ڈاکٹر سراج الدین ندوی
عبدالباسط انورصاحب کی وفات سے تحریک اسلامی ایک جانباز سپاہی سے محروم ہوگئی
کسی شاعر نے کہا تھا :
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
ایسے ہی اچھے لوگوں میں عبدالباسط انور صاحب بھی تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ان کا انتقال 16اور17اگست 2023کی درمیانی شب میں حیدرآباد کے ایک اسپتال میں ہوا ۔حالانکہ انھوں نے دن میں ایک اجتماع میں درس قرآن دیا تھا ۔اس کے بعد ان کو کچھ بے چینی محسوس ہوئی اور انھیں اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ان کی وفات سے تحریک ایک جانباز سپاہی سے محروم ہوگئی ۔2006میںجامعۃ الفیصل (تاج پور ،بجنور)میں حلقہ اترپردیش مغرب کا اجتماع ارکان تھا ۔اس وقت عبدالباسط انور صاحب مرکز میں سکریٹری شعبہ تربیت تھے ۔میری ان سے اگرچہ حیدرآباد میں ملاقات ہوچکی تھی اور کئی دوسرے اجتماعات میں بھی ان سے استفادہ کا موقع ملا تھا ۔مگر یہاں تین دن تک وہ ہمارے مہمان و مربی رہے اور ان کے ساتھ تفصیل سے تبادلہ خیال و استفادہ کا موقع ملا۔ انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔انھوں نے تربیت کے موضوع پر بہت منفرد تقریر کی ۔جذبات ،جبلت ،فطرت وغیرہ کی تشریح کرتے ہوئے تربیت کے مراحل و اصول بیان فرمائے ۔ورنہ عموماً لوگ قرآن و احادیث کے حوالے اورقصص و واقعات سنا کر ایک دل پذیر تقریر کردیتے ہیں ۔لیکن عبدالباسط انورمرحوم کی یہ تقریر نفسیاتی پہلو لیے ہوئے تھی اور مجھے ان کا یہ انداز خطابت بہت پسند آیا ۔مولانا سے چونکہ تفصیلی ملاقات یہاں ہوچکی تھی اس لیے بعد میں فون پر اور واٹس اپ کے ذریعہ بھی برابر رابطہ رہا ۔یہ رابطہ محض سلام ودعا اور خیر و عافیت تک محدود نہ تھا بلکہ تحریکی امورو مسائل میں رہنمائی کے حصول اور ملت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اصلاً گفتگو ہوتی تھی۔وہ میری بات بہت غور سے سنتے۔بعض اوقات وہ کچھ مسائل و موضوعات پر استفسار بھی کرتے۔
عبدالباسط انور صاحب بہت خوش مزاج تھے ۔ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے ،ان کی ذات اور شخصیت بھی دل پذیر اور پر کشش تھی ۔خوبصورت چہرہ ،سڈول جسم ،قدرے کشادہ پیشانی ،آنکھوں میں پیار و محبت کی چمک،ہونٹوں پر ہر ایک کے لیے مسکراہٹ،مومنانہ گفتار اور مجاہدانہ کردار،یہ ان کی خاص پہچان تھی ۔انھوں نے مولانا عبدالرزاق لطیفی صاحب ؒ اورمولانا عبدالعزیز صاحب ؒ جیسی اہم شخصیات سے تربیت حاصل کی تھی ۔مرحوم بہت منکسر المزاج تھے ،کسی نے کبھی ان کو غصہ میں نہیں دیکھا ۔بہت مہمان نواز تھے ۔کوئی جماعتی رفیق حیدر آباد آئے اور ان کے دستر خوان سے لطف اندوز نہ ہو، یہ کم ہی ممکن ہوتا تھا۔ان کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ وہ ہر ایک سے اس طرح ملتے تھے جیسے وہ اسے برسوں سے جانتے ہوں ۔ان کے چہرے کے تاثرات اور گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ملاقاتی ان کا کوئی قریبی عزیز ہے ۔بعض لوگ تو ان کے اس رویہ پر رشک کرتے تھے بلکہ بہت سوں کی کیفیت تو اس شعر کے مصداق ہوتی تھی ۔
یہ دل بہت اداس ہے جب سے خبر ہوئی
ملتے ہیں وہ خلوص سے ہر آدمی کے ساتھ
وہ سراپا تحریک تھے ۔وہ ہر وقت تحریک کے لیے فکر مند اورسرگرم رہتے تھے ۔اس کا اندازہ ان کی اس تحریر سے ہوسکتا ہے ،جسے ہم ان کی آخری وصیت کہہ سکتے ہیں ۔میں ان کی یہ تحریر یہاں درج کررہا ہوں ،جسے پڑھ کر ارکان و کارکنان اپنا جائزہ لے سکتے ہیں ۔
’’ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے کہ حیدر آباد کی جماعت چھوٹی تھی ،دفتر چھتہ بازار میںتھا دو کمرے، سامنے دالان صحن اور ایک چھوٹا ہال جس میں لائبریری ہوا کرتی تھی۔ ارکان کی تعداد کم تھی۔ امیر حلقہ مولانا عبد الرزاق لطیفی صاحب نور اللہ مرقدہ ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام فرماتے۔ امیر مقامی کی چھوٹی سی میز ایک جانب رکھی رہتی جسے اجتماع کے وقت اندر کمرہ میں رکھ دیا جاتا۔ارکان کے ذریعۂ مَعاش بہت معمولی تھے اکثریت غریب ارکان پر مشتمل تھی۔ لیکن دل کے غنی تھے۔ اعانت بہ پابندی جمع کرتے ،بیت المال سے صرف جماعتی کاموں پر ہی خرچ ہوتا۔اکثر ارکان دوپہر کے لیے ٹفن ساتھ لاتے اور سب مل جل کر دسترخوان پر ساتھ ساتھ کھانا کھالیتے ۔سب بہت ہی خوش و خرم ،تازہ دم صرف اور صرف اقامت دین کی دھن لیے جنون کی حد تک لگتاتھا۔ بس اب چند ہی سال رہ گئے ہیں اسلامی ریاست کا مرحلہ بہت جلد آنے والا ہے۔اتنے یقین کے ساتھ رات دن گزرتے،محنت کوششیں، راتوں میں پوسٹر لگانا دعوت کا بہترین ذریعہ تھا۔کوئی ”لائی” تیار کرتا، ایک طرف لکڑی کے چولہے سے نکلتا دھواں دوسری طرف پوسٹرز گن گن کر کارکنوں کے حوالے کیے جارہے ہیں ۔مقامات کا الاٹمنٹ ہورہا ہے۔لوگ اپنی سائیکلیں تیار رکھے ہیں۔کئی قلعہ گولکنڈہ سے آیا ہے،کوئی مشیر آباد اور نہ جاے کہاں کہاں سے کارکن ہنستے مسکراتے چلے آرہے ہیں دن بھر محنت مزدوری،ملازمت تجارت کے بعد دفتر آے ہیں دوسرے دن اتوار یا چھٹی کا دن نہیں پھر واپس صبح کام پر جانا ہے یہ کوئی ”اتواری تحریک” نہیں۔ ہر دن تحریک کے لیے کام کا دن۔
ایک مرتبہ تمام ارکان کارکنان کا دو روزہ اجتماع عیدگاہ میر عالم پر رکھنا طے ہوا،محترم مولانا ابو اللیث ندوی رحمتہ اللہ علیہ امیر جماعت نے فرمایا:’’ وہاں کہیں پکوان نہیں ہوگا ۔سب آنے والے اپنے ساتھ اپنا دو روز کا توشہ ساتھ لالیں۔ ‘‘کسی نے نہیں پوچھا:’’ مولانا یہ کیسے ممکن ہے؟ ‘‘،سب اپنے اپنے توشہ کے ساتھ اجتماع گاہ میں حاضر تھے۔شاید آسمان کے فرشتے بھی حیران تھے:’’،یہ کیسے لوگ ہیں!!!‘‘ادھر اللہ نے ایسی برکتیں نازل فرمائیں کہ ہر کوئی نہال ہوگیا۔
اور آج الحمد للہ تحریک پھیل چکی ہے ارکان کی تعداد دن بہ د ن بڑھ گئی۔ صحن،دالان، بڑے ہال بھی تنگ دامنی پر حیران ہیں۔الحمد للہ سب مرفہ حال ہیں اچھی ملازمتیں،اچھے کاروبار ،ہاں !! ایک ہوا چلی تھی بہت ساروں کو تو سعودی عرب اڑا لے گئی۔مکانات عالیشان ہوئے، اعانتیں بھی بڑھیں ،دفتر حسب توفیق آفس میں تبدیل ہوئے۔فراوانی نے خوب اپنا اثر دکھایا۔وغیرہ وغیرہ
اوراب۔۔۔ جو ہے سو وہ ہمارے سامنے ہے۔۔۔۔نیند نہیں آتی !!!؟؟؟‘‘
سید عبد الباسط انور صاحب کی پیدائش 1950ء میں شہر حیدرآباد کے ایک دینی اور تحریکی گھر انے میں ہوئی۔اپنے والد کی پہل پر قائم ہونے والے تعلیمی ادارے’’ اہل سنت و الجماعت‘‘ سے میٹرک تک کی تعلیم حاصل کی اور مدھیہ پردیش سے پری یونیورسٹی کورس(PUC)کامیاب کیا۔ ڈپلومہ ان اورینٹل لنگویج(DIOL)اور بیچلر آف اورینٹل لینگویجس(BOL) کرنے کے بعد حیدرآباد کے مشہور جامعہ عثمانیہ کے نظام کالج سے بیچلر آف آرٹس(B.A) کیا اور عربی میں M.A بھی عثمانیہ یونیورسٹی سے کیا،PhD کا مقالہ علامہ رشید رضاء مصری رحمت اللہ علیہ کی تفسیر قرآن پر تیار کیا اور Submit بھی کیا تھا۔ لیکن ان کے گائڈنے فکری اختلاف کی وجہ سے آگے نہیں بڑھا یا اس لئے پی۔ایچ۔ڈی کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ مرحوم نے چند ماہ نظام کالج میں پارٹ ٹائم لکچرر کے طور پر بھی کام کیا، ابتدائی زمانے میں گھر کی ایک صنعت میں اپنے چھوٹے بھائی ابو یوسف صاحب کے ساتھ معاشی مصروفیت رہی لیکن جب جماعت کی ذمہ داری آئی تو پھر معاش کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا، اللہ نے انہیں تین بچے دو لڑکیاں مریم اور زینب ایک لڑکا انجینئر سید عبد الودود معتصم عطا فرمائے،انھوں نے بچوں کی اچھی تربیت کی ۔الحمد للہ سب بچے تحریکی کاموں میں شریک رہتے ہیں۔
عبدالباسط انور صاحب اپنے عنفوان شباب سے ہی تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے ۔وہ SIOکے نہ صرف ممبر رہے بلکہ آندھرا پردیش میں طلبہ تنظیم کی توسیع و استحکام میں ان کا کردار بہت اہم ہے ۔وہ SIOکیZACکے ممبر بھی رہے ۔ مولانا عبدالرزاق لطیفی ؒ کے دور امارت میں وہ ناظم علاقہ رہے ۔1993میں انھیں امارت حلقہ کی ذمہ داری سپرد کی گئی ۔بعد میں وہ مرکز جماعت بلالیے گئے جہاں ان کو شعبہ تربیت کا سکریٹری بنایا گیا ۔وہ ادارہ ادب اسلامی ہند سے بھی وابستہ رہے اور اس کی مجلس اعلیٰ کے ممبر بنائے گئے ۔جہاں رہے جب تک رہے اشاعت دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔انھوں نے زندگی کی تہتر بہاریں دیکھیں ۔زیادہ تر بہاریں تحریک کی نظر ہوگئیں اور بہت سے خزاں کے موسم بھی دیکھے ۔مگر کبھی مایوسی و قنوطیت کے شکار نہ ہوئے بلکہ موسم خزاں کو ہریالی بخشنے کی کوششیں کرتے رہے اور اس یوین کے ساتھ زندگی بسر کی کہ ’’ بہار آئے گی دور خزاں کے بعد‘‘
اپنی وفات کے دن بھی اللہ کی کتاب کا درس دیا ۔بہت خوش نصیب ہیں وہ روحیں جو اللہ کی طرف اللہ کا ذکرکرتی ہوئی اور اس کے بندوں کو اس کی کتاب کا پیغام پہنچاتی ہوئی واپس ہوں ۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور مغفرت فرمائے اورتمام پسماندگان کوصبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین