غیروں کے آئینے میں نہیں اپنے گریبان میں جھانکئے!!

0
69

 

 

 

 

 

 

 

وقت کےساتھ ہر انسان کے جینے کے سلیقے ،آداب ،انداز سب کچھ بدل رہے ہیں، قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے ہاتھ گاڑی بیل گاڑی سے بڑھتے بڑھتے سائیکل، موٹر سائیکل، کار سے لیکر ہوائی سفر عام ہوچکا ہے ۔ پہلے کسی کی خیریت بھی جاننے کے لئے کئی کئی دن گذرجایا کرتے تھے پر آج جدیدٹیکنالوجی کے ذریعہ ایک ہی پل میں دنیا کے کسی بھی کونے سے جڑ جاتے ہیں اور ان بدلتے وقت حالات کے مطابق ہر انسان خود کو ڈھال رہا ہے جس میں ہم مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ الحمدوللہ ۔۔ وقت کیساتھ ہر انسان کے جینے کے سلیقے ،آداب ،انداز سب کچھ بدل رہے ہیں، قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے ہاتھ گاڑی بیل گاڑی سے بڑھتے بڑھتے سائیکل، موٹر سائیکل، کار سے لیکر ہوائی سفر عام ہوچکا ہے ۔ پہلے کسی کی خیریت بھی جاننے کے لئے کئی کئی دن گذرجایا کرتے تھے پر آج جدیدٹیکنالوجی کے ذریعہ ایک ہی پل میں دنیا کے کسی بھی کونے سے جڑ جاتے ہیں اور ان بدلتے وقت حالات کے مطابق ہر انسان خود کو ڈھال رہا ہے جس میں ہم مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ الحمدوللہ ۔۔ مسلمان بھی زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر ہر شعبۂ حیات میں کامیابی حاصل کر خود کی قابلیت کو ثابت کرتے ہوئے بڑے سے بڑے اسپتالوںسے لیکر یونیورسٹی، بینکنگ جیسے کئی شعبوں میں اپنا مقام حاصل کیاہے۔لیکن مسلمانوں کی ایک بات پہ افسوس ہوتا ہے جہاں ہر شعبےمیں قدم سے قدم ملاتے ہوئے کامیاب ہورہے ہیں وہیں کاندھے سے کاندھے ملاکر اپنا قد اپنی طاقت نہیں دکھا پارہے شاید یہی وجہ ہے آئے دن دنیا کے ہر کونے میں مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہورہے ہیں۔ مسلمانوں نے آرام دہ زندگی گذارنے کی خاطر تمام جدید تریں آرائشیں تو حاصل کرلی پر کبھی خود کے لئے اپنی قوم یا ملت کی حفاظت کے لئے طاقتور ہتھیار خریدنا ضروری نہیں سمجھا۔ جہاں ہتھیار وں کا ذکر آتا ہے تو ہر انسان کے ذہن میں بس تلوار، بم و بندوق نظر آ تے ہیں جبکہ آج یہ ہتھیار بھی اپنی طاقت کھوچکے ہیں اور یہ صرف انسانوں کو جسمانی طورپر نقصان پہنچانے کے کام آرہے ہیں ۔ افسوس اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی مسلمان یہ نہیں سمجھ پائے کے آج کے دور میں تلوار ، بم و بارود جیسے ہتھیاروں کو پیچھے چھوڑ کرایک ایسا ہتھیار خطرناک شکل اختیار چکا ہے جسکا ایک ہی وار وائرس کی طرح ساری دنیا میں پھیل کر کچھ ہی پلوں میں انسانوں کے ذہنوں پر ایسا حملہ آور ہوتا جارہاہے کہ لوگ اب ذہنی طور پر ایک طرح سے مفلوج ہورہے ہیں ۔ یہ ہتھیار الیکٹرانک میڈیا ہے جو آج غیر مذ ہب اور چند سیاستدانوں کے ہاتھوں بک کر انکے خطرناک منصوبوں اور مسلمانوں کے خلاف رچی سازشوں کو کامیاب کرتے ہوئے ہر غیر قانونی کاموں کے لئے راہیں ہموار بنارہا ہے اور ہم مسلمان لگاتار اس ہتھیار کا شکار بنے مظلومیت کا رونا رورہے ہیں ۔جسکی ہچکیاں صرف ہمارے ہی گلیوں کے چوراہوں پہ پہنچ کر دم توڑ رہی ہیں ناجانے ہر دن ہر پل کتنے ایسے بے گناہ معصوم مسلمان کس طرح کے ظلم و ستم سے دوچار ہورہے ہونگے جنہیں نہ اپنی بات کہنے کا کوئی ذریعہ مل رہا ہے نہ کوئی انکی آواز دنیا کے سامنے لاتے ہوئے انکی طاقت بن کر ان پر ہورہے ظلم و ستم کو دنیا کے روبرو کر انہیں ظالموں کے چنگل سے نجات دلاپارہے ہیں ۔ ان حالات کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کی الیکٹرانک میڈیا سے محرومی ہے۔ ہمارے صحابہ رضی اللہ عنہ کے گھروں میں بھلے کئی کئی دنوں تک فاقے ہوا کرتے تھے پر انکے گھر کبھی ہتھیار سے محروم نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ انکی زندگیوں میں جتنے بھی معرکے ہوئے، جنگیں ہوئیں ان کو کامیابی حاصل ہوئی ۔پر ہر بدلتے وقت کے ساتھ ہتھیار کے روپ اور معنی بھی بدلتے ہیں اسلئے آجکا سب سے طاقتور ہتھیار میڈیا کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا جسکی طاقت کا اندازہ سیاستدان سے لیکر کئی تنظیمیں اٹھارہی ہیں اپنے مفادات کے لئے اپنا ذاتی میڈیا ہائو س قائم کر اسکے ذریعے اپنے جرائم کو چھپا کر جھوٹ کو سچ، سچ کو جھوٹ، کالے کوسفید ،سفید کو کالا اور صحیح کو غلط ثابت کر مسلمانوں پہ لگاتار وار کرسکیں۔ انکے علاوہ باقی جو بکی ہوئی میڈیا ہے وہ بھی مسلمانوں کو وہی آئینہ دکھا رہی ہے جو مسلمانوں کے دشمن دکھانا چاہتے ہیں اور ہم بیوقوف بنکر انکے آئینے میں ایسا عکس دیکھ رہے ہیں جس میں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کے پیش کیا جارہا ہے جیسے بےچارے روہنگیا ئی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی لگاتار کوشش کی گئی تھی آخر مسلمان اس جدید زمانے میں رہنے کے باوجود بھی کیوں ابھی تک پچھڑے ہوئے ہیں ؟؟؟۔ جب بھی کسی قوم کا زوال شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل پہ پردہ پڑتا ہے ، کبھی اپنی عقل پہ پردہ پڑنے نہ دیں سمجھ بوجھ سے کام لیں ۔مسجدیں مدارس تو ہم بہت بنارہے ہیں پر آئے دن ان پہ ہورہے حملے ان پہ لگائے جانے والے بے بنیادی دہشت گردی کے الزامات کو جھٹلانے،جواب دینے کے لئے میڈیا سے بہتر وسائل اور کوئی نہیں ۔ میڈیا ایک ایسا واحد ذریعہ ہے جس سے بڑی سے بڑی طاقت ڈرتی ہے۔ آج بکی ہوئی میڈیا چینلز پہ آرگئیومنٹس کے نام پہ جاں بوجھ کر ہمارے چند نوسیکھے مسلمان بھائیوں کو بٹھاکر جس طرح سے دنیا کے آگے ہمارے علمائوں اور اسلام شریعت کا مذاق بنارہے ہیں یہ سب دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ خدا کے لئے اپنی قوم آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل اور آگے چل کر آنے والی سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے جو صاحب استطاعت ہیں وہ ثواب جاریہ کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو بڑھ چڑھ کر اپنا تعاون کر ہر شہر میں مسلمانوں کا میڈیا ہائوس قائم کرنے کی پہل کریں جو کسی سیاستدان کے مطلب ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ہر مظلوم مسلمانوں کی آواز انکی طاقت بن کے قوم کی خدمت کرتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام کرسکے انہیں منہ توڑ جواب دے سکے آج تک ہم مطلب پرستوں، دشمنوں اور دلالوں کا آئنہ بہت دیکھ چکے ابھی انشاء اللہ مسلمانوں کو اپنا سچائی اور حق کی بنیاد پہ بنا آئینہ ساری دنیا کو دکھانا ہے اور دنیا کے ہر کونے میں بسے بے گناہ مظلوم کمزور مسلمانوں کے آنسو پونچھتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہے ۔انشا ءاللہ آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا