محمد صدرِعالم قادری مصباحی
امام روشن مسجد،میسورروڈ،بنگلور
.Mobile: 09620747322
پروردہ¿ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،اقلیم ولایت کے شہنشاہ،صاحب سرلافتی ،مقتداءاولیاءواصفیائ، منبع علم وعرفان،محبوب خداکے رازداں،اہل بلا کے مشکل کُشا،مخزن صدق وصفا،عالم شجاعت کے شہنشاہ،علم رسول کی ودیعت گاہ،آسمان فضائل کے مہرعالمتاب، عبادت وریاضت میںمسلمانوں کے امام و پیشوا،ہمت وشجاعت کے عظیم تاجدار،معرکہ¿ خیبرکے شہسوار،حضرت خاتون جنت کے شوہرنامدار،سرداران جنت کے والدگرامی،حضرت علی حیدر،اسداللہ الغالب کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجھہ الکریم ، آپؓ کا اسم گرامی علی اورکنیت”ابوالحسن “و”ابوتراب“ہے۔آپؓ وادی بطحاءکے نامورسرداراوراہل حرم میں معززترین فردابوطالب کے فرزندارجمندہیںاورآپ ؓکی والدہ کانام نامی فاطمہ بنت اسدبن ہاشم ہے۔آپ ؓسابقین اولین اورعلماءربانین میںانتہائی مکرم ومعظم اورمہاجرین اولین اورعشرہ¿ مبشرہ میںاپنے مراتب و درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتازاوراعلیٰ واکرم ہیں۔آپ ؓحضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شوہرِنامدار،حسنین کریمین کے پِدربزگوار،حیدرکرَّار وصاحب ذ والفقارہیںاورجس طرح سخاوت وشجاعت میں مشہورخلائق ویگانہ¿ِ روزگارہیں،اسی طرح زہدواِتقااورعبادات وریاضت میں بھی سیدالاخیاروسیدالابرارہیں۔فصاحت وبلاغت اورموعظہ¿ وخطابت میں عدیم النظیراورجودوسخا،علم وحلم ،تفکروتدبر،صبروتحمل میںبھی بے مثال،غرض ہرمیدانِ فضل وکمال کے شہسوارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قیامت تک تمام دنیاآپؓ کو”مظہرالعجائب والغرائب اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب“ پکارتی اوریادکرتی رہے گی ۔اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمة والرضوان فرماتے ہیں!مرتضیٰ شیرحق اشجع الاشجعین ساقی¿ شیروشربت پہ لاکھوں سلام شیرشمشیرزن شاہ خیبرشکن پَرتَوِدَستِ قُدرت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)آپؓ خلفاءراشدین میں سے خلیفہ¿ چہارم وجانشینِ سیدعالم،نورمجسم،شاہ بنی آدم،نبی محتشم،شافع اُمم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ ولادت باسعادت وپرورش:عام الفیل کے 30 برس بعد جبکہ حضورسرورکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمرمبارکہ 30سال کی تھی۔13رجب المرجب بروزجُمعَةُ المُبَارکہ23سال قبل از ہجرت خانہ¿ کعبہ کے اندر بزم ہستی میں رونق افروزہوئے۔سرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت علیؓ کے والدین سے جواُنس ومحبت تھی اس کایہ تقاضاتھاکہ آپ ﷺنے زمانہ ¿ قحط میںاپنے محسن چچاابوطالب کی تنگدستی کوملاحظہ کرتے ہوئے اُن کامعاشی بوجھ ہلکاکرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواپنی کفالت میں لے لیا،اُس وقت آپ ؓکی عمرمبارک ۵سال تھی۔ظاہری طورپرتوابوطالب کی تنگدستی کی بناءپرحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسرورکائنات ﷺ نے اپنی کفالت میں لے لیامگرمعنوی طورپراس حقیقت سے انکارکیسے ممکن ہے کہ مشیت ایزدی نے جامع اورہمہ گیرصفات سے متصف ہونے والے کم سن علی ؓکی نہایت شائستہ پرورش کے لئے ام المو¿منین حضرت خدیجةالکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی گودکاانتخاب کیا جس سے مقدس ترکوئی گودنہ تھی۔اورراہ سلوک کی منزل طے کرنے اورمرتبہ¿ اخلاص پر فائز ہونے کے لئے جس تربیت وتزکیہ کی ضرورت تھی اس کے لئے بارگاہ رسالت میں ہمہ وقت کی باریابی سے فزوں ترکوئی وظیفہ نہ تھا۔تاکہ بارگاہ رسالت سے فیض یاب ہوکرآپؓ امام الاولیاءکے منصب جلیل پرفائز ہوسکیںاورعلم وعرفان کی راہوں پرایسے نقوشِ پاچھوڑیں جو تاقیامت اہلِ ذوق کے لئے مثلِ قندیل فروزاں رہیں۔حقیقت میں یہی تقرب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تمام فضائل ومناقب کی بنیادہے، آپ ؓنے آغوشِ رسالت میں ہر غم اورہرفکر سے آزادپرورش پائی ،آپؓ کے نفسِ قُدسیہ پرانوارِرِسالت کی پیہم برسات ہوتی رہی ،دَرِاَقدس پرحاضرہونے والے سائل نے جوطلب کیااسے وہ شئے مل کررہی،توپھرکاشانہ¿ اقدس کے اندرنورانی تجلیات کی وادی¿ سینامیں شب وروز بسرکرنے والابھلاکون سی اورکس قسم کی نعمت سے محروم رہاہوگا۔آپؓ کی صورت وسیرت ،ذات وصفات ،اخلاق وآداب ،ظاہروباطن غرضیکہ ہرہر صفحہ¿ حیات پراَنوارِنبوت جھلک رہے ہیں۔اس تربیت وپرورش کاہی یہ اعجازتھاکہ آپؓ دورجاہلیت کی کسی آلودگی میں ملوث نہ ہوئے۔نشوونمااورقوت وتوانائی میں اپنے ہم عمربچوں سے آگے نکل گئے۔ایام طفولیت میں بھی حق وفضیلت کی کوئی بات آپ سے ضائع نہ ہوئی ۔سنِّ شعورسے قبل دس سال کی عمرمیں ہی آپؓ کوفہم وفراست کا وہ بلندمعیارحاصل ہوچکاکہ آپ ؓمقصدِرِسالت کے اسرارورموز کوسمجھ پائے اوردعوتِ نبی ﷺ کوحق تسلیم کرتے ہوئے حلقہ¿ اسلام میں داخل ہوئے اورحضورنبی رحمت ﷺ کی اقتداءمیں اقامتِ صلوٰة کواپناشعاربنایا۔اُخُوَّتِ رَسُو±ل: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بھی ایک بڑی خاص خصوصیت ہے کہ آپؓ رسول اکرم،نورمجسم ،سیدعالمﷺ کے چچازادبھائی ہونے کے علاوہ ”عقدمواخاة“میں بھی آپ کے بھائی ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماروایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ¿ کرام ؓمیں ”بھائی چارہ “کرایااورایک صحابی کودوسرے صحابی کابھائی بنایا،توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آبدیدہوکربارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضرہوئے اورعرض کیاکہ یارسول اللہﷺ!آپ نے تمام صحابہ¿ کرام کو”عقدمواخاة“میں ایک دوسرے کابھائی بنادیامگرمیںیونہی رہ گیااورآپ نے مجھے کسی کابھائی نہیں بنایاتورسول ِخداﷺ نے نہایت ہی الفت ومحبت سے فرمایاکہ:”انت اخی فی الدنیاوالآخرة“یعنی تم دنیااورآخرت میں میرے بھائی ہو۔“(مشکوٰة شریف،ص564)ہمت وشجاعت کے پیکر:حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے مثال ہمت وشجاعت اورجرا¿ ت وبہادری کی لازوال داستانوںکے ساتھ سارے عرب وعجم میں آپؓ کے زور بازوکے کافی چرچے تھے،آپ ؓکے رعب ودبدبہ سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے۔جنگ تبوک کے موقع پرسرکاراقدسﷺنے آپؓ کو مدینہ طیبہ پراپنانائب مقررفرمادیاتھااس لئے اس میں حاضرنہ ہوسکے باقی تمام غزوات وجہادمیںشریک ہوکربڑی جانبازی کے ساتھ کُفَّارکامقابلہ کیااوربڑے بڑے بہادروں کواپنی تلوارسے موت کے گھاٹ اُتاردیا۔جنگ بَدرمیں جب حضرت ہمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسودبن عبدالاسدمخزومی کوکاٹ کرجہنم میں پہنچادیاتواُس وقت کافروں کے لشکرکاسردارعُتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اوراپنے بیٹے ولیدبن عتبہ کوساتھ لے کرمیدان میں نکلااورچلاکرکہاائے محمد!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اَشراف قریش میں سے ہمارے جوڑکے آدمی بھیجئے۔حضورﷺ نے یہ سُن کرفرمایاائے بنی ہاشم!اُٹھواورحق کی ہمایت میں لڑوجس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کوبھیجاہے۔حضورﷺ کے اس فرمان مقدس کوسُن کرحضرت ہمزہ،حضرت علی اورحضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم دشمن کی طرف بڑھے ۔لشکر کے سردارعتبہ حضرت ہمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل ہوااورذِلَّت کے ساتھ ماراگیا۔ولیدجسے اپنی بہادری پربہت بڑانازتھاوہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتاہواآگے بڑھااورڈینگیں مارتاہواآپؓ پرحملہ کیامگرشیرخدا،علی مرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیرمیں اُسے مارگرایااورذوالفقارحیدری نے اُس کے گھمنڈ کوخاک وخون میں ملادیا۔اس کے بعدآپؓ نے دیکھاکہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوزخمی کردیاہے توآپؓ نے جھپٹ کراُس پرزبردست حملہ کیااوراُسے بھی جہنم میں پہنچادیا۔جنگِ اُحَدمیں ایسی جانبازی کے ساتھ کفارکے نرغے میںلڑتے رہے کہ سولہ(16) زخم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم ِمبارک پرلگے۔مگراِس حال میں بھی ذوالفقارحیدری چلاتے ہی رہے۔جنگ خندق میں عمرو بن عبدود جوایک ہزاربہادروں کے برابرماناجاتاتھا۔آپ ؓنے اس کے سرپرایسی تلوارماری کہ اس کی کھوپڑی کوکاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی۔عمروبن عبدودکے بعدضراراورجبیرہ آگے بڑھے۔لیکن جب ذوالفقارکاہاتھ بڑھاتویہ دونوں سرپرپیررکھ کربھاگ نکلے ،نوفل بھی کفارکابڑابہادرشہسوارتھا مگریہ بھی ذوالفقارحیدری کی ماردیکھ کرفرارہوگیااوربھاگتے ہوئے خندق میں گڑپڑا۔تواسداللہ الغالب خندق میں کودپڑے اورذوالفقارحیدری نے اس مغرورکابھی خاتمہ کردیا۔آپؓ کے فضائل ومناقب: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل ومناقب کایہ عالم ہے کہ قرآن مجیدکی بہت سی آیتیں آ پؓ کی شانِ اقدس میں نازل ہوئیںاورآپؓ کے فضائل میں بکثرت حدیثیںواردہوئی ہیں۔ترمذی،نسائی اورابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ حضورسرکارِدوعالم ﷺ نے جناب مولائے کائنات علی مرتضیٰ کے بارے میںارشادفرمایاکہ:”عَلِیµ مِنِّی وَاَنَامِن± عَلِیٍّ“یعنی علی مجھ سے ہے اورمیں علی سے ہوں۔“اِس حدیث پاک سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاکس قدرکمالِ قرب بارگاہ نبوت میںہے ظاہرہوتاہے۔اِسی طرح مسلم شریف کی ایک حدیث شریف ہے کہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ ¾ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشادفرمایاکہ میں اُس ذات کی قسم کھاتاہوں کہ جس نے دانے کوپھاڑکراُگایااورجس نے روح کوپیداکیاکہ مجھے نبی عربی فداہ امی وابی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بتایاہے کہ مجھ سے ایماندارلوگ محبت رکھیں گے اورمنافق بغض رکھیں گے ،اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے کہ”علی کرم اللہ وجہہ¾ کے چہرے کودیکھناعبادت ہے“اورحضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ”جس نے علیؓ کوایذادی اُس نے مجھ کوایذادی۔“مقام علم وفضل: رسول اکرم،نورمجسم ،شاہ بنی آدم،نبی محتشم،شافع اُمم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوہرشناس نگاہوں نے حضرت علیؓ کی خدادادقابلیت واستعدادکاپہلے ہی اندازہ کرلیاتھااورآپ کی زبان اقدس سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوباب العلم کی سندمل چکی تھی۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیںکہ ہم نے جب بھی آپ ؓسے کسی مسئلہ کودریافت کیاتوہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے سامنے جب حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ¾ الکریم کاذکرہوا توآپ ؓنے فرمایاکہ حضرت علیؓ سے زیادہ مسائل شرعیہ کاجاننے والاکوئی اورنہیں ہے۔اورحضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ مدینہ طیبہ میں علم ِفرائض اورمقدمات کے فیصلے کرنے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ علم رکھنے والاکوئی دوسرانہیں تھا۔اورحضرت سعیدابن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کوئی یہ کہنے والانہیں تھاکہ جوکچھ پوچھناہومجھ سے پوچھ لو۔(تاریخ الخلفائ)آپ ؓنے حضور نبی کریم ﷺ سے تقریباپانچ سوچھیاسی (586)احادیث طیبہ روایت کی ہیں۔آپؓ کے علمی نکات ،فتاویٰ اوربہترین فیصلوں کاانمول مجموعہ اسلامی علوم کے خزانوں کاقیمتی سرمایہ ہے۔آپؓ کمالِ علم وفضل،جمالِ فصاحت وبلاغت ،پُرتاثیرمواعِظ وخطابت،بے مثال فیاضی وسخاوت ،بے نظیرجرا¿ت وشجاعت اورقرابتِ رسول ﷺ میں تمام صحابہ¿ کرام میں ممتازفضیلت کے مالک تھے۔آپؓ کی شہادت: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک طویل مدت تک اہلِ ایمان کے قلوب واذہان کوقرآن وحدیث اورعلم وعرفان سے فیض یاب فرمایا۔اسلام کی راہ میں آخرعمرتک کُفَّارسے برسرِپیکاررہے۔دین اسلام کی بے مثال تبلیغ اورخدمت ہرقدم پراپنے سابق خلفائے راشدین اورصحابہ¿ کرام کی ہرممکن راہ نمائی فرمائی،اسلام کی راہ میں اپنامال ومتاع،تن،من،دھن سب کچھ قربان کردیااورآخراسلام کی خاطراپنی پیاری جان بھی قربان کردی،آپؓ فجرکی نماز کی ادائے گی کے لئے اپنے دولت خانے سے لوگوں کوآوازدیتے ہوئے مسجدکی کی طرف چلے،راستہ میں ابن ملجم چھپاہواتھااُس نے دھوکے سے ناگہاں آپ ؓکی پیشانی اقدس پرایسی تلوارماری کہ آپؓ کاچہرہ¿ مبارک کنپٹی شریف تک کٹتاچلاگیااورتلواردماغ پرجاکررُکی۔شمشیرلگتے ہی آپؓ نے فرمایا”فُزت بِرب الکعبةِ“رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا“ ۔پھرچاروں طرف سے لوگ اُس بدبخت قاتل پردوڑپڑے اورآخروہ بھاگتے ہوئے پکڑاگیااورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس زخم کی حالت میں 19رمضان المبارک جمعہ کی رات میں زخمی ہوئے اور اکیس(21) رمضان المبارک شبِ یکشنبہ 40ھ فجرکی نمازمیں عین حالت سجدہ میں آپؓ شہادت کے عظیم منصب پرفائز ہوئے اوریوں علم وفضل ،زہدوتقویٰ،فیاضی وسخاوت،جرا¿ ت وبہادری،شجاعت ودلاوری اوررشدوہدایت کاروشن وتاباں آفتاب غروب ہوگیا۔حضرت امام حسن وامام حسین وحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپؓ کوغسل دیااورحضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ۔آپؓ کے دفن سے فارغ ہوکرحضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیرالمو¿منین کے قاتل عبدالرحمٰن بن ملجم بدبخت کے ہاتھ پیرکاٹ کرایک ٹوکرے میں ڈال دیااوراس میں آگ لگادی جس سے اُس (بدبخت وجہنمی) کی لاش جل کرراکھ ہوگئی۔(تاریخ الخلفائ)چار4برس آٹھ8 ماہ نو9دن آپ ؓنے خلافت فرمائی اورتریسٹھ (63)سال کی عمرشریف میں رحلت فرمائی”اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَی±ہِ رَاجِعُون“ ۔آپؓ کامزارِمبارک:حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کورات کے وقت دفن کیاگیااورایک مصلحت سے آپؓ کامزارمبارک لوگوں پرظاہرنہیں کیاگیااس لئے وہ کہاں ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ابوبکربن عیاش کہتے ہیں کہ آپؓ کی قبرشریف کواس لئے ظاہرنہیں کیاگیاتھاکہ خارجی بدبخت کہیں اس کی بے حرمتی نہ کریں۔شریک کہتے ہیں کہ آپؓ کے فرزندحضرت امام حسن مُجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ؓکے جسم مبارک کودارالامارہ کوفہ سے مدینہ طیبہ کی طرف منتقل کردیاتھا۔مبردنے محمدبن حبیب کے حوالہ سے لکھاہے کہ ایک قبرسے دوسری قبرمیں منتقل کی جانے والی پہلی نعش حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی۔اورابن عساکرسعیدبن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیںکہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہیدہوگئے توآپؓ کے جسم مبارک کومدینہ منورہ لے جانے لگے تاکہ وہاں رسول اکرم ﷺ کے پہلوے مبارک میں دفن کریں نعشِ مبارک ایک اونٹ پررکھی ہوئی تھی رات کاوقت تھاوہ اونٹ راستہ میں کسی طرف کو بھاگ گیا اُس کاپتہ نہیں چلااسی لئے اہل عراق کہتے ہیں کہ آپؓ بادلوں میں تشریف فرماہیں ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ تلاش وجستجوکے بعد وہ اونٹ سرزمین طے میں مل گیااورآپؓ کے جسمِ اقدس کواسی سرزمین میں دفن کردیاگیا۔(تاریخ الخلفائ،ص120)