لالچی سرمایہ داروں کی غفلت اور برساتوں کی تباہ کاریاں

0
0

محمد اعظم شاہد
گرمی کے دنوں میں جھلستی دھوپ سے، پانی کی قلت سے پریشان سبھی رہا کرتے ہیں ۔برسات کے ہونے میں تاخیر اکثر ہوہی جاتی ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ ماحولیاتی عدم توازن ہے جو زمین پر بسنے والے انسانوں کی غفلت ، بے توجہی اور بے نیازی کے باعث گذرتے وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔کسی بھی خطے میں کسی بھی ملک میں بسنے والے لوگوں کی ضرورت کے مطابق زمین انہیں سہولیات فراہم کرتی آئی ہے ۔یہ نظام قدرت ہے۔مگر انسانوں کی حرص Greed کی انتہا کو نہ زمین اور نہ ہی کوئی بھی موسم پورا کرپاتے ہیں ۔Delayed Monsoon برساتوں میں تاخیر ہندوستان جیسے ملک میں زراعت کے لیے بڑا سنگین مسئلہ رہا ہے۔ جب برسات ہوجاتی ہے تو اتنی زیادہ کہ حالات بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی اتنی کم کہ نہ فصلیں پروان پاتی ہیں اورنہ ہی پینے کے پانی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ہندوستان میں اکثر کسان برساتوں کی آنکھ مچولی کا شکار رہتے ہیں ۔برساتوں میں برستا پانی جب اپنے ٹھہرنے کا وسیلہ نہیں پاتا ہے اور بہاؤ کا مناسب راستہ اس کو نہیں ملتا ہے تو برسات بے قابو ہوکر برستا ہے ۔اس کے نتیجے میں شہروں میں بسی آبادی اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ان دنوں پھیلتے بڑے شہروں میں Rapid Urbanisation (شہری کاری) کے باعث تعمیرات اور بالخصوص ضوابط کی خلاف ورزی کے تحت ہونے والی تعمیرات اور غیر منصوبہ بند کارستانیوں کے باعث جب بھی برساتیں زیادہ ہوتی ہیں تو ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں۔سڑکوں پر پانی کا بہاؤ کے لیے ذرائع جب بند ہوجاتے ہیں تو راستے چھوٹے چھوٹے سمندر بن جاتے ہیں ۔ Water Logging پانی کا سڑکوں پر ٹھہرجانا اور نشیبی علاقوں میں پانی کا مکانوں میں گھس آنا یہ اب عام سی بات ہوگئی ہے۔


پہلے پہاڑی علاقوں میں برسات کے دوران ناگہانی حادثات کے واقعات کم ہی ہوا کرتے تھے۔ مگر پچھلے چند سالوں سے جنگلات میں درختوں کی مسلسل کٹائی، پہاڑیوں سے پتھر تعمیرات کیلئے کاٹنا، سیاحت کے ذریعہ آمدنی کی حرص میں پہاڑوں اور جنگلاتی سرسبزشاداب علاقوں میں ہوٹلوں اور ریسارٹ کی تعمیرات کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔حکومت کی ہدایات کے باوجود بھی پہاڑی علاقوں میں تعمیرات کا سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب وہی کچھ ہورہا ہے جیسے کہ کہاجاتا ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ہم نے قدرت کے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، دولت کے لالچ میں برسات کی فراوانی کو بھی فراموش کردیا ۔نتیجے میں نشیبی علاقوں میں رہنے والے غریب کسان اور مزدور موسلا دھار بارش کا شکار ہوتے رہے ۔ پچھلے دوہفتوں سے شمالی ہند میں یوپی، ہماچل پردیش، اُتراکھنڈاور دِلی میں زیادہ بارش کے اثرات نے حالات درہم برہم کردئے۔ملک کے پہاڑی علاقوں میں بالخصوص اُتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور حال ہی میں کیرلا میں جو زمین کے کھسکنے، درختوں کے گرنے سے حالات سنگین رخ اختیار کرچکے ہیں۔
کیرلا ریاست میں ضلع وائناڈ مغربی گھاٹ کا اہم حصہ رہا ہے۔یہاں کے پہاڑی علاقوں کی قدرتی خوبصورتی نے سال بھر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے ۔یہاں ہوٹلوں اور سیاحوں کے لیے آرام دہ ریسارٹس کی تعمیرات مرکزی اورریاستی حکومت کی ہدایات کی خلاف ورزی میں ہوتے رہے۔سال2011 میں مغربی گھاٹ علاقوں میں موحولیاتی حساس علاقوں ESZs میں تعمیرات کی ممانعت کی گئی تھی۔ مشہور ماہرماحولیات مادھوگاڈگل کی قیادت میں گاڈگل کمیشن رپورٹ نے یہ انتباہ کیا ہواتھاکہ مغربی گھاٹ علاقوں کے تقریباً تیس سے زیادہ علاقوں میں تعمیرات اوردرختوں کی کٹائی پر روک لگانا لازمی ہے۔مگر اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔ ڈھلوان علاقوں میں زمین نرم ہوتی گئی۔موسلادھار برساتوں کے باعث زمین کے تودے کھسکنے لگے اور مسلسل Land Slides سے نشیبی علاقوں کے گاؤں کے گاؤں تباہ ہوگئے۔ اب تک چارسو کے آس پاس لوگ اس تباہ کاری میں فوت ہوچکے ہیں ۔کئی گم شدہ لوگوں کی تلاش اب بھی جاری ہے۔ہزاروں لوگ زخمی اوربے گھر ہیں – اب تک کے جو موسلا دھار برساتوں کے باعث حادثے ہوئے ہیں ان میں کیرلا کے وائناڈ کی تباہ کاریاں ماحولیاتی عدم توازن کی تازہ مثال ہے ۔مرنے والوں کے لیے حکومت کی جانب سے معاوضہ ریلیف ورک تو ناگزیر ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ماحولیات اور قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ روکنے قانون کے نفاذ کو ممکنہ طور پر یقینی بنانے میں کوتاہی حکومتوں کی جانب سے کیوں ہوتی آئی ہے۔آخر برساتوں کی ان تباہ کاریوں سے غریب طبقہ جو پہلے ہی سے مشکلات میں اپنی بسرکرتا ہے ، وہ اورپریشان ہوجاتا ہے۔اس پر روک کیوں نہیں لگتی، آخر کار اکثر غریب اور مفلوک الحال کسان برساتوں کی تاخیر سے مجبور ہوکراپنے کھیت کبھی رہن رکھ کر یا پھر امیرزمینداروں کو بیچ کر مزدوری کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرتے ہیں، جو کل تک اناج اُگاتے تھے اورفراوانی میں بسر کررہے تھے، وہ آج اناج کی بڑھتی قیمتوں سے تنگ آکر شہروں میں سرکاری راشن کی دکانوں کی قطاروں میں لگے رہتے ہیں۔ ان حالات کی ترجمانی کرتے ہمارے ایک شاعر سدرشن فاکرؔ نے کہاتھا۔
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
ایسے ہی حالات ہیں آج ماحولیات Environment اور قدرتی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی پاداش میں سخت گرمی جھیل رہے ہیں یا پھر موسلادھار برساتوں کی زد میں بہت کچھ کھوتے جارہے ہیں ۔جان و مال اور چاروں طرف تباہ کاریاں۔ماہر موسمیات اور ماہرین ماحولیات نے حال ہی میں کہا ہے کہ یہ برسات کے باعث تباہ کاریاں تو انسانوں کے لالچ اور حرص کا نتیجہ ہیں، یہ Man Made Disaster ہیں۔ اگر اب بھی ہم سنبھل نہیں پائے تو اس طرح کے اور سنگین حالات سے دوچار ہوں گے۔
[email protected] cell:9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا