لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍پروفیسر سیف الدین سوزؔ، سابق مرکزی وزیر نے کہا ہے کہ’’ مجھے لگتا ہے کہ جموںوکشمیر کے لوگ ، بلا لحاظ پارٹی ، یہ سوچنے لگے ہیں کہ مودی۔ امت شاہ 2019ء کے عام انتخابات کو نظر میں رکھ کر تعمیر و ترقی کے پروپگنڈا کو خیرباد کہہ کر ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھانے کی تگ و دو میں ہے۔اس دو نفری قیادت کو کرناٹک میں کانگریس کی کامیاب سیاست کے بعد پے در پے ضمنی انتخابات میں شکست پانے کے بعد اپنا تعمیر و ترقی کا پروپگنڈا ترک کرنے کی مجبوری پیدا ہو گئی ہے اور وہ کانگریس پارٹی کے قومی سطح کے حز ب اختلاف کے ساتھ قریبی رابطے سے زبردست خوفزدہ ہے اور وہ صرف فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہی اپنا ہتھیار سمجھنے لگے ہیں۔ اُن کی فرقہ پرستانہ سوچ ہندوستان کیلئے بہت نقصان دہ ہوگی مگر وہ کسی طرح کامیاب ہونے کیلئے اسی قوم دشمن پالیسی کو ترجیح دیںگے۔دراصل راہول گاندھی نے اپنی سیاسی بے نفسی (Unilateralismٌ)سے نہ صرف کانگریس کی کامیابی کا راستہ ڈھونڈا ہے بلکہ ہندوستان کے حزب اختلاف میں اتحاد کی نئی جوت جگائی ہے!آج کے دن بی جے پی مودی ۔امت شاہ کی دو نفری قیادت اگر کسی غم میں مبتلا ء ہے تو وہ صرف 2019ء کے عام انتخابات ہیں۔یہ بات سارے ہندوستان کیلئے نقصان دہ اور بدقسمتی کی بات ہوگی کہ مودی اور امیت شاہ مل کر ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو بڑھانے کی بھر پور کوشش کریںگے اور ابھی پہلے ہی قدم پر وہ تعمیر و ترقی کے پروپگنڈا کو ترجیحی بنیاد پر استعمال نہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ مودی اور امت شاہ کے فرقہ ورانہ منصوبے سے ہندوستان کی سیاست کو زبردست نقصان پہنچے گا مگر اُن کو کسی بھی طرح 2019ء کے عام انتخابات جیتنے کی تمنا ہے۔ حالانکہ وہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ دریں اثناء سیاسی اختلافات سے بالا تر ہوکر ریاست جموںوکشمیر کی سبھی سکیولر جماعتوں کو کم از کم اُس حد تک متحد ہونا چاہئے جو حد بی جے پی کو ریاست جموںوکشمیر میں شکست فاش دینے کیلئے کافی ہوگی!میں موجودہ صورتحال کو جموںوکشمیر کی ساری سکیولر جماعتوں کیلئے ایک چیلنج کے ساتھ ساتھ ایک نادر موقع بھی سمجھتا ہوں۔مجھے نظر آرہا ہے کہ بی جے پی اپنی فرقہ ورانہ سیاسی مہم کیلئے جموں ہی کو منتخب کرے گی اور یہ کوشش ریاست جموںوکشمیر کیلئے نیک فال نہیں گا۔ ‘‘