ پیش کش
بابا ئے فکشن منشی پریم چند کی یوم پیدا ئش کے موقع پرشعبۂ اردو، سی سی ایس یو میں شاندار پروگرام کا انعقاد
لازوال ڈیسک
میرٹھ//منشی پریم چند کی تخلیقات اور ان کے کردار ہمیں غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیںجو سچ ہوتا ہے وہی خوبصورت ہوتا ہے۔ان کے ادب میں سچ اور خوبصورتی کا ایک منفرد زاویہ نظر آ تا ہے۔سماجی مسائل اور عام انسان کا دکھ درد پریم چند کے افسانوں میں جابجا نظر آ تا ہے۔یہ الفاظ تھے پروفیسر ارتضیٰ کریم کے جوشعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،اکھل بھارتیہ کایستھ سبھا جن وادی لیکھک سنگھ اور وی کمٹ میرٹھ کے مشترکہ اہتمام میں بابائے فکشن منشی پریم چند کی یوم پیدائش کے موقع پر شعبے کے پریم چند سیمینار ہال میںمنعقد پرو گرام بعنوان’’پریم چند کی عصری معنویت‘‘ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پریم چند کے بارے میں اور بھی باتیں ہوتی رہیں گی جب تک ہم اور ہمارا سماج زندہ ہے پریم چند سدا ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز محمدشاکرنے تلاوت کلام پاک سے کیا۔بعد ازاں مہمانوں کا پھولوں سے استقبال کیا گیا اور مہمانوں نے مل کر شمع روشن کی ۔پروگرام کی صدارت کے فرائض صدر شعبۂ اردو اور معروف فکشن نگار پروفیسر اسلم جمشید پوری نے انجام دیے ۔مہمانان خصوصی کے بطور سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی پروفیسر ارتضیٰ کریم اور صدر شعبۂ لائبریری سائنس،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ پروفیسر جمال احمد صدیقی اور سابق کمشنر آر کے بھٹنا گر نے شر کت فرمائی جب کہ مہما نان مکرم کے بطور سماجی تنظیم وی کمٹ،میرٹھ کی بانی اور چیئر پرسن رما نہرو،جن وادی لیکھک سنگھ،میرٹھ کے چیئر مین ایڈ وکیٹ منیش تیا گی،این اے ایس کالج میرٹھ کی ڈاکٹر پرگیہ پاٹھک موجود رہیں۔ استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم،نظا مت ڈاکٹر آصف علی اور شکریے کی رسم اتُل سکسینہ نے ادا کی۔
اس موقع پر منشی پریم چند کی معروف کہانی’’ بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کی قرأت ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور آج کے معروف فکشن نگارپرو فیسر اسلم جمشید پوری کی کہانی’’ بڑے گھر کی چھو ٹی بیٹی‘‘ کی قرأت سیدہ مریم الٰہی نے کی۔
ان کہانیوں پر بو لتے ہوئے پروفیسر گیتا یادو نے کہا کہ بڑے گھر کی بیٹی ‘‘ ایک لا جواب کہا نی ہے۔ جس دور کی یہ کہانی ہے اس دور
میں انسانیت زندہ تھی اور بڑی سے بڑی خطا کو بھی معاف کردیا جاتا تھا یہی اس کہانی میں بھی ہے۔ بڑے گھر کی بیٹی کی سوچ بھی بڑی تھی۔ پریم چند نے عورت کے دل کو خوب پڑھا۔ لیکن پروفیسر اسلم جمشید پوری کی کہا نی’’بڑے گھر کی چھو ٹی بیٹی‘‘ اچھی کہانی ہے۔ لیکن اسلم صاحب پریم چند سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں حالانکہ آج اگر پریم چند ہوتے تو شاید کہانی کا آخر کچھ اور ہوتا۔ کیونکہ کب تک معافی کا سلسلہ چلے گا۔ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا نا بھی لازمی ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ یہ کہانی بھی خاندان کو لے کر چلنے والی کہانی ہے۔
ڈاکٹر پرگیہ پاٹھک نے کہا کہ پریم چند ہمیشہ ہی اپنے سماج سے کنکٹ رہے ہیں۔ جہاں کوئی شخص بھی ظلم کا شکار ہوا ہے پریم چند نے اس کی آ واز بہت عمدہ انداز میں اٹھائی ہے۔ پریم چند کی عصری معنویت ہر دور میں بر قرار رہے گی۔منشی پریم چند کی بہت سی کہا نیاں ایسی ہیں جن میں فنی چا بکدستی اور عمدہ اسلوب دکھائی دیتا ہے۔پریم چند کے فن پر گفتگو کرنا آج کے عہد میں اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ انہوں نے آج کے مسائل کو بہت پہلے محسوس کرتے ہوئے یعنی اپنے زمانے میں ہی ایسا ادب تخلیق کیا جس کو ہم کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر رام گوپال بھارتیہ نے کہا کہ پریم چند نے دبے کچلے ،مزدور۔مظلوم،اور خواتین کے مسائل کی زبردست نمائندگی کی۔حالانکہ آج بہت سے مصنفین ان کے راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ آج انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ آج کا دور مطلبی دور ہے ۔ عہد حا ضر میں پریم چند کی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایڈ وکیٹ منیش تیا گی نے کہا کہ پریم چند نے سماج کے ہر ظلم کے خلاف آ واز بلند کی۔ آج ہمیں ہندو اور مسلمان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ انسان ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور آج پریم چند کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ظلم کے خلاف آ واز اٹھانے کی ضرورت ہے۔پریم چند نے سماجک انصاف کی بات کی اور سماج کو بدلنے کے لیے پورے انقلاب کی بات کی۔
رما نہرو نے منشی پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سماج کا کوئی بھی پہلو ان سے اچھوتا نہیں رہا ۔ انہوں نے سماج کی ہر پریشانی کو محسوس کیا اور اسے قلم بند کیا۔ پریم چند نے جو ادب تخلیق کیا وا واقعی سماج کا آ ئینہ ہے۔ آج ان کی تخلیقات کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔
پروفیسر جمال احمد صدیقی نے کہا کہ پریم چند پر بے شمار تحقیقی کام ہوئے ہیں اور مسلسل ہورہے ہیں اور کام کسی اہم شخصیت پر ہی ہوتے ہیں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم پریم چند کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ علاوہ ازیں پریم چند جتنے باہر مقبول تھے اتنا ہی وہ گھر میں بھی مقبول تھے۔
صدر شعبۂ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ آج منشی پریم چند کے فن پر بہت سی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور کافی مواد بھی منشی پریم چند کے تعلق سے ہمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔لیکن آج بھی منشی پریم چند کی تصانیف کی اہمیت و افادیت برقرار ہے۔ ان کے ناول ہوں یا افسا نے ہمیں سماج کا سچا آئینہ دکھاتے ہیں۔انہوں نے انسانیت کے تن مردہ کی جڑوں کو سینچنے کا فریضہ انجام دیاہے۔۔انہوں نے اپنے عہد کے مسائل، مصیبت اور تکالیف کو جو برداشت کیا وہی لکھا اور آنے والی نسلوں کو راہ دکھائی۔
اس مو قع پر ایک تحریری مقابلہ بعنوان’’عہد حاضر میں سر سید کی معنویت‘‘ کا انعقاد بھی کیا گیا جس میںججزکے بطور ڈاکٹر الکا وششٹھ اے کے سکسینہ اور مکیش شریواستو موجود رہے اور اس مقابلے میںشعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ کی لائبہ نے اول،میرٹھ کالج کی آرادھنا تیواری نے دوم اور فیض عام ڈگری کالج کی خوشی محمد اور شعبۂ اردو سی سی ایس یو کی نزہت اختر نے تیسرا مقام حاصل کیا۔
پروگرام میں،ڈاکٹر ودیا ساگر،ڈاکٹر اسلم صدیقی،ڈاکٹر رام گوپال بھارتیہ،ڈاکٹر تابش فرید، انجینئر اشوک کمار،اروند شرما،آنند جوہری،وجے دت شرما،سرتاج ایڈوکیٹ، مدھو اگر وال، مولانا جبرئیل، آفاق احمد خاں،پشپا نہرو، مکیش شریواستو، عابد سیفی، ایڈوکیٹ سرتاج احمد، محمد شمشاد، فیضان ظفر،لائبہ،ماہِ عالم، نزہت اختر،سعید احمدسہارنپوری ،محمد ارشد اکرام ،شاہِ زمن،فرح ناز،طاہرہ خاتون، سمیت کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شر کت کی۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا