سولاپور(محمد مسلم کبیر)نہ صرف افسانے، کہانیاں اور نظمیں لکھ کر ادب کو تعمیر کیا جا سکتا ہے بلکہ قوم کے مسائل، بیروزگاری، تعلیمی اور نسوانی مسائل، کو مراٹھی ادب کے ذریعے پیش کر کے راست طور پر عوام و ارباب اختیار تک پہنچانا ہمارا مقصد ہو یہی سماجی ادب کی تعمیر اور ہمارے خوابوں کی تعبیر ہوگی یہ بات فاطمہ بی شیخ مراٹھی ساہتیہ سمّیلن کے دوسرے اجلاس میں مراٹھی ادیبہ اور سميلن کی صدر ڈاکٹر ارجین بی شیخ نے اپنے صدارتی خطبے میں کہی۔اُنہوں نے کہا کہ مندوبین اپنے ساتھ تعلیم نسواں کا پیغام ساتھ لے جائیں اور”سب کے لئے تعلیم”اسلام کے اس آفاقی پیغام کو سماجی بیداری کا ذریعہ بنائیں۔سميلن کی استقبالیہ صدر ڈاکٹر ثریا جاگیردار نے اپنے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ بی شیخ نے جس طرح ناگفتہ ماحول میں ساوتری بائی پھلے کے شانہ بہ شانہ مل کر نسوانی تعلیم کو جِلا بخشی اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے سماجی بیداری کی کوشش کی آج بھی ہمارے قوم میں بیداری کی ضرورت ہے۔
سولاپور کے سوشل کالج کے اے پی جے عبدالکلام ہال میں منعقدہ فاطمہ بی شیخ مراٹھی ساہتیہ سمّیلن کے دوسرے اجلاس کا افتتاح مسلم مراٹھی ساہتیہ پریشد کے صدر، معروف مراٹھی شاعر ڈاکٹر عزیز نداف کے ہاتھوں عمل میں آیا اور اس وقت انیسہ شیخ، شاعر سیّد علاؤ الدین، اکھل بھارتیہ مسلم مراٹھی ساہتیہ پریشد کے سیکریٹری ایّوب نلا مندو، ایڈوکیٹ ہاشم پٹیل، سائرہ بانو چوگولے، پرنسپل ای جا تمبولی،گرامین مسلم مراٹھی ساہتیہ سنستھا کے شفیع بولڈیکر، مبارک شیخ، ڈاکٹر شکیل شیخ، مظہر اللوڑی،ڈاکٹر محمد رفیع شیخ، اسماعیل شیخ، جعفر شیخ،ڈاکٹر حسیب نداف موجود تھے۔
اپنے افتتاحی تقریر میں ڈاکٹر عزیز نداف نے مسلمانوں کا مراٹھی ادب میں مقام بتاتے ہوئے سنت گیانیشور کے دور کے صوفی شاہ منتجب ، سنت شیخ محمد، سے لے کر شاہر امر شیخ اور آج تک کے مسلم مراٹھی ادیبوں، شاعروں کے حوالے اور واقعات کو پیش کیا،اور کہا کہ مراٹھی ادب میں مسلمانوں کے حصے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاہم اُنہوں نے کہا کہ ادب کی تعمیر تو ہر زبان میں ہوتی ہے لیکن جب تک ہم اپنے احساسات، اور مسائل کو اپنے ادب میں جگہ نہیں دیتے تب تک ہم ہماری ادبی تحریک کو انصاف نہیں مل سکتا۔ جلسے کی کارروائی ڈاکٹر محمد شیخ نے چلائی۔
اس کے بعد” مسلم مراٹھی ادب میں خواتین کا رخ” اس موضوع پر مباحثہ ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر شکیل شیخ نے کی اس میں شاہدہ سیّد،تحسین سیّد، نیلوفر پھنیبند اورحسیب نداف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جلسے کی نظامت ڈاکٹر رئیسہ مرزا نے کی۔
دریں اثناء ڈاکٹر اقبال تمبولی اور ایوب نلا مندو کی مرتبہ کتاب ” گلدستہ ” اور انتخاب فراش کا شائع کردہ ” سپندن ” خواجہ بھائی باغبان کے دو مجموعہ کلام ” پاول کھنا” اور سائرہ بانو چوگولے کی کتاب ” ویچارك کوڈسے” کی رسم اجرا عمل میں آئی۔اس کے علاوہ نامور مراٹھی ادیب و مصنف مرحوم فخر الدین بينور کی یاد میں معروف مراٹھی شاعر مبارک شیخ کو 15 ہزار روپئے نقد اور سپاس نامہ ڈاکٹر یوسف بینور کے ہاتھوں دے کر تہنیت پیش کی گئی۔ اور مرحوم سکندر شیخ کی یاد میں مراٹھی شاعرہ دلشاد سید اور امرپالی کو خصوصی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
فاطمہ بی شیخ مراٹھی ساہتیہ سمّیلن میں مراٹھی مشاعرہ معروف مراٹھی شاعر مبارک شیخ کی صدارت میں ہوا۔نظامت نسیمہ جمعدار اور ایڈوکیٹ اماکانت آدمانے نے کیا۔جس میں بدیع الزمان براجدار، سیّد علاؤ الدین،آنند گھوڑکے،شیخ جعفر ایڈوکیٹ اقبال شیخ اوسا،اور کئی شعراء نے حصہ لیا۔
اختتامی تقریب گرامین مسلم مراٹھی ساہتیہ سنستھا کے صدر ایڈوکیٹ ہاشم پٹیل کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں صحافی محمد مسلم کبیر،ایڈوکیٹ اقبال شیخ، ڈاکٹر ارجین بی شیخ موجود تھے۔صحافی محمد مسلم کبیر نے اس موقع پر کہا کہ ہمارے اکابرین کی تاریخ کا مطالعہ نہ کئے جانے سے ہم ہی اُن کے کارناموں سے واقف نہیں ہیں لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہمارے اکابرین کے کارناموں کا مطالعہ کر کے مستقبل کو سنواریں۔ جلسے کی نظامت خواجہ بھائی باغبان کی اور انتخاب فراش پونے نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔