غزل

0
0
شام ہوتے ہی وہی گھر اور در میرا بھی ہو
کیا ضروری ہے ترا سمتِ سفر میرا بھی ہو
چاہتا ہوں پھر وہی کرب و بلا برپا اور
اس یزیدِ وقت کے نیزے پہ سر میرا بھی ہو
آرزو ہے اس کتابِ زندگی کے باب میں
حرفِ حق پر کچھ نہ کچھ زیر و زبر میرا بھی
اس تگ و دو میں گزرتی ہے مری شام و سحر
میرے بچوں میں کوئ علم و ہنر میرا بھی ہو
میں نے اعلانِ محبت کر دیا ہے اس لۓ
کچھ تو دامن آرزو کا تر بتر میرا بھی ہو
آپ کا ہو یا کہ ہو اغیار کا ذوقِ سفر
شرط ہے ہر کارواں میں راہبر میرا بھی ہو
عمر بھر اہلِ وفا نے جیسے کی آوارگی
کیا ہی اچھا ہو جنوں ایسا اگر میرا بھی ہو
سارے منظر ہی حسیں کر لوں گا میں بھی ایک دن
متفق پہلے تو کچھ ذوقِ نظر میرا بھی ہو
کاش کہ ایسا بنا دے تو بھی نادر شاہکار
عکس اس کے آٸینے میں شیشہ گر میرا بھی ہو
کیا برا  ہے اے مرے ہمزاد تیرے ساتھ ہی
حق کوئ ممتازؔ اصلاحی  پہ گر میرا بھی ہو
                 ***(☆)***
*ممتازؔ قریشی*
سراۓ میر اعظم گڑھ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا