فلسطینی حملے کے بھارتی سیاست پر اثرات

0
0

 

 

 

 

شہاب مرزا
، 9595024421

ویسے تو مسلم دشمنی کے نام پر نفرت کا زہر پھیلا کر بھارت کی عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ حاصل کرنا بی جے پی اور آر ایس ایس کا پیدائشی کام ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں بی جے پی حکومت کا ہر اعلان بے نقاب اور غلط ثابت ہوا ہے 28 پارٹیوں سے بنا "انڈیا گروپ” مودی ، یوگی ، امیت شاہ حکومت کی نیند حرام کر چکا ہے۔ راہل گاندھی کی پد یاترا میں مودی حکومت کو اپنی ارتھی نظر آرہی ہے۔ آنے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے اس حکومت کے پیروں تلے کی زمین کھسکائی ہے۔ ستیہ پال ملک اور سبرامنیم سوامی بی جے پی مودی امیت شاہ حکومت کی پول کھولنے میں مصروف ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری اور منی پور ، نوح فسادات نے عوام کو مودی امیت شاہ میں ہندو توا دی ہتھیار سے متنفر کروایا ہے۔ ان حالات میں جب مودی شاہ کی ترکش کے تمام تیر بے نشان ثابت ہو رہے ایسے میں فلسطین کا اسرائیل پر کامیاب حملہ مودی شاہ حکومت کے لئے زندہ طلسمات ثابت ہو نے کے امکانات روشن کر رہا ہے۔ واضح رہیکہ گذشتہ چار دہائی سے مشہور کیا گیا جو مسلم ملک اپنے حقوق اور دفاع کے لئے میدان میں اترے گا وہ دہشت گردی
اسلئے اب بھارت میں بھی دہشت گردی کا جن دوبارہ بوتل سے باہر نکالنے کا موقع ابن الوقت فطرت کی مودی حکومت کھونا نہیں چاہتی اس میں کوئی شک نہیں کہ عرض مقدس فلسطین تمام عالم کے مسلمانوں کے عقیدے کا حصہ ہے۔ اور پوری صلیبی جنگیں اور حضرت عمر فاروق و صلاح الدین ایوبی کی مجاہدانہ کاوششی اس عقیدے سیوابستہ ہے۔
جب یوکرین روس کے ساتھ جنگ کرتا ہے تو اسے اپنی سرزمین کے لیے لڑنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن جب فلسطینی اپنی سرزمین، اپنے گھر، اپنی مسجد کے لیے اسرائیل سے لڑتے ہیں تو کیا یہ دہشت گردی ہے؟
1948 میں فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیل کی تشکیل کے بعد وہاں کے اصل باشندوں کو مسلسل قتل کیا گیا، ان کے مکانات اور زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں بھگا دیا گیا، گزشتہ 76 سالوں میں اسرائیل حملے کرتا رہا اور مسلمان مرتے رہے، اب بھی فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ اور وہ اپنے ملک کو واپس لینے کے لیے حملہ کیا جس کے بعد پورے اسرائیل میں تباہی مچ گئی۔ فلسطینی اپنے وطن اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔2008 سے اب تک اسرائیل ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں کو ہلاک اور زخمی کر چکا ہے ان میں سے 33,000 بچے تھے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا اسرائیل کو کوئی دہشت گرد نہیں کہتا
وسط ایشیائ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کا پانی اور قارون وقت امریکہ نے اسرائیل نام کا ایک ناجائز ملک بنا رکھا ہے اسرائیل دنیا کے نقشے پر ناسور بن کر رہ گیا ہے۔ اس ناسور پر حماس جیسے مجاہدین کی جانب سے چلائے جانے والے نشتر پر خشک ہونا بھارت سمیت تمام مسلمانان عالم کیلئے کسی عید سے کم خوشی کا موقع نہیں لہندا اس خوشی کا اظہار کرنے ہی کو مودی ،شاہ حکومت دہشت گردی کی حمایت قرار دیتی ہے تو ظاہر ھیکہ آنے والے انتخابات میں مودی حکومت کو اس بہانے سے ووٹوں کی بھیک مانگنے کا موقع حاصل ہو سکتا ہے یاد رہے کہ 26/11 ممبئی حملے کے دوران نریمن پوائنٹ کے متاثرین یہودی بچے سے اسرائیل دورے میں مودی نے بذات خود ملاقات کی تھی اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی تھی اس مرتبہ بھی نریندر مودی نے اسرائیل کے مطالبے کے بغیر اعلان کیا کہ بھارت ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ جبکہ بھارت کی خارجہ پالیسی اور تعلقات برسوں سے فلسطین کے ساتھ ہے اسلئے مودی حکومت کا اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہنا یہ بھارت سرکار کا اسٹینڈ نہیں ہے بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ اسرائیل کو عربوں کی سرزمین واپس دینا ہوگی اور یاد رکھیں کہ اگر کسی ظالم نے کسی کے گھر پر قبضہ کیا تو اسے ایک دن اسے چھوڑنا پڑے گا اور افسوس کہ پوری دنیا فلسطین کے ساتھ ہوگی نہیں، ہاں یقیناً ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہے گا، یہ بھارت حکومت کا موقف ہے۔
لیکن ابن الوقت بھارت کے اندھ بھکت نریندر مودی کی "وشوگرو ” ہونے کی تصویر چسپاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ھیکہ ملک کہ بھوکے، پیا سے، محروم اور انپڑھ اندھ بھکت اپنی تمام محرومیوں کو اسی خمار میں بھول جاتے ھیکہ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ملک کی عالمی پالیسی فلسطین اور روس کے ساتھ بہتر دوستانہ رشتے کی حامل ہے اور فلسطین اسرائیل کے ظلم و ستم سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے، اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور وہ مسلسل فلسطینیوں کو اپنے ہی گھروں سے نکال رہا ہے۔ حماس کا حملہ ان کے خلاف ظلم کو روکنے اور اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اب وزیراعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ فلسطین اسرائیل معاملے میں حکومت کا موقف پیش کریں نا کہ بی جے پی کا موقف اور اپنے من کی بات کریں …

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا