ملازمت کے میدان میں خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا

0
0

 

 

مہیما جوشی
باگیشور، اتراکھنڈ

خواتین، جو پیدائش سے ہی صنفی امتیاز کا شکار ہیں، انہیں ملازمت کے میدان میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت ہو یا تنخواہ، دونوں صورتوں میں یہ امتیاز نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ آج بھی، ملک میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت کے پیچھے امتیازی سلوک ایک اہم عنصر ہے۔ جولائی 2020 سے جون 2021 کے لیے اعداد و شمار اور پروگرام کے نفاذ کی مرکزی وزارت کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کے لیے لیبر فورس میں شرکت کی شرح (لیبر فورس پارٹیسیپشن ریٹ) کے مطابق مردوں کے لیے 57.5 فیصد کے مقابلے میں خواتین کا صرف 25.1 فیصد ہے۔آج بھی صنعتی شعبوں میں خواتین کو مردوں سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہی نہیں روزگار کے مواقع میں بھی مردوں کو خواتین پر ترجیح دی جاتی ہے۔ معاشی میدان کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی خواتین کو کمائی میں شریک نہیں سمجھا جاتا۔ انہیں کم حصہ دیا جاتا ہے۔
درحقیقت خواتین میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں کم تعلیم اور بیداری کی کمی اس کے اہم عوامل ہیں۔ اس صنفی عدم مساوات کی بنیادی وجہ پدرانہ نظام ہے۔ یہ امتیاز شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ دیکھا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال اتراکھنڈ کا لاما بگڈ گاؤں ہے۔ باگیشور ضلع سے تقریباً 19 کلومیٹر دور کپکوٹ بلاک میں واقع اس گاؤں کی آبادی تقریباً 1500 ہے۔ اس شیڈیولڈ ٹرائب اکثریت والے گاؤں میں، روزگار کے معاملے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان آمدنی میں بہت فرق ہے۔ یہاں مردوں کی آمدنی عورتوں کے مقابلے میں اوسطاً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ تاہم اس گاؤں میں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں۔ کچھ خواتین بیوہ ہونے اور مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے ملازمت بھی اختیار کرتی ہیں۔ لیکن جتنی محنت وہ کرتی ہیں اس کے مقابلے میں انہیں اتنی آمدنی نہیں ملتی۔ جس کی وجہ سے وہ روزگار کے ساتھ دوسرے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
اس حوالے سے گاؤں کی ایک خاتون 47 سالہ گووندی دیوی کا کہنا ہے کہ ’’میں اپنے تین بچوں کے ساتھ ممبئی کام کرنے گئی تھی۔ وہاں دن رات کام کرنے کے باوجود مجھے اچھی تنخواہ نہیں ملی۔ کبھی کبھار، اگر میں کام پر دیر سے پہنچی یا کوئی کام میں غلطی ہوئی تو مجھے دوبارہ وہی کام کرنے کو کہا جاتا تھا، وہاں کی تنخواہ میرے گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتی تھی، میرے شوہر بھی شہر میں کام کرتے ہیں، اچھا کام نہ ملنے کی وجہ سے ہم گاؤں واپس آ گئے، میں بھی یہاں کام کرتی ہوں، لیکن مجھے اپنے کام کے لیے بہت کم پیسے ملتے ہیں، جس کی وجہ سے گھر کے اخراجات اور بچوں کی پڑھائی پوری نہیں ہوتی۔‘‘ 25 سالہ منورما دیوی کا کہنا ہے کہ ’’آج کے پڑھے لکھے نوجوان جن میں لڑکیاں اور خواتین بھی شامل ہیں، سرکاری ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ملازمت کے محدود مواقع کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان، لڑکیاں اور خواتین اسے حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جس کے بعد وہ یہ راستہ اختیار کرتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی خود روزگار شروع کر دیں، اس سے نہ صرف وہ خود انحصار ہو گی بلکہ وہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر سکے گی۔میں نے کپڑوں کی سلائی شروع کی ہے۔ مجھے تہواروں میں بہت کام آتا ہے جس کی وجہ سے مجھے اچھی آمدنی ہوجاتی ہے۔‘‘
آمدنی کے معاملے میں گھر کے اندر بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے 44 سالہ مایا دیوی کا کہنا ہے کہ ’گھر کی حالت دیکھ کر مجھے بھی لگتا ہے کہ باہر جاکر کوئی کام کروں لیکن ہمیں ہماری محنت کے مقابلے میں کم معاوضہ ملتا ہے جس کی وجہ سے میں نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ باہر جانے اور کام کرنے کا بھی دل نہیںکرتا ہے۔ جو آمدنی ہمیں ملتی ہے اس پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ مایا دیوی کہتی ہیں کہ ہمارے گاؤں کی خواتین بچپن سے ہی صنفی امتیاز کا شکار رہی ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں گھریلو فیصلے لینے سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔ تاہم ہم میں اتنی ہمت ہے کہ ہم خود کام کر کے کھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ حقدار ہیں۔ خواتین کو معاشرے میں آزادی اور مناسب مقام ملے تو وہ بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ لیکن پدرانہ معاشرے میں وہ صنفی امتیاز کا شکار رہتی ہے۔
58 سالہ مادھوی دیوی کا کہنا ہے کہ ’’اپنے شوہر کی موت کے بعد مجھے روزگار کے لیے گھر چھوڑنا پڑا، مجھے ہر قدم پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ میں جو کام کرتی تھی وہ بھی مرد ہی کرتے تھے، لیکن وہاں تنخواہ کے معاملے میں واضح امتیاز کیا جاتاہے ۔ مردوں کو مجھ سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا تھا لیکن اب میں کام نہیں کرتی کیونکہ ہم خواتین کو کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب میں اسکول میں باورچی کا کام کرتی ہوں اگر ہمارا معاشرہ تھوڑا سا بھی باشعور اور سمجھدار ہو جائے تو خواتین اپنی جگہ بنا سکتی ہیں اور کام کرنا شروع کر سکتی ہیں۔کچھ باشعور مرد بھی ملازمت کے میدان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے صنفی امتیاز کو محسوس کرتے ہیں۔اس حوالے سے 49 سالہ پرکاش چند جوشی کا کہنا ہے کہ میں کام کرتاہوں۔ جہاں مجھے اچھے پیسے ملتے ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ملازمت کرنے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ تاہم یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق تنخواہ ملنی چاہیے۔
اس سلسلے میں لاما بگڈ کے 29 سالہ نوجوان سرپنچ گریش سنگھ گدھیا کا کہنا ہے کہ ’’میں گاؤں میں روزگار لانے میں کوئی امتیاز نہیں کرتا، میں مرد اور خواتین دونوں کو یکساں طور پر کام فراہم کرتا ہوں۔ گاؤں میں روزگار سے ہونے والی آمدنی طے ہے کہ جو سب کو ملتا ہے وہ ایک جیسا ہوتا ہے، چونکہ کام مختلف ہوتا ہے اس لیے پیسے بھی اسی طریقے سے دیے جاتے ہیں۔‘‘ گریش سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسی اسکیم چلانی چاہیے جس میں ملازمت یا دیگر شعبوں میں خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کی روک تھام ہو۔ دیہی علاقوں میں صنفی امتیاز کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیہاتیوں کو بھی بیدارکیا جائے۔ بہت سی خواتین اپنے حقوق سے بیدار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں امتیاز اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا