معروف بین الاقوامی شاعر منور رانا

0
422

محمد ہاشم القاسمی
9933598528

اردو کے معروف بین الاقوامی شاعر و ادیب منور رانا کا 14 جنوری 2024 اتوار کی رات لکھنؤ کے ایس جی پی جی آئی اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ وہ 71 سال کے تھے۔ منور رانا گزشتہ کئی ماہ سے علیل چل رہے تھے اور ایس جی پی جی آئی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ کینسر، گردے اور دل کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ منور رانا کا اصل نام سید منور علی ہے۔ وہ 26 نومبر، 1952 کو اتر پردیش کے مردم خیز خطے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید منور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون ہے۔ منور رانا کی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج، رائے بریلی میں ہوئی۔ آگے کی تعلیم کے لیے منور رانا لکھنؤ چلے آئے جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران انھوں نے وہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں مضبوط کیں۔ اس کے بعد ان کے والد نے، جو روزگار کے پیش نظر کلکتہ منتقل ہوگئے تھے، انھیں 1978 میں کلکتہ بلا لیا، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجویشن کی ڈگری کلکتہ کے ہی امیش چندرا کالج سے حاصل کی۔ منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے میں ان کے ادب نواز دادا سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہد طفلی میں دوسروں کی غزلیں یاد کرواتے اور باقاعدہ پڑھوایا کرتے تھے تاکہ اردو ادب میں ان کی دلچسپی استوار کیا جا سکے، جس نے آگے چل کر حقیقت کا روپ دھار لیا۔ شاید اسی ریاضت کا نتیجہ تھا کہ منور رانا کو ہزارہا اشعار مختلف شعراء کے ازبر یاد تھیں۔ زمان طالب علمی ہی سے شاعری کرنے والے۔ منور رانا نے کچھ افسانے اور منی کہانیاں بھی لکھیں جو کئی مقامی اخباروں میں شائع ہوتی رہیں. اس طرح میدان شعر و سخن کے ابتدائی دنوں میں وہ پروفیسر اعزاز افضل کے حلق تلمیذ میں شامل ہوگئے اور ان سے اکتساب فیض کیا اور اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلہ میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور راز الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انھوں نے جب والی آسی? سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے 1977 میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدل دیا اور ’’منورررانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداں اور پھر منور رانا بننے تک پورے 9 سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس مدت میں انھوں نے مشق سخن جاری رکھی اور اپنی فکر کی پرواز کو اوج کمال تک پہنچایا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘آغاز’ 1979 میں شائع ہوا۔ منور رانا ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ بہت سے لوگوں کو ان کی شاعری کے مقابلے میں ان کی نثر زیادہ پسند ہے۔منور رانا کی شاعری کا امتیاز یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اسے بڑی دلیری اور برجستگی سے پیش کرتے ہیں۔ وہ اظہار خیال کے لیے اپنی غزلوں کے الفاظ و بیان میں ملمع سازی سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنی زندگی کے تجربات ، حادثات اور عصر حاضر کے مشاہدات کو نہایت سلیقے اور جرات مندی سے قارئین و سامعین تک اپنے اشعار کے ذریعے پیش کرتے تھے۔ شاید یہی خصوصیت ان کی کامیاب شاعری کی ضامن تھی . اپنے عہد کے ایک مقبول ناظم مشاعرہ جناب انور جلالپوری نے اپنی کتاب "روشنائی کے سفیر” میں رقمطراز ہیں "منور رانا نے اپنی ادبی حیثیت خود بنائی۔ خدا نے ان کے علمی شعور میں ایسی صفت بخش دی جو خس و خاشاک کو زعفران اور سوکھی ہوئی لکڑی کو عود کے مدِ مقابل ٹھہرا دے۔” منور رانا کے دوست اور لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق استاد پروفیسر عصمت ملیح آبادی ان کی نثر کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منور رانا کی نثر میں ادبیت ہے مگر شاعری میں نہیں۔منور رانا اور عصمت ملیح آبادی دونوں لکھنؤ کے استاد شاعر والی آسی کے شاگرد رہے ہیں۔ان کے انتقال پر مختلف شخصیات کی جانب سے اظہارِ تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ دہلی اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے ان سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ان کے انتقال سے انہیں دھچکہ لگا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشاعرے میں منور رانا کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ ان کا ایک مخصوص لب و لہجہ، مخصوص لفظیات تھیں، ان کی سوچ منفرد تھی اور پورا عہد ان کی نگاہوں میں تھا۔ وہ ہم عصر مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے تھے۔ خالد محمود نے ‘ماں’ پر لکھے گئے منور رانا کے اشعار کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بعد بہت سے شعرا نے ماں پر اشعار کہے۔ ماں پر ان کے اشعار ان کی شخصیت کی شناخت بن گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منور رانا کو مشاعروں میں مقبولیت تو خوب ملی لیکن ان کی کوئی ادبی حیثیت قائم نہیں ہو سکی۔ البتہ اگر ان کی نثر پر کام ہوا تو اس سے انہیں ایک ادبی حیثیت ضرور حاصل ہوگی”۔ عہد حاضر کے معروف ناظم مشاعرہ اور صحافی معین شاداب کے مطابق منور رانا نے غزل کو معصومیت اور تقدس عطا کیا اور وہ صنف نازک جس سے غزل صدیوں سے مکالمہ کرتی آ رہی ہے، اسے انہوں نے صرف محبوبہ ہی نہیں بلکہ ماں، بیٹی، بہن اور بہو کے طور پر بھی شناخت بخشی”۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ” منور رانا کے انتقال سے دکھ پہنچا ہے۔ اردو شاعری کے لیے ان کی زبردست خدمات ہیں۔ وہ ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہیں”۔
کانگریس پارٹی نے ان کے انتقال کو ایک عہد کے خاتمے سے تعبیر کیا۔ پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں رنج و غم کے اظہار کے ساتھ ان کے حق میں دعا کی گئی ہے۔
اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے انہی کا ایک شعر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ” تو اب اس گاؤں سے رشتہ ہمارا ختم ہوتا ہے، پھر آنکھیں کھول لی جائیں کہ سپنا ختم ہوتا ہے”. شاعری کے علاوہ ان کی نثر میں بھی جان اور نیا پن ہے۔ان کی شاعری کے دیوانے ان کی نثری کتابوں کو بھی سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔انہوں نے خوبصورت نثر ، دلکش اسلوب اور حسین انداز میں جو برزگوں کے مرقعے کھینچے وہ لاجواب ہیں۔ منور رانا کے اردو شعری مجموعے: نیم کا پھول (1993)، کہو ظل الٰہی سے (2000)، منور رانا کی سو غزلیں (2000)، گھر اکیلا ہوگا(2000)، ماں (2005)، جنگلی پھول (2008)، نئے موسم کے پھول (2009)، مہاجر نامہ (2010)، کترن میرے خوابوں کی (2010)ہندی شعری مجموعے: غزل گاو?ں ( 1981)، پیپل چھاوں( 1982)، مور پاوں(1987)، سب اس کے لیے(1989)، نیم کے پھول (1991)، بدن سرائے(1992)، گھر اکیلا ہوگا(2000)، ماں (2005)، پھر کبیر(2007)، شہدابہ(2012)، سخن سرائے (2012)۔ منور رانا کے نثری تصانیف: بغیر نقشے کا مکان(2000)، سفید جنگلی کبوتر(2005)، چہرے یاد رہتے ہیں(2008)، ڈھلان سے اترتے ہوئے، پھنک تال، شامل ہیں. ان کے ہندی شعری مجموعوں میں غزل گاؤں (1981ئ)، پیپل چھاؤں (1984ء )، مور پاؤں (1987ئ)، سب اس کے لیے (1989ئ)، نیم کے پھول ( 1991ئ) ،ء )، پھر کبیر (2007ء ) ، شادابہ ( 2012ء ) اور سخن سرائی (2012ئ) چھپ کر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرچکے ہیں. منور رانا کو حاصل ہونے والے اعزازات و ایوارڈ: ساہتہ اکادمی ایوارڈ جسے واپس کردیا تھا اس کے بعد کوئی ایوارڈ قبول نہیں کیا۔ اس سے قبل رئیس امروہوی ایوارڈ، رائے بریلی، بھارتی پریشد پریاگ ایوارڈ الہٰ آباد، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ، سرسوتی سماج ایوارڈ، بزم سخن ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، شہود عالم آفاقی ایوارڈ، غالب ایوارڈ، الہٰ آباد پریس کلب ایوارڈ، کویتا کا کبیر سمان و اپادھی، امیر خسرو ایوارڈ، جنگ ایوارڈ کراچی، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، سلیم جعفری ایوارڈ، مولانا ابوالحسن ندوی ایوارڈ، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ، کبیر ایوارڈ، حضرت الماس شاہ ایوارڈ، ایکتا ایوارڈ، میر ایوارڈ. عالمی شہرت یافتہ شاعر منوررانا کی 15جنور بعد نماز ظہر تدفین عمل میں ائی۔ان کی وصیت کے مطابق، انہیں لکھنوکے عیش باغ قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ ندو العلما میں ادا کی گئی جو مولانا جعفر حسنی نے پڑھائی. پسماندگان میں بیوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں، ان کے علاوہ لاکھوں اردو شعر و ادب کے شیدائی.

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا