علماء دین یا سیاست میں کسی ایک کا انتخاب کریں

0
0

ابراہیم آتش
کرناٹک 9916729890

علماء انبیاء کے وارث ہیںاور امت مسلمہ میں ان کا بہت اونچا مقام ہے جب ہم ایک نظر علماء حق پر ڈاتے ہیں توہمیں ان کی بے شمار قربانیاںنظر آتی ہیںان مدرسوں سے فارغ طلباء اسلام میں آکسیجن بھرنے کا کام کر رہے ہیںپچاس سال پہلے علاء اس طرح کثیر تعداد میں نہیں تھے جس طرح آج ہمیں نظر آ رہے ہیںآج ہم دیکھ رہے ہیں ملک کا کوئی ایسا تعلقہ نہیں ہوگا جہاں دینی مدرسہ موجود نہ ہو اور اگر شہروں کا جائزہ لیں تو بے شمار مدرسے او ر وہ بھی مختلف مسلک کے نظر آئیں گے ہندوستان میں دین کے اعتبار سے دیکھا جائے تومسلمانوں کی سب سے بڑی انڈسٹری کہی جا سکتی ہے جہاں سے عالم ,حافظ اور مفتی بن کر تیار ہو رہے ہیںاور یہ تمام فارغ ہونے والے طلباء کی اکثریت غریب گھرانوں سے ہوتی ہے یا اوسط گھرانوں کی ہوتی ہے دولتمند گھرانوں کی طلباء شاذ و نادر ہی دیکھے جاتے ہیںغریب والدین جو دینی مزاج رکھتے ہیںوہ عصری تعلیم کے بجائے دینی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اس کی وجہہ ایک یہ بھی ہوتی ہے دینی مدرسوں میں تعلیم مفت میں مل جاتی ہے کیوں کے دینی مدرسے مسلمانوں کے چندہ و دیگر عطیاجات پر چلتے ہیں جس کے لئے ملک بھر میں چندہ وصول کرتے ہوئے دینی مدرسوں کے سفیر ہمیں دکھائی دیتے ہیں مدرسوں سے فارغ ہونے والے طلباء چاہے وہ کسی بھی مسلک کے ہوں بہترین مقرر بن کر نکلتے ہیں قرآن کی کچھ آیات اور حدیث پر ان کو عبور حاصل ہوتا ہے جس کا نظار ہ اکثر بیانوں میں ہمیںنظر آتا ہے مدرسوں میں زندگی کے اہم دس بارہ سال علم حاصل کرنے کے بعد وہ کسی مسجد میںامامت یا مدرسے میں معلم کی خدمت انجام دینے لگتے ہیںمسجدوں میں زیادہ دنوں تک امامت ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مسجد کی کمیٹیاں ان پر اس قدر دبائو ڈالتی ہیں کہ وہ تنگ آکر یا پھر ان کی تنخو اہ نا کافی ہو نے کی وجہہ سے دوسری مسجد کا رخ کرتے ہیں اس طرح کا عمل مسلسل چلتا رہتا ہے ایک مسجد سے دوسری مسجد ایک شہرسے دوسرے شہر اور ایک ریاست سے دوسری ریا ست اور آخر میں اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ خود کا کوئی مذرسہ قائم کریں یا امامت سے سبکدوش ہو کر تجارت یا سیاست کو منتخب کریں سیاست اماموں کے لئے آسان اس لئے ہوتی ہے کہ ان کے رشتے سیاست دانوں سے اچھے ہوتے ہیں یہ ان تمام علماء کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ جن کی دلچسپی سیاست میں دیکھی جاتی ہے سیاسی جلسوں میں قرائت پاک اور تعت شریف کے لئے ان ہی کو بلایا جاتا ہے اور بعض مقامات پر سیاسی لیڈر اس قدر ان پڑھ ہوتے ہیں تقریر بھی نہیں کر سکتے وہ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو رکھتے ہیں جو اپنی تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کا دل موہ لیتے ہیں جب اماموں کو سیاسی جلسوں شہرت ملتی ہے تو پھر پیچھے موڑ کرنہیں دیکھتے ان کا سفر شہر در شہر جاری رہتا ہے اماموں کو سیاست کا و سیع تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ان کے پاس مالی وسائل ہوتے ہیں کسی الیکشن میں کھڑے ہوں اس کے باوجودسیاست میں وہ اہم رول ادا کرتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں گودی میڈیا میں ہر دن فرضی علماء کو دیکھ کر ہر مسلمان شرمندہ ہو رہا ہے کس طرح یہ لوگ اسلام کا مذاق بنا رہے ہیں چند سکوںکے عوض اپنے آپ کو بیچ رہے ہیںاور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں
ا ن لوگوں کو سب کچھ معلوم ہے ان کو کس مقصد کے لئے بلایا جاتا ہے اس کے باوجود اپنے نام کے لئے اور سکوں کے لئے ان چینلوں کے گیٹ پر کھڑے ہو جاتے ہیں کب انھیں بلایا جائے گا علماء کا ایک مخصوص طبقہ سیاست سے وہ سب چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کو دین کے میدان سے میسر نہیں ہوتا ملک میں دانشورں کی کوئی وقعت نہیں رہی ہر میدان میں یہی علماء نظر آتے ہیں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس پارٹی کو ووٹ نہیں دینا اور بعد میںان سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں سے ملاقاتیں اور الیکشن میں کامیابی کو اپنے سر لینا ہمیں نظر آتا ہے یہاں تک دیکھا جا رہا ہے کسی بھی سیاسی پارٹی پر اس قدر دبائو بنایا جاتا ہے فلاں فلاں شخص کو ٹکٹ نہ دیا جائے اور فلاں فلاں شخص کو وزارت میں شامل کیا جائے غلطی صرف ان ہی کی نہیں ہے ان سیاسی لیڈروں کی بھی ہے جنھوں نے ان کا استعمال کیا ہے علماء اگر سیاست میں حصہ لیں تو سیاسی حضرات کیا کریںاور دین کا کام کون کریں یہ سوال پیدا ہوتا ہے سیاست اتنی دلچسپ اور پسندیدہ کیوں ہوگئی ہے ہر کوئی سیاسی میدان میں کسی نہ کسی طرح کودنا چاہتا ہے اگر اس کا جواب جاننا چاہیں تو یہ لوگ یہی کہیں گے گندے لوگوں کی وجہہ سے سیاست گندی ہوگئی ہے اس لئے اس کو پاک کرنے کے لئے اچھے لوگوں کا سیاست میں آنا ضروری ہے دینی امور کو انجام دیتے ہوئے کوئی شخص سیاست میں حصہ لے تو ہم کہہ سکتے ہیں گندی سیاست کو پاک کیا جا رہا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے یہ مذہبی حضرات دینی امور سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں اور سیاست کو اوڑھنا بچھانا بنالیتے ہیںجب ااس طرح کا ماحول دیکھتے ہیں تو کوفت ہوتی ہے زندگی کے اتنے قیمتی سال مدرسوں میں گذارنے کے بعد آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مقصد تو فوت ہوگیا جس کے لئے مدرسے کی پڑھائی حاصل کی تھی اور ایک بات ہمیں دیکھنے میں یہ آتی ہے سیاست سے دین کی طرف کوئی رخ نہیں کرنا چاہتا ہے چاہے سیاست میں کتنی ہی نا کامی اور ہزیمت اٹھانی پڑ ے وہ کبھی دین کی خدمت کے لئے مسجدنہیں آئے گا البتہ دین کی خدمت میں جو لوگ لگے ہوئے ہیںوہ سیاست میںچھلانگ لگاتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں
اس میں کچھ تو بات ہے جس کی پردہ داری ہے بعض لوگ خلفاء راشدین کی مثالیں دیتے ہیں وہ کس طرح سیاست اور دین کو ایک ساتھ لے کر چلتے تھے بے شک ہر مسلمان کو خلفاء راشدین پر رشک کرنا چاہئے ان کی زندگی خالص اللہ کو راضی کرنے کے لئے تھی تبھی تو اللہ بھی ان سے راضی ہو گیا اس لئے انھیں رضی اللہ کہا جاتا ہے اللہ پر ان کا کامل یقین تھا وہ کسی بادشاہ سے مرعوب نہیں ہوتے تھے تقوی اور پرہیز گاری کی بے شمار مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جب بیت المقدس پر حضرت عمر فاروق ؓنے فتح حاصل کی اس وقت ان کے لباس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے ان تمام علمائوں کے لیء یہ ایک مثال کافی ہے جو سیاست اور دین کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں جو اپنے آپ کو خلفاء راشدین کی طرح حکومت کرنے کا عزم رکھتے ہیںبادشاہوں کا اور علمائوں کا رشتہ کس طرح رہا ہمیں امام ابو حنیفہ کی زندگی سے ملتا ہے خلیفتہ المنصور نے امام ابو حنیفہؓ کو بلایا اور پوچھا ,, یہ حکومت جو اللہ تعالی نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے اسکے متعلق آپ کا خیال کیا ہے کیا میں اس کا اہل ہوں ,, امام ابو حنیفہ نے جواب دیا ,,اپنے دین کی خاطر راہ راست تلاش کرنے والا غصے سے دور رہتا ہے اگر آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو آپ کو معلوم ہوگا آپ نے اللہ کی خاطرنہیں بلایا ہے بلکہ آپ چاہتے ہیں ہم آپ کے ڈر تے آپ کی منشا کے مطابق بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آجائے امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اس طرح خلیفہ بنے ہیں آپ کی خلافت پر اہل فتوی لوگوں میں سے دو آدمیوں کا بھی اجماع نہیں ہوا ہے حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجماع اور مشورے سے ہوتی ہے آج صرف مسلمانوں میں نہیںبلکہ تمام مذاہب کے مذہبی رہنمائوں کا سیاست اور معاشرے پر گہرا اثر رسوخ ہے سیاسی لیڈر ان ان کی مرضی کے بغیر اپنا کوئی گھریلو کام کاج انجام نہیں دیتے ہیں یہ بہت ہی تشویش کی بات ہے موجودہ دور میں ہمارے نام نہاد علماء اور اماموں کی سیاست دانوں اور امیر لوگوں کے ساتھ دوستی عام لوگوں کے تیئںشکوک پیدا کرتی ہے کیونکہ اسلام کے اسلاف کی وہ پیروی نہیں ہے جس پر وہ چل رہے ہیں حضور ﷺ کی زندگی خلفاء راشدین کی زندگی اور اماموں کی زندگی میں اس طرح کہیں بھی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا