خورشیدبسملؔ
ہزار درد وہ دل میں چھپائے رکھتا ہے
یہ اور بات ہے چہرہ سجائے رکھتا ہے
کتابِ زیست کے اوراق اس نے خوب پڑھے
وہ دشمنوں سے بھی رشتے بنائے رکھتا ہے
اڑاکے لے گیا اک روز جو مری نیندیں
وہ خواب آج بھی مجھکو جگائے رکھتا ہے
انا کے زہر نے شل کیں بصیرتیں جسکی
وہ سب کی راہ میں کانٹے بچھائے رکھتا ہے
وہ نامراد رہا اور نہ پاسکا منزل
فقط نصیب پہ تکیہ لگائے رکھتا ہے
دعائں دیتے ہیں اُس پیڑ کو سبھی بسملؔ
جو اپنی شاخ کو پھل سے جھکائے رکھتا ہے
9622045323