ام ہشام،ممبئی
جب کسی کی امد کاا نتظار ہو تو دل میں کس قدر خوشگوار سیاحساسات اٹھتے ہیں اور ہم اس سرشاری میں کتنے ہی مشکل سے مشکل کاموں کو باسانی ہنسی خوشی انجام دے دیتے ہیں – بحیثیت مسلمان رمضان المبارک کے مہینہ کی امد بھی ہمارے لئے کسی طور پر ایک عظیم مڑدہ سے کم نہیں ہے کہ جس میں ہمارے گناھوں کی رذالت دھل جاتی ہے ایمانی پیمانے حب الہی سے لبریز ہوجاتے ہیں –
صاحب ایمان اس مہینہ میں اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوتا ہے -اپنی چھوٹی بڑی کوتاہیوں پرنادم ہوکر ,رب کے حضور عفو ودرگزر کا خواست گار ہوتا ہے – اسکی اد صرف ایک مسلمان کیلیے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیروبرکت والی خبر ہوتی ہے – جسکا مشاہدہ ہمیں بازار سے ہوتا ہے کہ انواع واقسام کی نعمتیں بندہ مومن کے دسترخوان پر سجی ہوتی ہیں جس سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ رمضان کی امد سے کء لوگوں کا کاروبار جڑا ہوتا ہے جنہیں اس مہینہ کی امد پر بے تحاشہ فائدہ پہنچتا ہے –
ماہ رمضان نزول قران کا مہینہ ہے تقوی ,پرہیزگاری،ہمدردی،غم گساری،محبت والفت ,خیرخواہی،خدمت خلق،راہ خدامیں استقامت ,جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد ,اللہ اور رسول سے سچی لو لگانے کا مہینہ ہے -اس مہینہ کی عظمت وبرکت پر ہم ایک سرسری نظر ڈالیں کہ یہی وہ عظیم مہینہ ہے جسمیں قران نازل ہوا , روزے فرض ہوئے،شب قدر نازل کی گء ,جنگ بدر پیش ائی ،فتح مکہ جیسی فتح وجود میں ائی- اسکے عشروں میں عبادات کے درجے کو بلند ترین مقام پر فائز کردیا-
اس مہینہ میں صدقات ووزکات و فطرہ جیس مالی عبادات کو رکھتے ہویے شریعت نے اس ماہ کی عبادات کو ایک خاص مقام ومرتبہ بخشا ہے -رمضان المبارک پر پہلو سے ہم مسلمانوں کیلیے باعث خیر وعظمت ہے لیکن اس سے جڑے ہوئے تین واقعات امت اسلامیہ کی عظمت شان وشوکت کا روشن مینارہ ہیں یہ وہ تین ابتدائی واقعات ہیں جسکی روشنی میں امت مسلمہ بحیثیت فردو ملت اپنی فوزوفلاح کیلیے حکمت عملی، نء پالیسیاں ,اور ملت اسلامیہ کی بازیابی کی خاطر منظم تدابیر اختیار کرسکتی ہے -یہ ابتدائی تین واقعات تاریخ اسلام کا ایک ایساروشن باب ہیں جو ایک مسلمان کی زندگی میں مشعل راہ ہیں – اسکی ملی زندگی ہو یا اجتماعی وہ ان تینوں واقعات سے اپنی زندگی کو شریعت اسلامیہ کے تابع رکھ کر دنیا اور اخرت میں سرخرو ہوسکتا ہے-
(۱) نزول قرانساریدن اور مہینے ایک جیسے ہوتے ہیں ،کیونکہ سبھی اللہ کے بنائے ہو ئے ہیں اس لئے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ،لیکن بعض لمحات ایسے بھی اتے ہیں جن کے ساتھ ساری انسانیت اور ساری کائنات کا مقدر وابستہ ہوجاتا ہے۔ایسا ہی عظیم اور بابرکت وہ لمحہ تھا جب غار حرا میں ہدایت خداوندی کی اخری کرن نازل ہوئی اور نبی کریم اساس کے امین ٹھہرے۔اور یہ عظیم اور و بابرکت لمحہ اسی رمضان المبارک کے مہینہ کا تھا اور یہی راز ہے اس مہینہ کی برکت اور عظمت کا۔
قران کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لئے سر تا پاہدایت ہے۔اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہذا جو شخص اس مہینے کو پائے لازم ہے کہ وہ اس میں روزے رکھے۔(سورۃالبقرہ۔۱۸۵)گویا رمضان المبارک کی عظمت و برکت کا سارا راز اس چیز میں پو شیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے میں نزول قران شروع ہوا۔اللہ کے رسول اغاز نزول قران سے قبل غار حرا کی تنہائیوں میں زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر اور عبادت الہیٰ میں مشغول رہتے ،اپ اعتکاف فرماتے جس کا ایک جزو روزہ ہے۔اپ روزہ اور ذکر و فکر کے اسی عالم میں تھے کہ جبرئیل ْ پہلی وحی لیکر تشریف لائے اور اسی طرح قران کے نزول کا اغاز ہوا –
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قران ،روزے اور اعتکاف میں بڑا گہرا ربط ہے۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قران نازل کیا گیاجو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی روشن نشانیاں ہیں اور یہ حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔گویا رمضان المبارک کی اہمیت روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ نزول قران کی شان اس کو اہم بناتی ہے۔
یہ جشن قران کا مہینہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : لوگو؛ تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت اگئی ہے ،یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لئے شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں اس کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے-(یونس :57) ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ سمیٹ رہے ہیں۔(سورہ یونس :۱۰۔۵۸ )قرا?ن کے لئے رمضان کے مہینے میں ایک ایسی رات کا انتخاب کیا گیا جسے اس مبارک مہینے کی روح اور اس کی برکات کا عطر کہنا چاہئے یعنی لیل القدر، چنانچہ ارشاد فرمایا گیابلاشبہ ہم نے قران کریم لیل القدر میں نازل کیا ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ لیل القدر کیا چیز ہے؟ لیل القدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے-گربدن کی پاکیزگی اس کے لفظوں کو چھونے کے لیے ضروری ہے تو پھر روح کی پاکیزگی اس کے معارف کو چھونے کے لیے ضروری ہے۔گویا قران سے حصول ہدایت کے لیے روح کی طہارت کی طرف بھی ہمیں توجہ دینا چاہیے۔ جتنی جتنی روح پاک ہوگی اتنی اتنی ہم قران کی ہدایت پاتے چلے جائیں گے۔ اللہ کی یہ کتاب اپنے پڑھنے والوں کو بہت کٹھن مقامات کی سیر کرواتی ہے، کئی ایسی منزلیں اتی ہیں جہاں قران مجید اپنے پڑھنے والوں سے سوال کرتا ہے، ان سے پوچھتا ہے کہ بتاو! تم ان منزلوں کو کیسے سر کرو گے؟ اس مرحلے کو کس طرح طے کرو گے؟ اس مقام سخت جاں سے گزرتے ہوئے دل کوکتنا رفیق پاو گے؟
دوسراواقعہ:جنگ بدر:تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان دن جب اسلام اور کفرکے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گی -جسمیں کفار مکہ کی طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواوں کو ابدی طاقت اور رشک زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر اج تک مسلمان فخر کرتے ہیں اللہ کی خاص فتح ونصرت سے مٹھی بھر بے سرو سامان سر پھریاللہ پر بھروسے کا سامان لیے اپنے سے تین گنا بڑے لاو لشکر کو اسکی تمام تر مادی و معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کردیا- اس جنگ نے ثابت کردیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ بہترین صلاحیتوں سے لیس ایک جنگجو قوم ہے یہ جنگ اسلام کے فلسفہ جہاد کا نقطہ اغاز تھی – اس واقعہ کو چودہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرچکا یے لیکن صدیوں بعد بھی غزوہ بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح ونصرت کی گواہی دیتے ہیں فضایے بدر کو ایک اپ بیتی یاد ہے ابتک یہ وادی نعرہ توحید سے اباد ہے ابتک اس جنگ نے غریب الوطن سرفروشان اسلام کو وہ عزم وحوصلہ بخشا جس سے وہ مستقل میں بڑی سے بڑی طاقت کے خلاف نبرد ازما ہوسکتے ہیں-سچ یہ ہیکہ جنگ بدر ہی اسلام کا عروج ہے اس جنگ نے واضح کردیا تھا کہ الہ واحد پر ایمان رکھنیوالی نہتی قوم اپنے سے تین گنا مسلح فوج کو دھول چٹاسکتی یے اسے پسپا کرنا لوہیکے چنے چبانے کے مترداف ہوگا – یہ واقعہ کسی معجزہ سے کم نہیں تھا اسکے بعد لوگوں کو اسلام کی وحدانیت، حقانیت اور صداقت ہر یقین اگیا لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اس عظیم جنگ نے اسلام کی نشرو اشاعت کے مقفل دروازے کھول دیے-
اسلام کی اس پہلی جنگ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمان جنگ میں پہل نہیں کرتے اخری وقت تک جنگ سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ اسلام سلامتی کا دین ہے اور سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہیکہ اگر خلوص وللہیت کے ساتھ کلمہ حق بلند کرنے کے لیے مسلمان کسی بھی میدان میں اتریں تو ہرحال میں اللہ تبارک وتعالی کی مدد شامل حال ہوگی-
تیسرا واقعہ :فتح مبین:یہ دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصائب والام بھری زندگی کیاختتام کی تمہید تھا-اپ کی عزت وتکریم کا دن جب اللہ نے اپ کو پوری عظمت و محبت کے ساتھ اھل مکہ کے دلوں پر طاری کردیا – یوں تو عموما دلوں پر ہیبت ہی طاری ہوکر خود کو تسلیم کروانے پر مجبور کرتی ہے لیکن یہاں کائنات کے اصولوں سے جداگانہ ایک نیا قاعدہ رواج پاچکا تھا- وہ جو فاتح تھے ,بڑی ہی عجز وانکساری کے ساتھ گردن کو جھکایے ہویے مکہ میں اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ اھل مکہ کے دل انکی ہیبت اور محبت سے معمور ہویے جاتے ہیں-وہ دن سورج کی طرح افق پر پوری طرح روشن ہوکر دنیا کو یہ نوید دے رہا تھا کہ حق کے علمبردار اس دنیا میں بھی سرخرو ہوں گے اور اخرت کی ابدی کامیابی کا مینا بھی بھی انہی کے ہاتھ نے والا ہے –
ٍفتح مکہ کا یہ پیام عام ہے کہ اللہ کا گھر اور اسکی عبادت کرنے والے انسان دونوں ہی شرک وبت پرستی کی الائشوں سے پاک ہونے چاہیے تبھی جاکر بندگی کا حقیقی اور واجبی حق ادا ہوسکے گا- اور اللہ کے نبی کریم نے اس حق کو بخوبی ادا کیا –
فتح مکہ کے دن اللہ کے رسول نے خانہ کعبہ کے ساتھ ساتھ اھل مکہ کے دلوں میں بسے ہویے جھوٹے الہ کی محبت کو بھی مسمار کردیااور دنیا میں بسنے والے انسانوں کو یہ اصولی پیغام دیا کہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اسی کی عبادت کیلییخاص ہے لہذا اسمیں باطل سے سودے بازی نہیں کی جاسکتی -اس روز کی فتح مبین پر بجایے شورو غوغااور جشن کرنے کے اللہ کے ان سادہ دل بندوں نے اللہ کے سامنے سر بسجود ہوکر اس کے سامنے اپنی کمزوریوں اور اسکی عظمت کا بیان کرتے رہے – وہ جو سبھی کیلیے مشق ستم کا سامان تھے پیام وحدت سنانے کی پاداش میں جو سبھی کی نظروں میں کانٹے کی مانند کھٹکا کرتے تھے ,جنہیں مٹانے کی خاطر اسی سرزمیں پر دنیا کا ہر پینترا ازمایا جاچکا تھا اج انہوں نے ہر کس وبے کس کو یہ کہ کر اپنا غلام کرلیا "الیوم لاتثریب علیکم فانتم الطلقاء "مکی زندگی کے تیرہ سال ,ایک ایک دن کمزور اور ناتواں مسلمانوں کے خون سے سیاہ تھا ,نبی کریم کی اہانت سے ہر شام خون اشام تھی لیکن” الیوم لاتثریب علیکم.” کی پیغمبرانہ سنت سب پر حاوی ہوگی اپ نے عفو درگذر کی لاثانی داستان رقم کردی -اس روز گذشتہ سالوں کے دکھ ,درد کے مقابلہ میں اللہ نے اپکے ہاتھوں اپنیبابرکت گھر کو عزت بخشی اور اپنے وحدت پسند بندوں کی جبینوں سے اپنے گھر کو معمور کیا – یہ اعزاز اپکے پچھلے سبھی غموں کا مداوا تھا-
حرف اخر :انسان جب کسی کا غلام ہوجایے تو اسکے لیے لازم تا ہیکہ کہ اسکی غلامی کو دورکیاجایے کیونکہ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوںپر ازاد پیدا کیاگیا ہیساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے لہذا اسکے جسم وذہن کو اس کی ہر اس فکر سینجات دلانی ہوگی جسکی غلامی میں رہ کر وہ غوروفکر اور عمل کرتا ہے اسے ہی تطہیر قلب یا تزکہہ نفس کہتے ہیں یہ عمل انہی افراد پر کیا جاسکتا ہے جن میں نفسیاتی غلامی سے آزادی کی خواہش ہو-جسکے اندر حق کی تلاش و جستجو ہو ,جو اپنے ذہن کی پیداوارکو اللہ کے بنایے اصولوں کے تحت پرکھنے کا جذبہ رکھتا ہو-جو اپنے افکار میں تضاد کا شائبہ بھی نہ انے دیتا ہو – یہ تمام صفات جس کے اندر ہوں گی وہی حق کو پایگابھی اور اسے جذب بھی کرپایگا – کیونکہ تزکیہ نفس اور تطہیر قلب یہ کوئی معمولی کام نہیں ,یہ تو پیغمبرانہ مشن ہے (جمع:۲)رمضان المبارک کے اس مہینہ میں امت کے ہر فرد کو خود کو اس عمل کے ساتھ گزارنا چاہیے تزکیہ نفس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ باطل اوربوسیدہ اقدار ایک ایک کرکے بکھرتیچلے جائیں اورانکی جگہ صاف ستھری اقدار جنم لیں – یہی ہمارے لیے وہ بہترین استقبال رمضان ہوگا جو رمضان کے ایام گزارنے کے بعد ہماری سابقہ زندگیوں کے شب و روز کو مکمل طور پر تبدیل کردیگا-پھر یہی تبدیلی ہماری نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی ان شائاللہ
رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہوجایے کہ جاء الحق وزحق الباطل(بنی اسرائیل: ۱۸) اور ساتھ ہی یہ بھی کہ حق کو باطال کیساتھ نہ ملاو اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاو (بقرہ 42)رمضان کااستقبال کریں ہم اپنے قول سے، اپنے عمل سے ,اسلامی نظریہ حیات کو عام کرکیاور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم ہر لازم اتے ہیں-اس ماہ کا استقبال کرتے وقت خود سے عہدو پیمان باندھیں ایسا عہد کہ ہم اور اپ داعی الی الخیر بن جائیں – جس کینتیجے میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی فائدہ مند ہو
رمضان المبارک کا استقبال کچھ اس طرح کریں کہ یہ استقبال امت مسلمہ کے عروج کا ذریعہ بن جایے – اس ماہ کی عبادات سے اپنے ظاہرو باطن میں انقلاب لانے کی کوشش کریں -یہی ہے انے والے اس رمضان کا شاندار استقبال ,ہماری زندگیوں کا بہترین استفادہ ,یہی ہے مومنوں کی منزل مقصود