پرہلاد جوشی
2070 تک کاربن کیبالکل صفر اخراج کو حاصل کرنے کا ہندوستان کا آرزوؤں بھرا ہدف قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی توسیع اور انضمام پر مرکوز ہے، جو پائیدار ترقی کے راستے کے لیے ملک کے عزم کا ایک کلیدی جزو ہے۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک کے طور پر، ہندوستان کو کاربن کے اخراج کو کم کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی توانائی کی کھپت کو پورا کرنے کے مشترکہ چیلنج کا سامنا ہے۔ قابل تجدید توانائی ان عوامل کو متوازن کرنے کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل حل کی نمائندگی کرتی ہے۔
آزادی اور دنیا کی فلاح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دنیا میں سب سے کم فی کس اخراج میں سے ایک ہونے کے باوجود، ہندوستان نہ صرف وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں صاف توانائی کے مقصد کو آگے بڑھا رہا ہے، بلکہ دوسری قوموں کو اس مقصد میں شامل ہونے کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔آب و ہوا میں تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے ہندوستان کے عزم پر گلاسگو سی او پی- 26 کے اعلان میں زور دیا گیا تھا، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے "پنچامرت” پہل کے تحت پانچ اہم اہداف رکھے، جس میں قابل تجدید توانائی ایک اہم جزو ہے۔ ملک نے 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر قدرتی ایندھن کی توانائی کی صلاحیت حاصل کرنے اور اسی سال تک قابل تجدید ذرائع سے اپنی توانائی کی ضروریات کا 50 فیصد پورا کرنے کا عہد کیا ہے جس میں 58 فیصد شمسی توانائی اور تقریباً 20 فیصد ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی ہے۔ یہ اہداف 2030 تک اپنے متوقع کاربن کے اخراج کو ایک بلین ٹن تک کم کرنے اور اس کی معیشت کی کاربن کی شدت کو 45 فیصد تک کم کرنے کے ہندوستان کے وسیع تر مقصد کے مطابق ہیں۔
قابل تجدید توانائی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے پچھلے 10 سال میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے پر وزیر اعظم کی خصوصی توجہ نے ہندوستان کو قابل تجدید توانائی نصب کرنے کی صلاحیت میں عالمی سطح پر چوتھے، ہوا سے بجلی پیداکرنے کی صلاحیت میں چوتھے اور شمسی توانائی کی صلاحیت میں پانچویں نمبر پر آنے میں مدد کی ہے۔ شمسی صلاحیت میں، ہندوستان 2014 تک صرف 12.5 گیگا واٹ تک پہنچ گیا تھا، جو اب تقریباً 89 گیگا واٹ تک پہنچ گیا ہے، جو صرف 10 سال میں 30 گنا زیادہ ہے۔ہوا سے بجلی حاصل کرنے کی صلاحیت میں بھی10 سال میں 2.2 گنا اضافہ ہوا ہے،جو21گیگاواٹ سے 47گیگاواٹ تک پہنچ گیا ہے۔ خرچ کے محاذ پرگرڈ سے منسلک سولر پاور پلانٹس کے ٹیرف میں11-2010 میں 10.95 روپے سے 24-2023 کے دوران 2.60 روپے تک 76 فیصد کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم کی قیادت کی بدولت ہمیں ا?ر ای سیکٹر کی سمت دکھائی دی ہے، جو اب ملک کے لیے بھرپور منافع کما رہا ہے۔
10 سال کے دوران، توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نئے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی ترقی اورنفاذ ایک مشن موڈ پر رہی ہے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کی 200 گیگاواٹ کی نصب صلاحیت کا تقریباً 55 فیصد شمسی توانائی سے آتا ہے۔ تقریباً 30 فیصد کا ایک اور بڑا حصہ ہواسے حاصل کی ہوئی بجلی سے آتا ہے۔
ہندوستان نے شمسی ماڈیولز کی گھریلو پیداوار بڑھانے اور درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کے لیے پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (پی ایل آئی) اسکیم جیسے پروگراموں کو بھی نافذ کیا ہے۔ گھریلو سیل کی پیداوار کے لیے ترغیب ہندوستان میں سبز ترقی کے لیے ایک اعزاز ثابت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں اس شعبے میں آتم نربھرتا آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، گرین ہائیڈروجن میں گرین ہائیڈروجن ٹرانزیشن (ایس آئی جی ایچ ٹی) پروگرام کے لیے اسٹریٹجک مداخلت الیکٹرولائزرز کی تیاری اور گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے ترغیب فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان کی آلودگی سے پاک ہائیڈروجن کی کہانی متاثر کن ہے۔ ہندوستان نے اپنی ویکسین تیار کرکے کووڈ ویکسین کے ساتھ جو کچھ حاصل کیا اسی طرح، ہندوستان آلودگی سے پاک ہائیڈروجن انقلاب کا علمبردار ہے کیونکہ اس کا مقصد دنیا میں پیداوار اور برآمدات کا مرکز بننا ہے۔ یہاں بھی وزیراعظم مودی کے اٹھائے گئے اقدامات نے اس تبدیلی کو ممکن بنایا ہے!
درحقیقت، جب ملک میں ای وی کے بنیادی ڈھانچے کو اپنانے کی بات آتی ہے، تو وزیر اعظم قدرتی ایندھن کے توانائی کے ذرائع کا استعمال کیے بغیر، مستقبل میں ای وی گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے صرف قابل تجدید ذرائع استعمال کرنے کی راہ ہموار کرنے کے خواہاں ہیں۔ پی ایم سوریہ گھر یوجنا بھی یہاں ایک کردار ادا کر سکتی ہے جس میں شہری اپنی گاڑیوں کو بجلی بنانے کے لیے شمسی چھتوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
ہندوستان جس پیمانے اور رفتار سے قابل تجدید سفر طے کر رہا ہے وہ بے مثال ہے اوروزیراعظم مودی کی براہ راست مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اب، ہندوستان اس شعبے میں صرف ایک اور کھلاڑی نہیں ہے، بلکہ ہم بھی قیادت کر رہے ہیں! قابل تجدید شعبے میں ہندوستان کے تبدیلی کے سفر نے ہمیں آگے دوڑنے والوں میں جگہ دی ہے اور پچھلے 10 سال میں ہمیں عالمی سطح پر پہچان دی ہے۔
اس کا اثر اب محسوس کیا جا رہا ہے اور برانڈ انڈیا کی آوازیں سنی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ سے نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت نے 16-18 ستمبر 2024 کو گجرات کے گاندھی نگر میں ری انویسٹ- 2024 کی میزبانی کرنے جارہی ہے، جس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی کریں گے، جس کا مقصد اس شعبے میں سیکھنے کے طور طریقوں کا تبادلہ کرنا اور نئے اتحاد قائم کرنا ہے جبکہ ہم 2030 تک 500 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی تنصیب کی صلاحیت حاصل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ اس میں جرمنی، ڈنمارک، آسٹریلیا، ناروے اور متحدہ عرب امارات کی شرکت ہوگی۔ اس تقریب میں مختلف ریاستی حکومتیں، بینک، مالیاتی ادارے، سرمایہ کار اور پرائیویٹ کھلاڑی بھی شامل ہوں گے جو شپتھ-پتر کی شکل میں اپنا اہداف اور منصوبوں کو واضح کرتے ہوئے اپنا عہد کریں گے۔
حکومت قابل تجدید توانائی کی خریداری کی ذمہ داریوں اور قابل تجدید پیداوار کی ذمہ داری کے ذریعے قابل تجدید توانائی کے استعمال کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مینڈیٹ سبز ترقی کی طرف بڑھنے کے قومی وڑن میں فٹ ہوتے ہیں اور ذمہ داریوں کی پابندی انفرادی اداروں کے لیے توانائی کی منتقلی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن بناتی ہے۔ہندوستان 2030 تک غیر قدرتی ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل سے اپنی مجموعی الیکٹرک توانائی کی صلاحیت کا 50 فیصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ منصوبہ ہر سال کم از کم 50 گیگا واٹ صلاحیت کی بولی لگانے کا ہے۔ ایس ای سی ا?ئی، این ٹی پی سی لمیٹیڈ، این ایچ پی سی اور ایس جے وی این کو حکومت نے قابل تجدید توانائی نافذ کرنے والی ایجنسیوں (آر ای آئی ایز) کے طور پر شمسی، ہوا، شمسی ونڈ ہائبرڈ، آر ٹی سی آر ای پاور وغیرہ کے لیے بولیاں طلب کرنے کے لیے نوٹیفائی کیا ہے۔
https://consumeraffairs.nic.in/
قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں ہندوستان کی زبردست کامیابیوں کے باوجود، اس کے آرزؤوں بھرے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کچھ مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، بڑے منصوبوں کے لیے فنانسنگ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے اور آب و ہوا کے فنڈز ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی تبدیلی کے لیے بڑی مدد کر رہے ہیں۔ اندازوں کے مطابق، ہندوستان کو 2030 تک 500 گیگاواٹ کے اپنے آر ای اور غیر قدرتی توانائی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً 30 لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے سفر کو مضبوط پالیسی اور بین الاقوامی شراکت داری سے تعاون حاصل ہے۔ بین الاقوامی سولر الائنس (آئی ایس اے) جیسے اقدامات، جو ہندوستان اور فرانس کے تعاون سے قائم کیے گئے ہیں، دنیا بھر میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔قابل تجدید توانائی پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی سے ہندوستان کے لیے اہم سماجی اقتصادی فوائد ہوں گے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے منصوبے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں اور مقامی اقتصادی ترقی کو تحریک دے سکتے ہیں۔فضائی آلودگی کے بارے میں صحت عامہ کے خدشات کو حل کرنے کے لیے آر ای خاص طور پر اہم ہے، جو کہ بہت سے شہروں میں ایک مسئلہ ہے۔ صاف توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کے نتیجے میں صحت کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی کی قیادت میں، ہندوستان نے اپنی اقتصادی ترقی سے سمجھوتہ کیے بغیر بالکل صفر کے اخراج کے ہدف کی طرف گزشتہ 10 سال میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ ہماری نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت آسمان کو چھو رہی ہے اور یہ مارچ 2014 میں 75.52 گیگاواٹ سے اب 203 گیگاواٹ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ 10 سال میں غیر معمولی 165 فیصد اضافہ ہے۔
اگرچہ چیلنجز باقی ہیں، مسلسل پالیسی ، تکنیکی اختراع اور عالمی تعاون سے 2070 تک بالکل صفر کے ہدف کو حاصل کرنے میں اہمیت کا حامل ہوگا۔ میں اس شعبے، ریاستی سرکاروں اور بین الاقوامی برادری کے سبھی شراکت داروں اور سرمایہ کاروں سے زور دے کر کہوں گا کہ وہ پائیدار مستقبل کے لیے مل کر اس فلیگ شپ ری انویسٹ سمٹ میں شرکت کریں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیزی سے ترقی کرنے والے ملک کے طور پر، ہندوستان کا قابل تجدید توانائی کا سفر دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر کام کرے گا جو پائیداری کی راہ پر گامزن ہے۔