مفتی محمدسعید نے 2002 میں وزیراعلیٰ بننے کیلئے میری دریادِلی کا غلط استعمال کیا:آزاد

0
0

اپنی سوانح عمری میں کہاسابق کانگریسی ہونے کے ناطے ان پر بھروسہ کیا اور ان کی یڑھی چال کو نہیں دیکھا
لازوال ڈیسک

جموں؍؍جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے دعویٰ کیا ہے کہ مرحوم مفتی محمد سعید نے 2002 میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بننے کیلئے میری سخاوت کا غلط استعمال کیا۔اپنی کتاب آزاد، ایک خود نوشت میں، غلام نبی آزاد نے کہا کہ انہوں نے2002میں مفتی محمد سعید کو حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی جب ان کے پاس (آزاد کے پاس) وزیر اعلیٰ بننے کے لیے 42ممبران اسمبلی کی حمایت کا خط تھا۔انہوںنے لکھاکہ ہاتھ میں 42ممبران اسمبلی کی حمایت کے خط کے ساتھ، میں نے گورنر کو ٹیلی فون کیا، اور انہوں نے مجھے اگلے دن حلف برداری کی تاریخ پر بات کرنے کے لئے مدعو کیا۔ آزاد کا دعویٰ ہے کہ میں نے سونیا جی کو ٹیلی فون پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔ وہ یہ سن کر خوش ہوئیں کہ میں اب حکومت سازی کا چارج سنبھال رہا ہوں۔انہوںنے آگے لکھاکہ گورنر سے ملاقات سے چند گھنٹے پہلے، صبح 8 بجے کے قریب، میں سری نگر میں ہوٹل براڈوے کے اپنے کمرے کی بالکونی میں تھا، ایک دوست، کانگریس مین اور سپریم کورٹ کے وکیل اشوک بھان کے ساتھ چائے پی رہا تھا، جب ایک خیال آیا۔ مجھ کوشاید یہ جذبات سے کارفرما تھا۔ میں نے اشوک بھان سے کہا کہ مجھے مفتی محمدسعید کی پارٹی سے حکومت میں شامل ہونے کیلئے کہنا چاہیے۔ میری ان(مفتی سعید) کے ساتھ طویل خاندانی رفاقت تھی، جسے میں نے کانگریس سے الگ ہونے کے بعد بھی برقرار رکھا تھا۔ غلام نبی آزاد نے کہا کہ اگرچہ مجھے حکومت بنانے کیلئے ان کی حمایت کی ضرورت نہیں تھی، لیکن مجھے یقین تھا کہ ان کے ساتھ حکومت مزید مستحکم ہوگی اور بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ(مفتی محمدسعید) وہ کانگریسی رہ چکے ہیں، اور ان کے ممبران اسمبلی کو حکومت میں شریک کیا جا سکتا ہے۔غلام نبی آزاد کا مزید کہنا ہے کہ مفتی محمدسعید نے انہیں یہ کہتے ہوئے انتظار کروایا کہ انہیں تجویز پر غور کرنے کے لیے تین چاردن درکار ہیں۔غلام نبی آزاد کے بقول میں نے مفتی کو ٹیلی فون کیا اور انہیں بتایا کہ میں گورنر سے صبح 11 بجے ملاقات کروں گا، میں نے مشورہ دیا کہ ان کی پارٹی حکومت کا حصہ بن سکتی ہے اور ان سے کہا کہ وہ مجھے اپنی پارٹی کے پانچ چھ MLAs کے نام بتائیں جنہیں وزیر بنایا جا سکتا ہے۔آزاد کے بقول مفتی سعید نے کہا کہ یہ ایک اچھا خیال تھا اور فوراً مجھے ناشتے پر مدعو کیا اور کہا کہ میں ان کیساتھ ناشتہ کرنے کے بعد راج بھون جا سکتا ہوں،میں نے آسانی سے اتفاق کیا۔ غلام نبی آزاد نے کتاب میں آگے لکھاکہ میں نے مفتی محمدسعید کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ناشتہ کیا اور اپنی پیشکش دہرائی۔ مفتی نے میری بات سنی اور کہا کہ وہ اس پر سوچنے کے لئے تین چار دن چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ میں گورنر کے ساتھ اپنی ملاقات اس وقت تک مؤخر کر دوں۔سابق وزیر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مفتی محمدسعید پر بھروسہ کیا اور ان کی کج روی کو نہیں دیکھا۔غلام نبی آزاد کے بقول مجھے اس وقت ان کے گیم پلان کو دیکھنا چاہیے تھا اور حلف برداری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ آخرکار ان کی پارٹی بعد میں حکومت میں شامل ہو سکتی تھی۔ لیکن میں نے اْس پر مکمل بھروسہ کیا اور اْس کی کج روی کو نہیں دیکھا۔ مجھے کیسے معلوم تھا کہ وہ ہمارے ذاتی تعلقات کو ہوا میں پھینک دے گا اور میری فیاضی کا غلط استعمال کرے گا! میں نے گورنر سے ملاقات کی اور انہیں اس صبح مفتی محمدسعید کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں بتایا، انہیں یہ بھی بتایا کہ میں تین چار دن کے بعد ان کے پاس واپس آؤں گا۔غلام نبی آزاد کا آگے کہناتھاکہ مفتی محمدسعید نے اپنی حکومت میں شرکت کی تصدیق اس وقت کی جب وہ اور راجیہ سبھا میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سری نگر میں ان سے ملاقات کی۔انہوںنے کہاکہ میں دہلی واپس آیا اور سونیا جی کو ساری کہانی سنائی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ راجیہ سبھا میں اس وقت کے ایل او پی ڈاکٹر منموہن سنگھ اور میں سرینگر جائیں گے اور پی ڈی پی لیڈر سے ملاقات کریں گے تاکہ ان کی پارٹی کو حکومت میں شامل کیا جائے۔ اگلے دن، ڈاکٹر سنگھ اور میں سری نگر گئے اور مفتی محمدسعید کے ساتھ لنچ کیا، جس کے دوران انہوں نے حکومت میں اپنی پارٹی کی شرکت کی تصدیق کی۔غلام نبی آزاد کے مطابق، نئی دہلی میں سونیا گاندھی کی طرف سے اتحاد کا اعلان کرنے کے لئے بلائی گئی میٹنگ کے دوران مفتی محمدسعید مشتعل ہو کر اٹھے جب ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی پارٹی سے پانچ چھ ممبران اسمبلی کے نام بتائیں جنہیں وزیروں کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔غلام نبی آزاد کے مطابق اس کے بعد سونیا جی نے مفتی کو اتحاد کے حتمی اعلان کے لیے دہلی مدعو کیا۔ میں بھی میٹنگ میں موجود تھا۔ مفتی محمدسعید نے کانگریس صدر اور میرا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے حکومت میں ان کی پارٹی کی شرکت سے اتفاق کیا۔ لیکن جب ان سے ان کی پارٹی کے نام پوچھے گئے جو میری حکومت کا حصہ ہو سکتے ہیں تو وہ اچانک غصے میں اٹھے اور بولے،میں نے سوچا کہ مجھے وزیر اعلیٰ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔سونیا جی اور میں حیران رہ گئے۔ اور کہا کہ ہماری طرف سے کسی بھی موقع پر ایسا کوئی اشارہ یا یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ مفتی محمدسعیدنے تقریباً چیخ کر کہا کہ ان کو توہین کیلئے انہیں دہلی بلایا گیا ہے۔ مجھے کیوں بلایا؟ مجھے ٹیلی فون پر اطلاع دی جا سکتی تھی۔ یہ واضح تھا کہ وہ حکومت کو ہائی جیک کرنا چاہتا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے خود مداخلت کی اور سونیا گاندھی سے درخواست کی کہ اقتدار کی تقسیم کا ایک ایسا انتظام کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے میںپہلے تین سال وزیر اعلیٰ اور اگلے تین سال مفتی محمدسعید رہیں گی۔غلام نبی آزاد نے آگے لکھاہے کہ جب معاملات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے تو میں نے مداخلت کی اور سونیا جی سے درخواست کی کہ کوئی ایسا انتظام کیا جائے جس کے ذریعے میں پہلے تین سال کے لئے وزیر اعلیٰ رہوں اور مفتی محمدسعید اگلے تین سالوں کے لئے اقتدار سنبھال سکیں ۔ اس طرح سب خوش ہو جائیں گے۔ تاہم، مفتی محمدسعیدنے پہلے تین سال وزیراعلیٰ رہنے پر اصرار کیا۔ سونیا جی کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں نے ایک بار پھر ان سے درخواست کی کہ ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہمیں ان کے مطالبے سے اتفاق کرنا چاہیے۔ اس طرح مفتی محمدسعید، جن کی پارٹی صرف 16ممبران اسمبلی کے ساتھ انتخابات میں تیسرے نمبر پر آئی تھی، وزیراعلیٰ بن گئے۔2002 کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے28، کانگریس نے 20 اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 16 نشستیں حاصل کیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا