قوم کی طاقت ثقافتی وراثت میں پنہاں ہے: بھٹ

0
0

’ہندوستانی فوجی نظام کا ارتقائ، جنگ اور قدیم دور سے آزادی تک اسٹریٹجک نظریات‘ کے موضوع پر ایک نمائش کا افتتاح
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍وزیر مملکت برائے دفاع اجے بھٹ نے کہا ہے کہ کسی ملک کی سلامتی کی مضبوطی نہ صرف اس کی فوجی طاقت میں ہے بلکہ ثقافتی وراثت کو طاقت کے ذریعہ استعمال کرنے کی صلاحیت میں بھی ہے۔وزارت دفاع نے منگل کو جاری کردہ ایک ریلیز میں کہا کہ ‘پروجیکٹ ادبھاو’ کے ایک حصے کے طور پر آج یہاں نیشنل میوزیم میں ‘ہندوستانی اسٹریٹجک ثقافت کے تاریخی نمونوں’ پر ایک سیمینار اور نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیر مملکت برائے دفاع اجے بھٹ بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔ اس تقریب میں ’ہندوستانی فوجی نظام کا ارتقائ، جنگ اور قدیم دور سے آزادی تک اسٹریٹجک نظریات‘ کے موضوع پر ایک نمائش کا افتتاح کیا گیا۔ اس کے علاوہ ’ادبھو سنکلن ‘ اور ’آلہا اْدل – بیلاڈرینڈیشن آف ویسٹرن اترپردیش‘ کے نام سے ایک کتاب کا بھی اجرا کیا گیا۔
وزیر مملکت برائے دفاع نے اپنے خطاب میں ہندوستانی فوج اور یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوشن آف انڈیا (یو ایس آئی) کی ‘پروجیکٹ ادبھاو’ پہل کی تعریف کی۔ اس اقدام کا مقصد ملک کی قدیم تحریروں اور زبانی روایات کو تلاش کرنا ہے تاکہ ملک کی قدیم ثقافت میں انمول علم کو دریافت کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جغرافیائی سیاسی منظر نامہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور اس کے پیش نظر ہماری مسلح افواج کے اپروچ میں موافقت اور جدت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا "ہماری قدیم تحریروں اور روایات کی گہرائیوں میں جا کر ادبھاویہ جیسے منصوبے نہ صرف ہماری اسٹریٹیجک ثقافت کے بارے میں ہماری سمجھ کو تقویت بخشتے ہیں بلکہ غیر روایتی جنگی حکمت عملیوں، سفارتی طریقوں اور جنگ میں اخلاقی تحفظات کے بارے میں بھی قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
مسٹر بھٹ نے ملک کے دفاع کی طاقت کو پہچاننے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف اس کی فوجی طاقت میں ہے بلکہ اس میں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے اور ثقافتی وراثت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ انہوں نے ‘پروجیکٹ ادبھاو’ جیسے اقدامات کو ایک ایسے مستقبل کی رہنمائی کے طور پر بیان کیا جہاں ہندوستان خود انحصاری اور اپنی ثقافتی وراثت میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔
وزیرمملکت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود انحصار ہندوستان کا جذبہ صرف ہندوستانی اشیائ کی پیداوار اور استعمال تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی سوچ اور اقدار کے جوہر کو موجودہ اعمال اور فیصلوں میں شامل کرنے کی مخلصانہ کوشش بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف صرف اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب پوری قوم قدیم ماضی کے انمول علم کو اپنے اندر سمیٹ لے اور اسے جدید دور کے عزائم اور پالیسیوں کی تشکیل کے لیے سیاق و سباق کے مطابق استعمال کرے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا