مستند اور غیر مستند سائنس کا فرق

0
269

 

ڈاکٹر قاضی سراج اظہر
اسوسیٹ پروفیسر
مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی
امریکہ

آجکل سوشیل میڈیا میں مختلف آیورویدی یا یونانی نسخے یا پھر کسی پھل یا مسالے کا استعمال، پینے کیلئے لیمو کا یا املی کا رس، یا گرم پانی پینے کے فوائد وغیرہ وغیرہ کی بھر مار ہے۔ ان کو ہم غیر مستند سائنسی دعوے یا جعلی سائنس (pseudoscience) کے چربے ہی کہینگے۔ یہ کسی کا دعوی، نظریہ، یا مفروضہ تو ہو سکتا ہے لیکن مستند سائنس سے انکا کوء سروکار نہیں، جب تک یہ تجربات سے ثابت نہ ہو جائیں صرف اور صرف مفروضے ہی رہیں گے۔ سائنس؛ خیالی فلسفہ یا خیالی منطق نہیں ہے اور روایتی سوچ کا نتیجہ بھی نہیں ہے بلکہ تجربات سے حقائق اور دلائل اکھٹا کرنے کا نام ہے۔ املی یا لیمو کے رس کے فوائد کے بارے میں خود ساختہ نظریہ یا دعوی تو کیا جا سکتا ہے، لیکن جب تک تجرباتی طور پر ثابت نہیں کردیا جاتا اس کی اہمیت قابلِ اعتبار نہیں رہے گی۔ پہلی اور اہم بات کسی بات کا غور سے مشاہدہ کرنا پھر جستجو اور کھوج کی بنیاد پر سوال کرنا۔ مثلاً

۱- تحقیقی سوال: Scientific question
کیا املی کے رس سے ذیابطیس دور ہو سکتی ہے؟

اب اپنی سوچ اور علم کے مطابق ایک مفروضہ تیار کرنا ہوگا۔

۲- مفروضہ: Hypothesis
میں سمجھتا ہوں املی کے رس میں ایسے کیمیاء اجزائ￿ ہیں جو شکر کی بیماری یا ذیابطیس کو دور کرتے ہیں۔

نوٹ: ہندوستان کے سوشیل میڈیا میں جتنے بھی طبی دعوے آتے ہیں وہ مفروضے کے صیغے ہی میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کا اہم مرحلہ تجرباتی تحقیق ہے۔ آج کل غیرمستند یونانی، ہومیوپیتھی، اور آیورویدی دواؤں نے ہندوستانی بھولے بھالے عوام کی صحت کو تباہ و تاراج کردیا ہے۔

۳- تجربے کی تشکیل: Designing an experiment

یہ تحقیق کا بہت ہی اہم مرحلہ ہوتا ہے جسمیں تجربات سے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ جیسے clinical trials جو چار مرحلوں میں مکمل ہوتے ہیں۔

پہلے ہمیں املی کے کیمیاء اجزائ￿ کی تحقیق کرنی ہوگی کہ کیا کوء کیمیاء سالمہ chemical molecule املی میں ہے جو شکر کی بیماری کو دور کر سکتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں ایسے آلات کا سہارا لینا ہوگا جو ان کیمیاء اجزا کا پتہ لگا سکتا ہو جیسے liquid chromatography یا پھر Gas chromatography، جب ہمیں اس کا پتہ لگ جائے تو تجربہ گاہ میں جانوروں پر تجربات کرنے ہونگے۔ جیسے چوہے جن کو ذیابطیس کا مرض ہے اْن پر دواء یا کیمیاء سالمے chemical compound کے اثرات دیکھنے ہونگے۔ اس کو کہتے ہیں animal trials یا جانوروں پر آزمائش۔ جب ان تجربات یا trials میں کامیابی حاصل ہو جائے تب انسانوں پر طبی آزمائشیں یا human trials کی اجازت مل جائیگی۔ کْل ملا کر چار طبی آزمائشیں clinical trials ہوتی ہیں، جسمیں ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کو آزمائشی دوا دی جاتی ہے۔ ان آزمائشی تحقیقات میں کچھ افراد کو غیرموثر یا placebo دوا بھی دی جاتی ہے تاکہ موثر دوا کو اچھی طرح سے پرکھا جا سکے۔ اسکو double blind study کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے طبی تحقیق clinical research کوء چند پتوں، چھالوں، جڑوں اور پھلوں کو کْوٹ کر یا انکا رس نکال کر دوا بنانے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک منظم تحقیق ہوتی ہے۔ جب کہیں جاکر ایسی دوائیں بنتی ہیں جن کے اثر سے بیماری کا ازالہ ہوتا ہے اور مریض صحت یاب ہوتے ہیں، جیسے ذیابطیس کے مریض کو افاقہ ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا تحقیقات میں ہر مرحلے پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ یعنی دواء سالمہ کو الگ کرنے سے لیکر طبی آزمائشوں تک ہر مرحلے پر تحقیقی مقالے لکھنے ہوتے ہیں جسمیں دوا کے بیماری پر مفید اور مضر اثرات کا معائنہ کیا جاسکے۔ اْنکے اعداد و شمار یعنی data اکھٹا کیا جاتا ہے۔ یہ کوء ایک دن کا کام نہیں اسمیں کء مہینے اور برس بھی لگ سکتے ہیں۔ ٹیکہ یا vaccine کیلئے بھی اسی سائنسی طریق? کار scientific method کا استعمال ہوتا ہے۔

۴۔ نتیجہ: تحقیقی نتائج اعداد وشمار (data) میں حاصل کئے جاتے ہیں۔ پھر اْن کا تجزیہ (data analysis) کیا جاتا ہے۔
یہ تجربات مختلف مدارج سے ہوکر گذرتے ہیں۔

۵۔ آخر میں نتیجہ اخذ conclusion کیا جاتا ہے کہ املی کے کیمیاء مرکبات میں کوء ایسا عنصر ہے جو مختلف انسانی بیماریوں میں شفا بخش ہوتا ہے یا نہیں۔

طریق? سائنس

1- جو مستند یا حقیقی سائنس ہے وہ طریق? سائنس (Scientific Method) کا استعمال کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتی ہے۔

۲۔ غیر مستند یا نقلی یا جعلی سائنس صرف قیاس پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں دلیل کے طور پر نتائج یا اعداد وشمار (data)پیش نہیں کئے جاتے۔

۳- حقیقت پر مبنی سائنس میں تحقیقی مقالات کے حوالا جات ہوتے ہیں۔ مثلاً سائنسی تحقیقی جرائد میں چند انفلوئنزا مرض پر تحقیقی مضامین شائع ہوئے.

1. Lamb, R.A., Zebedee, S.L. & Richardson, C.D. Influenza virus M2 protein is an integral membrane protein expressed on the infected-cell surface. Cell 40, 627–633 (1985).
2. Zebedee, S.L. & Lamb, R.A. Influenza A virus M2 protein: monoclonal antibody restriction of virus growth and detection of M2 in virions. J. Virol. 62, 2762–2772
3. Ito, T., Gorman, O.T., Kawaoka, Y., Bean, W.J. & Webster, R.G. Evolutionary analysis of the influenza A virus M gene with comparison of the M1 and M2 proteins. J. Virol. 65, 5491–5498 (1991).

اگر ان حوالاجات کو دیکھیں تو پتہ چلے گا پہلے محقق کے نام لکھے گئے ہیں، پھر تحقیق کا عنوان، اسکے بعد تحقیقی رسالے کا نام، جلد نمبر، ابتدا سے آخر تک صفحات کے اعداد بتائے گئے ہیں۔ آخر میں تحقیقی مقالے کی سنہ اشاعت۔

۴۔ صرف مستند سائنسی تحقیق ہی کو دنیا کے نامور سائنسی جرائد یا مجلّوں میں جگہ دی جاتی ہے، ان رسائل کی ادارت یا مشاورت کمیٹی مشہور و معروف سائنسدانوں کی نگہبانی میں ہوتی ہے۔ اشاعت کیلئے آئیتحقیقی مقالات پر بہت سختی سے جانچ پڑتال ہوتی ہے، جسکے بعد ہی انکو شائع کرنے کی منظوری ملتی ہے۔

اب آئیے املی کے رس والی دوا کی جانب۔ کیا اس پر اوپر بتلاء گء تحقیقات یا آزمائیشیں ہوئیں؟ ان تحقیقی مقالوں کے حوالا جات کہاں ہیں؟ عموماً جب غیرمستند سائنسی دعوے پیش کئے جاتے ہیں تو اْن جَڑی بْوٹی دواؤں سے کء امراض کا مکمل علاج بتلایا جاتا ہے، جیسے کھانسی زکام، بلڈپریشر، دل کا عارضہ، سے لیکر کینسر کا کامیابی سے علاج جیسے یہ کوء جادوء نسخے ہوں۔ وڈیو میں املی کے رس سے جگر کی بیماریوں کا علاج بتایا گیا ہے جسمیں جگر سے چکناء دور کرنے کی بات کہی گء ہے۔ ان کے تحقیقی مقالے اور حوالہ جات کہاں ہیں۔ یہ املی کا رس جگر کو بیس سالہ نوجوان بنا دیتا ہے اسکو کیسے جانچا گیا؟ کیا تمام جگر کے امراض کا اس سے علاج ہوسکتا ہے؟ آپ نے اْن جگر کی بیماریوں کی مکمل فہرست کیوں نہیں دی جن پر تحقیق ہوء اور اْن کے تحقیقی مقالے کہاں ہیں؟ املی کا رس ہمارے جسم سے زہریلے مادوں کو نکلتا ہے، برائے ثبوت تحقیقی مقالے پیش کیجئے۔ کولیسٹرال کو املی کا رس کیسے کم کرتا ہے؟ تجربات سے ثابت کیا ہوگا تو تحقیقات کا حوالہ دیجئے۔ آخر میں ایک فہرست دی گء ہے جس میں املی کے رس اور اسکے فوائد گنوائے گئے ہیں۔

۱- یہ ہاضمہ درست کرتا ہے
۲- وزن کم کرتا ہے۔
۳- کینسر دور کرتا ہے
۴- دل کو قوی بناتا ہے
۵۔ زخم مندمل کرتا ہے
۶- صحت مند جِلدبناتا ہے
۷- کلیجے یا جگر کے امراض دور ہوتے ہیں
۸- جلد کو تندرست رکھتا ہے
۹۔ چھوٹی آنت کا زخم مندمل کرتا ہے
۰۱۔ سردی زکام اور دمے کی بیماریاں دور ہوتی ہیں

غرض لگتا تو ہے اس املی کے رس سے کیا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر گھر میں ایک املی کا درخت ضرور ہوتا۔ لوگ دوسری ادویات کھانے کے بجائے املی کھاتے۔ املی کا رس، املی کا مربہ، املی کی چٹنی، املی کا اچار، اور املی کا سالن۔ یعنی ہر شخص اس املی کی کھٹاس میں ڈوبا نظر آتا۔ لوگ کڑوی اور میٹھی باتوں کے بجائے املی کی طرح کھٹِّی کھٹِّی باتیں کرتے۔ حاملہ عورتوں کے علاوہ ہر کسی کو کھٹی املی پسند ہوتی، اور تو اور دانت کھٹّے کرنا تو روز کا معمول بن جاتا۔ شاعر املی کے قصیدے لکھتے، نثر نگار املی سے اپنی تحریروں کو کھٹاس میں انڈھیل دیتے۔

‘‘اور کیا چاہئیے بس ہمیں صرف املی کے سوا’’

اب چلئے بہت ہوگیا ہنسی مذاق، تھوڑی سنجیدہ بات بھی ہوجائے۔ اوپر لکھے تمام دس کے دس مفروضات ہیں یعنی صرف خیالی زبانی دعوے۔ یہ سائنسی طریق? تحقیق سے ثابت شدہ نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو اْنکے تحقیقی مقالوں کے حوالاجات دئیے جاتے۔ ایسی غیر تحقیقی نسخوں پر عمل کرنا اپنی بیماریوں کو اور بڑھانا ہے یا انکے مضر اثرات side effects سے اپنے آپ کو یا کسی اور کو مزید جوکھم میں ڈالنا ہے۔ میری آپ تمام سے مودبانہ گذارش ہے کہ ایسے غیر مستند جھوٹے سائنسی نسخوں سے پرہیز کریں، اپنی اور دوسروں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یاد رکھیں املی کے کیمیاء اجزائ￿ میں، tartaric acid 8-18%, sugars 24-25%, pectin 2-3.5%, proteins 2-3%, and other acids malic, succinc, citric, and quinic are present in the tamarind pulp

اگر ہم املی کا رس زیادہ مقدار میں استعمال کریں گے تو اس میں پائے جانے والے ترشے گردوں اور جگر پر مضر اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ پھر اسمیں شکر کی بھی اچھی خاصی مقدار ہے جو ذیابطیس کے مریضوں میں خون اور پیشاب میں شکر کی مقدار کو بڑھا دے گی۔ جس سے گردے خراب ہونگے اور ایسے افراد کو dialysis کے چکر لگانا ہوگا۔ اپنی اور دوسروں کی صحت کو مجروح کرنا غیر اخلاقی، غیر دینی اور قابلِ جرم حرکت ہے۔ ایسے وڈیوز یا مراسلات کو فارورڈ نہ کریں جب تک کے آپ مکمل پتہ نہ کرلیں کہ یہ مستند تحقیق کا نتیجہ ہیں۔

آخر میں ایک سائنس فیر پراجیکٹ دینا چاہتا ہوں۔ جن حضرات کو شکر یا ذیابطیس کی بیماری ہے اْن کو املی کا رس مختلف مقدار میں دے کر glucometer سے شکر کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اسمیں املی کی مختلف مقدار آزاد متغیر (independent variable) ہوگی اور شکر کی پیمائش تابع متغیر dependent) variable) ہوگی۔ کنٹرول کے طور پر آپ صحت مند اشخاص کو لیں جن کو ذیابطیس کی بیماری نہیں ہے۔ ان کے نتائج جمع کریں اور پھر معلوم کریں املی کے رس سے خون اور پیشاب کی شکر میں کیا تبدیلی آئ۔ کیا یہ بڑھتی یا گھٹتی؟ ہاں بہت ہی اہم بات، جب آپ یہ تجربہ کریں تو تجربے کے وقت ڈاکٹر موجود ہونا چاہئیے۔ ورنہ خون میں شکر بڑھنے سے جان لیوا کیفیت hyperglycemic coma بھی ہو سکتی ہے۔

وَمَا عَلَ??نَا ?ِلَّا ال?بَلَاغْ ال?مْبِ?نْ
اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے (اللہ کا پیغام) صاف صاف پہنچا دینے کے.

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا