مرکز ہی نہیں اقلیتی اداروں کے معاملے میں دہلی حکومت کی نیت بھی ٹھیک نہیں

0
0

نئی دہلی، //دار الحکومت دہلی میں موجود اقلیتی اداروں کا قیام اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فیض پہنچانے کے مقصدسے کیا گیا تھا لیکن آج ان اداروں کو پوری طرح سے نظر انداز کیا جارہا ہے عوام کو اُمید یں تھیں کہ موجودہ مرکزی و ریاستی حکومت ان اداروں کی ترقی کیلئے نئے منصوبے تیار کریں گے اور دوگنی رفتار سے کام کیا جائے گا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اقلیتی اداروں کا کام کاج پوری طرح سے ٹھپ پڑا ہوا ہے اور کوئی ان کا پر سان حال نہیں ہے ۔

ان اداروں میں سے ایک ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان ( این سی پی یو ایل ) ہے جہاں سے اُردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے بڑا کام انجام دیا جاتا ہے مگر گزشتہ دو برس سے مرکزی حکومت نے اس کی گورننگ باڑی تشکیل نہیں دی ہے جس کی وجہ سے ادبی سرگرمیاں بند پڑی ہیں اور اُردو کی ترقی و تر ویج کا کام بہتر طریقے سے نہیں ہو پا رہا ہے ۔علاوہ ازیں (این سی پی یو ایل ) کے مستقل ڈائر یکٹر نہ ہونے سے ادارہ پوری طاقت کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہے۔

اقلیتی اداروں کے معاملے میں مرکز ی حکومت ہی نہیں بلکہ دہلی حکومت کی بھی نیت صاف نہیں ہے ۔ راجدھانی دہلی میں اُردو اکادمی دہلی ، دہلی اقلیتی کمیشن اور دہلی وقف بورڈ ، یہ تینوں ادارے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں۔

دہلی وقف بورڈ کی بات کی جائے تو اگست 2023 سے یہاں چیئر مین کا عہدہ خالی پڑا ہے۔ابھی تک بورڈ تشکیل نہیں دیا گیا۔ آئے دن وقف بورڈ کے امام و موذن اپنی تنخواہ کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اماموں کو 19 ماہ میں سے صرف 5 ماہ کی تنخواہ مل پائی ہے۔ تاہم 14 ماہ کی تنخواہوں کیلئے امام و موذن دہلی وقف بورڈ کے دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر اپنی جوتی گھسنے پر اب بھی مجبور ہیں۔

بورڈ کی تشکیل میں ہورہی تاخیر سے یتیموں ، بیواﺅں اور ضرورت مندوں کا بڑا نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ وقف املاک کے تحفظ میں کوتاہی دیکھی جارہی ہے۔حال ہی میں وقف بورڈسے 70 سے زائد ملازمین کوایک ہی جھٹکے میں بر طرف کرنا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ جب ملازمین نہیں ہوں گے تو کام کیسے ہوگا۔اگر بات کی جائے اُردو اکادمی دہلی کی تو اس کی بھی حالت کچھ ٹھیک نظر نہیں آتی۔

کسی زمانے میں ہندوستان کی سب سے فعال اکادمی سمجھی جا نے والی اُردو اکادمی دہلی کی گورننگ باڈی کی تشکیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔یہاں بھی وائس چیئر مین کا عہدہ خالی پڑا ہوا ہے ، جبکہ دہلی کی باگ ڈور سنبھال رہی عام آدمی پارٹی اپنے آپ کو تعلیم کے شعبہ میں انقلاب لانے والی پارٹی کہتی ہے ۔ جبکہ اُردو زبان کے حوالے سے زمینی حقیقت کچھ اور ہی بیاں کرتی ہے ۔ عالمی وباءکورونا وائرس کے دور سے بند پڑے اُردو اکادمی دہلی کے زیرِ انتظام چلنے والے اُردو خواندگی مراکز ابھی تک نہیں کھولے گئے ، جبکہ دہلی میں اسکول اور کالجز میں معمول کے مطابق درس و تدریس جاری ہے۔

اُردو خواندگی مراکز عام لوگوں کو اُردو سکھانے،اُردو کی طرف نئی نسل کی توجہ مرکوز کرنےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بہرحال دہلی اقلیتی کمیشن کی حالت بھی مذکورہ اداروں کی طرح نا گفتہ بہ ہے۔حال ہی میں اپنی مدت کار پوری کرنے کے بعد کہیں سے ایسے کوئی بھی خبر موصول نہیں ہوئی دہلی اقلیتی کمیشن کو لیکر دہلی حکومت کیا کر رہی ہے اور اس ادارہ کو لیکر حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔

اس بابت اُردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے قومی صدر ڈاکٹر سید احمد خاں نے کہاکہ حکومت کسی خاص طبقہ کی نہیں بلکہ حکومت سب کے لئے کام کرتی ہے ۔ مرکزی حکومت نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دیا ہےاس لیے ہمیں امید ہے کہ مرکزی حکومت اُردو کے بارے میں جلد غور و فکر کرے گی۔چونکہ اُردو زبان اس ملک کی ممتاز زبانوں میں سے ایک زبان ہے اس کا وجود یہی ہوا ہے ، لہذا اس زبان کو اپنانے والے زیادہ تر لوگ ایک خاص طبقہ سے تعلق اس لیے رکھتے ہیں چونکہ اُردو زبان ان کی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے ۔

انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کے پاس این سی پی یو ایل جیسے بڑے ادارے کی بہتری کیلئے کوئی نیا منصوبہ ہے تو اس کو جلد از جلد نافذ کرنا چاہئے اگر ایسا نہیں ہے تو پرانے منصوبے کے تحت این سی پی یو ایل کی گورننگ باڈی کی تشکیل کی جائے۔وہ اس لیے کہ گزشتہ دو برس سے گورننگ کونسل کی تشکیل نہ ہونے سے لاکھوں کا بجٹ واپس ہوگیا جو اُردو زبان کی ترقی کیلئے خرچ ہونا تھا ۔

اس لئے حکومت کونسل تشکیل دے اور مستقل ڈائریکٹر کی تقرری کرے۔تاکہ پیاری زبان اُردو کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع مل سکیں اور ادبی محفلوں کی رونق لوٹ آئے۔

قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کے تئیں مرکزی حکومت کی بے توجہی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معروف سماجی کارکن شیخ علیم الدین اسعدی نے کہا کہ این سی پی یو ایل ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اُردو زبان کو فروغ دینے میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔لیکن کچھ سالوں سے اس بڑے ادارے کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔وہ اس لیے کہ کسی بھی ادارے کو چلانے کیلئے عملے کے ساتھ ساتھ عہدیدران کی ضرورت ہوتی ہے جب ادارے میں عہدیدران کا تقرر ہی نہیں ہوگا تو وہ ادارہ کیسے کام کر پائے گا۔شیخ علیم الدین نے کہا کہ پچھلے دو سال سے این سی پی یو ایل کی گورننگ باڈی تشکیل کی منتظر ہے۔اور این سی پی یو ایل کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مستقل ڈائریکٹر نہیں ہے۔اس کے علاوہ اس ادارے میں پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر (پی پی او) کا بھی عہدہ خالی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اُردو کے اس تناور درخت کی جڑوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان اداروں کی باڈی جلد از جلد تشکیل نہ دی گئی تو اردو زبان کا نقصان ہوتا رہے گا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا